امریکی صدر ٹرمپ کی دعوت پر وزیراعظم پاکستان عمران خان
نے امریکہ کا دورہ کیا۔اگرچہ شاہ محمود قریشی کے استقبالیہ وفد میں شامل
ھونے سے دوستوں نے ملتان اترنے کا طعنہ دیا لیکن ایک بڑے اسٹڈیم میں عمران
خان کے استقبال اور ایک بڑے جلسے سے خطاب سے یہ ضرور محسوس ھوا کہ وہ لاہور
یا ملتان میں ھیں۔ایسی عزت اور احترام کسی وزیر اعظم کے حصے میں نہیں آئی ۔سلیکٹڈ
کا نعرہ لگانے والے دیکھ سکتے ہیں۔ایک بات جو ذولفقار علی بھٹو بھی کہا
کرتے تھے کہ بادشاہ کی سفارش پر بھی آ ئی مگر میں نہیں مانا۔یہ عمران خان
کے مضبوط ارادوں کی مثال ھے تاھم اس پر رجوع کیا گیا ہے۔اب کی نہ ھو تو یہ
بھی پہلی مرتبہ ھو گا۔پاکستان میں وراثتی سیاست کا گٹھ جوڑ پہلی مرتبہ
نوجوانوں اور عمران خان نے توڑا ھے اور ملک میں موجود " بڑوں"اشرفیہ اور
غلامانہ سوچ کے حامل نظام کو ھضم نہیں ھو رھا تھوڑا" شکم کثیر" اور باطن "
کثیف" کا مسئلہ ہے۔جو خفیف اور نفیس ھو جائے گا۔بیماری اس قدر بڑھ چکی ھو
تو علاج میں وقت تو لگے گا۔عمران خان نے جب سیاست شروع کی تھی اس وقت خان
کا ووٹر سکول میں داخل ھوا تھا۔ جس نے 2018 میں نہ صرف ووٹ دیا بلکہ اپنے
والدین کو بھی قائل کر دیا۔وہ کم ازکم عمران خان کا ساتھ چھوڑنے والا نہیں
ہے۔باقی مریم نواز یا بلاول بھٹو جب تک اپنے اندر جمہوری،شخصی اور موروثی
تبدیلی نہیں لائیں گے خان کا مقابلہ تو دور کی بات عوام کا سامنا مشکل ھو
جائے گا۔سیاست میں میرٹ،جمہہوریت کے یہ لوگ قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اداروں
کو اس پالیسی پر کاربند کیا گیا ہے۔جس کا نقصان پوری قوم بھگت رہی ہے۔البتہ
خان صاحب نے اعلان کیا ہے کہ آ کر جیل کا اے سی اتروا دوں گا تو گزارش ہے
کہ فی الحال رہنے دیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ " ھم نے کوئی کیس نہیں بنایا"
بلکہ اداروں کو آزادانہ فیصلوں کا اختیار دیا ماضی میں یہی ادارے نواز شریف
صاحب اور زرداری صاحب کے محافظ اور قانون وانصاف گھر کی لونڈی ھوا کرتا
تھآ۔اب خان صاحب نے جیل سے رہائی پانے کا طریقہ بتا دیا ھے "پیسے دو ابے لے
جاؤ۔"میرے خیال میں اس سے مناسب حل کوئی نہیں۔انہیں جلدی کرنی چاہیے یہ نہ
ھو یہ فیصلہ بدلنا شروع ہو جائے۔امریکہ میں جلسہ عام جس میں امریکہ کی تمام
ریاستوں اور کینیڈا سے بھی پاکستانی کمیونٹی نے بھرپور شرکت کی ایک نئی
مثال بن گئی ہے۔خان نے کسی کے سامنے نہ جھکنے کا اعلان بھی کیا اور تاجروں
سرمایہ داروں سے کہا کہ وہ ٹیکس نیٹ میں آئیں یہ بھی پہلی مرتبہ ھو رھا ھے
کہ کوئی حکمران بلیک میل نہ ھونے کا اعلان کر رھا ھے۔سرمایہ کاروں کو
پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔امن سے فایدہ اٹھا کر کئی سرمایہ کاروں
کو اس خطے میں پاؤں جمانے کا بہترین موقع مل سکتا ہے۔عسکری قیادت بھی مو
جود ھے دفاعی تعاون اور افغانستان کے مسئلہ کا پر امن حل اور پاکستان کی
مرکزی حیثیت بھی اہم کردار ادا کر سکتی ھے۔امریکی صدر سے ملاقات کے بعد
پاکستان کے معاشی اور دفاعی معاملات بھی نئے راستوں پر ھوں گے
|