کیا ایکشن لیا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا کھیل
ہو رہا ہے، یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوتا ہے ۔ ایکشن لینے والے کوآپ چیلنج
نہیں کر سکتے کہ وہ جس بڑی کرسی پر براجماں ہے وہ اقتدارکی کرسی ہے اور
اقتدار ہمیشہ اندھا ہوتا ہے، آنکھوں سے کم اور عقل سے زیادہ۔مگر سب جانتے
ہیں اقتدار کا حامل شخص حرف آخر ہوتا ہے۔ وہ صرف اپنے سے برتر کی بات
سمجھتا اور مانتا ہے ۔اس ملک میں ایسا ہر با اقتدارشخص لہریں گننے اور اس
سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔اسے موقع ملا ہوتا ہے اس لئے وہ
عقل کل ہوتا ہے اور باقی سب کیڑے مکوڑے۔اور کیڑے مکوڑے فقط کچلنے کے لئے
ہوتے ہیں۔ ہمارے لوگ بھی عجیب ہیں۔ نہ کسی غلط بات پر بولتے ہیں اور نہ کسی
ظلم پر۔ ان کے رویوں سے لگتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ضمیر مردہ، احساس
مردہ، حمیت مردہ۔ پھر بھی ہم خود کو زندہ کہتے ہیں۔
پوری دنیا میں حکومتیں بنیادی پالیسی دیتی ہیں باقی سب تعلیمی اداروں کی
ذمہ داری ہوتی ہے کہ حکومتی فریم ورک میں رہتے ہوئے آزادی سے کام
کریں۔۔خصوصاً یونیورسٹیاں تو مکمل آزاد ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے
دباؤ ڈالنا ہوتا ہے، بلیک میلنگ کرنا ہوتی ہے۔ اپنے مفادات حاصل کرنا ہوتے
ہیں۔ چنانچہ اداروں کی آزادی سلب کرنے کے لئے کئی حربے آزمائے جاتے ہیں ۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کمیشن بھی دو دو
ہیں، مرکزی اور صوبائی۔دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور اسی کے لئے دونوں
آپس میں بھی پنجا آزمائی کرتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف
پاکستان نے پنجاب یونیورسٹی کو 55 پی ایچ ڈی اور69 ایم ایس سی/ ایم فل
پروگراموں میں نئے داخلے سے روک دیا۔اس لئے کہ پی ایچ ڈی پر وگرام کے لئے
تین مستقل پی ایچ ڈی ہولڈر اور ایم ایس/ ایم فل کے لئے دو مستقل پی ایچ ڈی
ہولڈرز کی ڈیپاٹمنٹ میں موجودگی لازمی ہے۔جو پنجاب یونیورسٹی کے ان
ڈیپارٹمنتس میں موجود نہیں تھے۔ پنجاب یونیورسٹی وہ ادارہ ہے کہ جہاں نہ
صرف وافر استاد موجود ہیں بلکہ یہ لاہور کی تمام پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو
اساتذہ کی شکل میں وافر قوت فراہم کرتی ہے۔ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی
تدریسی زبوں حالی کی طرف کوئی نہیں دیکھتا، وجہ سب کو پتہ ہے۔ صورت حال کے
را ز دان کہتے ہیں کہ کسی پرائیویٹ یونیورسٹی نے کچھ وہ مضامین پہلی دفعہ
شروع کئے ہونگے جو پنجاب یونیورسٹی میں پہلے سے چل رہے تھے ۔انہیں داخلہ
بھی کرنا ہو گا، چنانچہ طلبا کو اس طرف متوجہ کرنے کا یہ سارا ڈرامہ کسی مک
مکا کا شاخسانہ تھا، اس کے سوا کچھ نہیں۔
پچھلی حکومت میں ہر پوسٹنگ کے لئے ایک خاص میرٹ تھااور وہ تھا حوالہ۔ کوئی
نام نہاد سیاسی لیڈر جس کا تعلق حکمران پارٹی سے ہو، آپ کاواقف ہو اور آپ
کے بارے یہ ضمانت دے دے کہ حکومتی احکامات اور مفادات کو آپ خاص اہمیت دیں
گے ، حکومتی لوگوں کے کہے کو پوری اہمیت دیں گے، ان کے مفاد کے لئے کچھ غلط
بھی کرنا پڑے ، آپ کر گزریں گے تو ہر کرسی آپ کو سجے گی اور اگر یہ آپ کے
بس کی بات نہیں تو گھر جائیں۔اس کام کے لئے حکومت کے پروردہ ارکان پر مشتمل
حکومتی کمیٹیاں اسی خاص معیار کے مطابق کام کرتی تھیں۔ تبدیلی کے منتظر
عوام پریشان ہیں کہ انداز میں تبدیلی تو دور کی بات، ایک سال ہونے کے
باوجودکمیٹیوں کے ارکان بھی پوری طرح تبدیل نہیں ہو سکے۔میں چونکہ آج کل
یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں اورنہ چاہتے ہوئے بھی یونیورسٹی کے مسائل پر نظر
رہتی ہے ، میں نے دیکھا ہے کہ وائس چانسلرز کی سلیکشن کے لئے کمیٹی میں جو
ارکان ہیں،کم و بیش سارے کے سارے و ہی یاویسے ہی ہیں جیسے پچھلے دور میں
تھے اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ لوگ فہم وفراست میں، علم و آگہی میں، ذہانت
میں اور تعلیمی قابلیت کے حوالے سے کسی طرح بھی انٹریو دینے والوں سے بہتر
نہیں ہوتے۔انٹریو دینے والے مجبور ہیں کہ وہاں جائیں وگرنہ خوش کوئی نہیں
ہوتا۔آج کا میرٹ بھی وہی حوالہ ہے۔ آپ بزدار صاحب کے واقف یا ان کے علاقے
کے ہیں تو وائس چانسلر بھی آپ اور پرو وائس چانسلر بھی آپ۔چاہے آپ سینارٹی
میں چوتھے نمبر پر ہوں یا دسویں۔یونیورسٹی لاکھ سینئر ترین تین لوگوں کے
کیس بھیجتی رہے مگر سلیکشن کسی انجانے کی ہو جاتی ہے۔آپ سینئر ہیں یاجونیئر
کسی سیاستدان کو اس سے کوئی غرض نہیں ،ہاں کوئی تعلق حکمرانوں سے بن جائے
توہما آ پ ہی کے سر پر بیٹھے گا۔ کسی کی حق تلفی سے آپ کو کیا۔وہ پرانے
زمانے تھے جب جیتا جاگتا پرندہ ہما کہیں سے اڑ کر آتا تھا اور سر پر بیٹھ
جاتا تھا۔ اب تو اہل اقتدار کے ہاتھ میں پلاسٹک کا شاید چائنہ کا بنا ہما
ہوتا ہے جب چاہا کسی کے سر پر رکھ کر تالی بجا دیتے ہیں۔ اب بھی میرٹ کا
وہی پرانا معیار ہے۔تبدیلی یہی ہے کہ اب تبدیلی کے داعیوں کی مرضی چلتی ہے
جو پہلے کسی اور کی چلتی تھی۔ مگر بادشاہی نظام وہی ہے جو پہلے تھا۔فقط
بادشاہ بدلے ہیں۔
سرکاری یونیورسٹیوں میں حکومتی مداخلت اک عرصے سے انتہا پر ہے۔ایک ہائر
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہے، ایک ہائیر ایجوکیشن کا وزیر ہے، ایک ہائر ایجوکیشن
کمیشن پنجاب ہے اور اسی طرح مرکز کے تمام محکموں کے علاوہ وفاقی وزیر تعلیم
اور جناب گورنر پنجاب سبھی سرکاری یونیورسٹیوں کو اپنی راج دھانی جانتے ہیں
اور مداخلت اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں جہاں توجہ کی اصل اور
زیادہ ضرورت ہے، جہاں سٹاف بھی کم ہے، فیسیں انتہائی زیادہ ہیں۔ تعلیمی
معیار بھی پست ہے، ان کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں اس لئے کہ پرائیویٹ
یونیورسٹیوں کے مالکان ایک تو بہت با اثر ہوتے ہیں، دوسرا جوڑ توڑ کرنے میں
بھی انہیں کوئی عار نہیں ہوتا جب کہ جوڑ توڑ سرکاری اہلکاروں کی کمزوری
ہوتی ہے۔ حکومت اگر واقعی تعلیم میں تبدیلی چاہتی ہے تو سرکاری یونیورسٹیوں
کی کارکردگی پر نظر ضرور رکھے مگر انہیں تما م سرکاری یونیورسٹیوں کو مکمل
آزادی دینا ہو گی۔ وہ یونیورسٹیاں جہاں دس سے زیادہ پروفیسر ہیں وہاں وائس
چانسلر کے لئے سرچ کمیٹی کو ختم کرکے سینئر تریں آدمی یا سینارٹی کم فٹ نس
کے اصول پرتین سینئر تریں لوگوں سے انتخاب کر لیا جائے۔ کیونکہ نالائق
لوگوں پر مشتمل سرچ کمیٹی کے ارکان کا وائس چانسلر مرتبے کے لائق تریں
انسان کانتخاب ایک مذا ق سے کم نہیں۔پرو وائس چانسلر تو ہر حال میں وائس
چانسلر کے بعد دوسرا سینئر تریں آدمی ہونا بہت ضروری ہے۔ ایسے فیصلوں سے ہر
طرح کی سیاسی مداخلت اور حکومتی چہیتوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی اور ہر
آدمی ریسرچ کے فروغ کے لئے کوشاں ہوگا۔
|