ہماری قومی و ملّی وجود کی بنیاد تو یہ ہے کہ پاکستان کے
قیام کی اساسِ واحد اور واحد متطقی جواز صرف اور صرف اسلام ہے چنانچہ ایک
عوامی اسلامی جزبے کے سوا اس کی مضبوطی و استحکام کی دوسری کوئی وجہ نظر
نہیں آتی لیکن مجموعی طور پر ہمارا کردار مایوس کن ہی رہا ہے اسی بنا پر
پاکستان ہمیشہ عدم استحکام کا شکار ہی رہا ہے یقینی طور پر اس صورتحال کا
دشمن نے ہمیشہ پورا پورا فائدہ اٹہایا اگر پاکستان کے ستر سالہ دور کا بغور
مشاہدہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ ہمارے عدم استحکام کی وجہ بھارت کی
پیدائشی دشمنی کے ساتھ ساتھ اصلا اپنی داخلی کمزوریاں بھی ہیں جس کی بنا پر
پاکستان ایک سپر پاور کا سہارا لینے پر ہمیشہ مجبور رہا اور بوقت ضرورت
دھوکہ کھانے کے تلخ تجربات سے 1965, 1971 میں گزر چکا ہے لیکن 2001 کے بعد
سے دشمن قوتوں نے ایک طرف افغانستان کو اپنی آماجگاہ بنایا تو دوسری طرف
اندرونی آلہ کاروں کی خدمات بہی لیں اور ہر طریقے سے پاکستان کی طرف ٹوٹ
پڑے اس ضمن م بڑے پیمانے پر لسانی و مذہبی ٹارگٹ کلنک شروع کروائی، بم
دھماکے و حساس تنصیبات پر حملے، دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی، ایڈوانس ہتہیار
استعمال کئے گئے مثلاً الیکٹرومیگنیٹگ وارفئر ENMOD ماحولیاتی تبدیلی کی
تکنیکس، موسمیاتی حملے،مختلف طریقوں سے حیاتیاتی حملوں کا نشانہ بنایا گیا
حال ہی میں ٹڈی دل حملے اور مختلف بیماریوں کا پھیلاؤ اسی کا شاخسانہ ہیں
اس کے علاوہ شدید ترین نظریاتی حملے، سیاسی و استحکام کی کوششیں اور بھیانک
معاشی جنگ مسلط کی گئی جن پر کافی حد تک کنٹرول پالیا ہے لیکن جنگ ابہی
جاری ہے اس وقت خطے کی علاقائی سیاست، عالمی سیاست اور ارد گرد کے حالات
تیزی سے بدل رہے ہیں اس شدید تشویشناک صورتحال میں جہاں پاکستان کو بھاری
چیلنجز کا سامنا ہے وہیں اپنی سمت کے تعین کا بھی امتحان ہے، روس اور چائنہ
جن کے ساتھ جرمنی بھی شامل ہے ابھر کر بڑی طاقت کے طور پر سامنے آرہے ہیں،
دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کے عہد میں داخل ہوچکی ہے، امریکہ و نیٹو اس وقت
شدید ترین بحران کا شکار ہیں جس کے پیش نظر امریکہ کسی نئے گروہ کے قیام کے
لیے کوشاں ہے اس ضمن میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل
جوزف ڈانفرڈ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے عالمی اور علاقائی بحری حدود کے
تحفظ کے لیے ایک نیا عالمی عسکری اتحاد تشکیل دینے کا پروگرام بنایا ہے جس
کے تحت امریکہ کے مطابق 65 ممالک جلد ہی بحرین میں سر جوڑ کر بیٹھنے کو
تیار ہیں، ایران اور یمنی باغیوں کے خوف کی آڑ لیکر امریکہ کی نظر آبنائے
ہرمز اور آبنائے باب المندب پر ہے جس سے امریکہ نہ صرف خلیج فارس، بحر ہند
بلکہ ریڈ سی پر قابض ہوجائے گا مقصد چائنہ کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت اور
معاشی قوت کو کنٹرول کرنا ہے، مستقبل میں گوادر علاقائی ہی نہیں دنیا کا
معاشی و تجارتی مرکز بننے جارہا ہے پاکستان کو خطے میں جیوپولیٹکل حساب سے
انتہائی اہمیت حاصل ہے جسے سبوتاژ کرنے کے لیے امریکہ نے انڈیا سے اتحاد
کرکے پوری پوری کوشش کی جسے افواج پاکستان و غیور عوام نے ناکام بنادیا،
خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈا قطر میں ہے مگر قطر اور عمان کے
ایران و ترکی سے بڑھتے ہوے تعلقات کے پیش نظر امریکہ کا سعودی عرب، بحرین،
یو اے ای کو فوجی مسکن بنانے پہ زور ہے کیونکہ ترکی پہلے ہی امریکہ سے دور
اور روس کے قریب ہورہا ہے جبکہ چین بھی اپنا اثر و رسوخ خطے میں بڑھارہا ہے
جس کے لیے پاکستان اہم کردار ادا کررہا ہے، امریکہ کو پاکستان کی آزاد
حیثیت اور چین کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ ایک آنکھ نہیں بھارہا، مختلف ہتھکنڈے
استعمال کرنے کے باوجود امریکہ خاطرخواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی پر ایک
بار پھر پاکستان پہ شدید قسم کا پریشر ڈالنے کی کوشش کررہا ہے، وزیراعظم
عمران خان کے دورہ امریکہ کے وقت خارجی حالات کے پیش نظر اندرونی اختلافات
سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہمیں کامل قومی یکجہتی و ہم
آہنگی، بلند حوصلگی و عالی ہمتی اور قوت عزیمت کی شدید ضرورت ہے تو بیرونی
آلہ کاروں نے اپنی سرگرمیوں سے واضح طور پر بتادیا ہے کہ ان کی وفاداریاں و
ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بقول اوریا مقبول جان
جس ذوالفقار بھٹو نے قادیانیوں کو کافر و مرتد قرار دیا اسی کے نام پہ
سیاست چمکانے والے ذاتی مفادات کی خاطر قادیانی لابی کا استعمال کررہے ہیں
خیر ایسے لوگوں کے مقدر میں سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آنا اور
جلد ہی مسلمہ کذاب کے رفقاء اپنے انجام کو پہنچ جائینگے، پاکستان نے بظاہر
یہ عندیہ دیدیا ہے کہ وہ کسی طور بھی امریکہ کے سامنے مزید نہیں جھکے گیں
اور قومی مفادات اولین ترجیح ہیں، اگرچہ پاکستان کو اب بھی کسی سپر طاقت کے
سہارے کی ضرورت ضرور ہے مگر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اب مزید
امریکہ کے سہارے نہیں چلے گا اس پر چین کو ترجیح دے گا۔ آج جب جاپان، کوریا
ودیگر ممالک کے عوام امریکی اڈوں کی موجودگی کو ناپسند کررہے ہیں اور دوسری
طرف یورپی ممالک میں نیٹو اتحاد کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں اسے صرف امریکی
مفادات کا محور کہا جارہا ہے تو ایسے میں عرب ممالک مثلاً سعودی عرب،
بحرین، یو اے ای بھی امریکہ کو جگہ دیکر سنگین ترین غلطی کررہے ہیں، سہارن
پوری میں کہا جاتا ہے کہ اپنی طوطی بول رہی ہے اس پہ طوطا لا کر بٹھا دینا
اپنے پیر پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے، طوطا لاکر بٹھانے کی غلطی عرب
ممالک کو مہنگی پڑسکتی ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ سائیڈ پہ ہی رہا جاتا بجائے
استعمال ہونے کے مگر عرب دوستوں کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اﷲ ہی بہتر جانے
مگر نتیجہ تو کسی صورت اچھا نظر نہیں آتا۔
|