عوام جس ملک کی بھی ہو اسے اپنے حکمرانوں سے گلہ رہتا ہے
اسی طرح ہمارے ملک میں بھی لوگ اپنے حکمرانوں کو چورڈاکوبے ایمان کہنے میں
سے پیچھے نہیں مگرمیں صرف اتنا کہتا ہوں حکمران ہوں یا عوام جسے جہاں
پرموقع ملا اس نے اپنا مفاد پورا کرلیاایک سیکورٹی گارڈ کی بات کروں تواسے
جب موقع ملتا ہے تووہ تھوڑی سی آنکھ لگالیتا ہے ایک ملازم جس دفترمیں کام
کرتا ہے آپس میں گپیں لگا کرفیس بک واٹس ایپ استعمال کرکے اپنی نوکری کے
ساتھ بے ایمانی کرتا ہے ایک عام مزدورکی بات کروں توجب تک مالک سرپہ کھڑاہے
توکام کو فنا کرکے رکھ دیتے ہیں مالک نے پیٹھ کیا پھیری ایک طرف جا کے بیٹھ
گئے میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ بے ایمانی نہیں ؟اسی لیے حکمرانوں کو کچھ
کہنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں نظرڈالنی ہوگی میں نے پتہ نہیں اپنی
زندگی میں کئی ایسے پروگرام دیکھے جو کبھی مکمل نہ سکے دور تونہیں جاؤں گا
اپنے قارائین کویاد دلواؤں کہ ہیلمٹ کی پابندی یادکریں تولاہورشہرمیں
100میں سے 95لوگوں نے ہیلمٹ پہنے نظرآتے تھے مگرجس کے پاس ہیلمٹ کا ٹھیکہ
تھا اسکے ٹارگٹ پوراہوتے ہی جیسے ہیلمٹ اب ہماری جان کا دشمن ہو اسی وجہ سے
ہرطرف خاموشی چھا گئی اکتوبر نومبر2018میں بہت زوروں پراتائیت کے خلاف کریک
ڈاؤن شروع ہوااورہرطرف شور تھا کہ اتائیوں کی وجہ سے کئی لوگ وقت سے پہلے
موت کی نیندسوجاتے ہیں تومیراسوال ہے تب یہ بات تھی توکیااب اتائی ہمارے
لیے فرشتے بن گئے ہیں ؟اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے سینکڑوں نہیں ہزاروں بھی
نہیں لاکھوں کی تعدادمیں اتائیوں کی دکانوں کو سیل کیا گیا مگریہ کریک ڈاؤن
بھی ان لوگوں کے خلاف جن کی یاتواوپرتک نہیں یاپھرجنہوں نے پولیس کی ڈیمانڈ
کے مطابق رشوت نہیں دے سکے جب اعلی عدلیہ نے اتائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا
آرڈردیا توعوام کے چہرے پرمایوسی نظرآتی تھی کیونکہ اتائی بہت کم پیسے میں
علاج کرتا ہے مگربڑے ڈاکٹربڑے مگرمچھ ہیں جن سے علاج کرانا تودوران کی چیک
اپ فیس سن کے مڈل کلاس لوگ کہتے ہیں کچھ نہیں خود ہی ٹھیک ہوجاؤں گامیں
یہاں پراعلی حکام سے اتنا کہنا چاہوں گاکہ اچھاعلاج عوام کا حق ہے اگرایک
جان بھی جاتی ہے تواس کے ذمہ دار اتائی نہیں حکمران ہیں کیونکہ اچھاعلاج
مہیاکرنا آپ کی ذمہ داری ہے ہماری بدقسمتی ہے کہ 1750اوسطاًافرادپرایک
ڈاکٹرتعینات ہے جس کی وجہ سے ان ڈاکٹروں نے اپنی کمائی کیلئے پرائیویٹ
کلینک لگائے ہوئے ہیں جہاں وہ مرضی کے پیسے لیتے ہیں جن میں ان کی چاندی
نہیں سونا ہوتا ہے۔اگرمیں بات کروں دوردراز دیہات کی تووہاں اتائی کسی
فرشتہ سے کم نہیں کیونکہ ان کی وجہ سے سستاعلاج ہوجاتا ہے کیونکہ رات کو
کسی مریض بچے،بڑھے یا عورت کو کچھ ہوجائے توبڑے ڈاکٹرتورات کو کال تک نہیں
اٹھاتے اسی وجہ سے دیہی لوگ اتائی کوکال کرتے ہیں چاہے وہ کتنی دورہی کیوں
نہ ہووہ ان لوگوں کو اپنی فیملی سمجھ کراسی وقت پہنچتا ہے ۔اسی لیے حکومت
کوچاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پردیہی علاقوں میں ڈسپنسریوں کا قیام کیا جائے
جہاں پرعوام کو مفت چیک اپ اورادویات میسرہوں دیہی علاقوں میں دن کے وقت
میڈکل سٹورکھلے رہتے ہیں اب رات کو کوئی بیمارہوجائے تواس کا کوئی حل نہیں
اس پر حکمرانوں کو توجہ دینا ہوگی اگراتائیت کا خاتمہ کرنا ہے توشہروں
اوردیہاتوں میں سرکاری طورپربنیادی صحت مرکز اورآرایچ سی ہسپتال کام کررہے
ہیں ان میں ڈاکٹرزاورپیرامیڈکل سٹاف کو 24گھنٹے ڈیوٹی کویقینی بناناہوگا ان
اتائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اورپکڑدھکڑسے بہترہے ان کوادویات کے متعلق مزید
تعلیم دی جائے اورجوجانی نقصان ہوئے ہیں آگے کنٹرول کیا جائے ایک کورس
بنایا جائے اوراس شعبہ کے ہرشخص کیلئے یہ ضروری قراردیا جائے تاکہ یہی لوگ
خدمت خلق جاری رکھ سکیں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بڑے نام کے
ڈاکٹرز اورجن کے نام پراتائیت کا ٹھپہ ہے ان میں فرق کرنامشکل نہ
ہوگااوراتائیت کا بھی خاتمہ ممکن ہے اپنے قارائین کویاددلاتاچلوں سپریم
کورٹ آف پاکستان نے جب ’’اتائیت کا خاتمہ‘‘کا ٹاسک جب محکمہ صحت کو دیا تو
اس کے نام پر ہومیوپیتھک بھی لٹکے گئے حالانکہ اتائیت کامطلب ہے کسی قسم کی
میڈکل تعلیم کے بغیرطبی خدمات سرانجام دینا حالانکہ قانون کے مطابقNCH,
PMDC اورPHCیہ طب کونسل سے رجسٹرڈہیں اوریہ پریکٹس کرنے کے اہل ہیں
مگریادپڑتا ہے کہ کریک ڈاؤن کے دوران محکمہ صحت نے اتائیت کے خاتمہ کے نام
پراپنی توپوں کارخ ہومیوپیتھک پربھی کیا اورچھوٹے چھوٹے اعتراض لگا
کرمثلاًسٹرپس ،گلوکومیٹروالی مشین وغیرہ وغیرہ پرپابندی سمجھ میں نہیں آئی
حالانکہ شوگراوربلڈپریشرچیک کرناروزمرہ کاکام ہے حالانکہ ایسی مشینیں آج
ہردوسرے گھرمیں ملتی ہیں بلکہ اب تویہ موبائل ایپ بھی ہیں اگرایسا ہے
توہرگھراتائیت کا گھر ہے ۔آج کوئی ایسا پرائیویٹ ہسپتال نہیں جس میں سرکاری
ہسپتال کے ڈاکٹرتعینات نہیں وہ اپنی ڈیوٹی توایمانداری سے کرتے نہیں
مگرپرائیویٹ رات تک کھلی رکھتے ہیں اورپیسہ چھاپ رہے ہیں جوہمارے لیے لمحہ
فکریہ حالانکہ چاہیے یہ کہ جوبھی ہسپتال کلینک بنے اسے رجسٹرڈ کیا جائے
اوراس کی سراسرذمہ داری ہیلتھ کیئرکمیشن کی ہے اپنے قارائین کو بتاتاچلوں
کہ سپریم کورٹ آف پاکستا ن کے حکم پر 2010میں ہیلتھ کیئرکمیشن قائم
کیاگیاہیلتھ کیئرکمیشن کے تحت پنجاب بھرکے سرکاری غیرسرکاری ہسپتال،کلینکس
کوریکولیٹ کرنامریضوں کی جانب سے موصولہ شکایات کا ازالہ کرنا،غفلت
اورلاپرواہی کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کرنااورکون سے ڈاکٹرزاپنے
نجی کلینکس اورہسپتالوں میں مریضوں سے کتنی فیس لے سکتے ہیں نجی کلینکس
اورہسپتالوں میں علاج معالجوں کے آلات،حدوداربعہ کا تعین اورصفائی کاخیال
رکھنا بھی اسی ادارے کی ذمہ داری ہے ڈاکٹروں کی غفلت لاپرواہی اورکسی مریض
کی موت ہوجائے تو ان کے متعلق دی جانے والی درخواستوں کی کاروائی بھی یہی
ادارہ کرتا ہے۔ اپنے قارائین کومعلومات دیتاچلوں کہ پنجاب بھرمیں 60,000سے
70,000کے لگ بھگ سرکاری،غیرسرکاری،ہسپتال کلینکس اورہیلتھ یونٹ قائم ہیں جن
میں ڈاکٹر،ڈینٹل سرجنز،حکیم،ہومیوپیتھک ڈاکٹرز اوراتائی شامل ہیں مگرافسوس
کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہیلتھ کیئرکمیشن ابھی تک تقریباً1000کے قریب ہیلتھ
فراہم کرنے والے سرکاری ،پرائیویٹ ہسپتال اورکلینکس رجسٹرڈ کرواسکا ہے جس
میں لاہور،فیصل آباد اورگوجرانوالہ اوراسلام آباد شہر شامل ہیں اب اس بات
سے عوام خود اندازہ لگاسکتی ہے کہ یہ ادارہ عوام کی صحت کیلئے کتنا مخلص ہے
اس ادارے کو قائم ہوئے 9سال گزرچکے مگرافسوس ابھی تک چند سوہی ہسپتال
کلینکس رجسٹرڈہوے ہیں اگریہی رفتاررہی توکب تک پنجاب بھرمیں یہ ٹاسک
پوراہوگاحالانکہ چاہیے تویہ کہ جوکلینکس اورہسپتال ملکی قانون وضابطہ میں
رہ کرخدمت خلق کررہا ہے انہیں پھرسے پکڑدھکڑکے بجائے ان کے کاروبارکو سیل
کرنے اوربے روزگاری میں اضافہ کے بجائے انہیں ادویات اورمریضوں کے متعلق
کورس کراکے سندسے نوازیں تاکہ وہ ہمیشہ خدمت خلق کرسکیں۔
|