موم کی ناک

 کچھ باتوں پر تبصرہ نہ بھی کیا جائے تو اچھا ہے لیکن جلنا کڑھنا جب مقدربن جائے تو دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے بات کہے بغیر بات نہیں بنتی اعلیٰ عدلیہ کئی سالوں سے بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم پر حکم دئیے جارہی ہے لیکن حکمرانوں کے سرسے آج تک جوں تک نہیں رینگی پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو حکمرانوں کو تاحیات نااہل قراردیدیا جاتا عدالت ِ عطمیٰ کا حکم نہ ماننے پر چھوٹی سی چھوٹی سزا توہین ِ عدالت ہے لیکن کسی کو کچھ خوف نہیں اس ملک کی یہی بد نصیبی ہے کہ ہر بااثر شخص نے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے ۔۔ جب سے حکومت نے بلدیاتی اداروں کو معطل کیاہے چیئرمین،وائس چیئرمین اور کونسلر ان کے حواری، ووٹر سپورٹر ایسے ٹھنڈے ہو گئے جیسے برائلر مرغی باعث دیگوں میں پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہے وہ یونین کونسل کے دفاترکو جب بھی دیکھتے ہیں ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں ۔۔ ہمارے سیاستدان دن رات ، جمہوریت کا راگ الا پتے رہتے ہیں لیکن یہ کتنی خوف ناک بات ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے یعنی عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دئیے جب بھی بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی بہت سارے لوگ پینٹر، فلیکس،کاغذ ،پریس والوں کے
ساتھ ساتھ دیہاڑی دار’’ سرگرم ہوجاتے ہیں یعنی
جو لوگ کام کے نہ کاج کے
دشمن ہیں اناج کے

وہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ منہ دھونے بلکہ سچ جانئے تو نہانے لگ گئے جاتے ہیں امیدوار وں کے انتخابی دفاتر اور ڈیروں پر ڈھول بجتے تو اچھے خاصے لوگ لڈیاں ،دھمال ڈالتے اورنعرے لگاتے بریاتی کھا کر گھروں کو لوٹ جاتے کئی جیبوں میں نوٹ بھی کڑکرڑاتے ہیں تو ان کا کو مزا آجاتاہے خود کو جمہوریت کی سب سے بڑی چمپئن کہلرانے کی شوقین مسلم لیگ ن نے عدالت ِ عظمیٰ کے دباؤ پر بلدیاتی انتخابات تو کروادئیے لیکن کسی کو اختیارات نہ دئیے قول و فعل کے اس تضاد نے جمہوریت،ریاست اور سیاست کو تباو کرکے رکھ دیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت،بیوروکریسی اور خاص طور پر ارکان ِ اسمبلی اختیارات تقسیم کرناہی نہیں چاہتے یہ کسے گوارا تھا کہ عام آدمی بھی اختیارات کی دوڑ میں شامل ہو جائے جو اس ٹرائیکا کو گوارا نہیں تھا۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شریفوں کی حکومت میں جب ابھی بلدیاتی انتخابات کروانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی تھی ترک وزیر اعظم جو خود ماضی میں ایک بلدیاتی ادارے کے میئر رہ چکے ہیں لاہور میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا تو پاکستانی حکام کے ساتھ استنبول کے میئر کا تعارف کروایا گیا جب انہوں نے لاہور کے میئر بارے استفسار کیا تو ہر بات پر ترکی کو فالو کرنے والے ماضی کے حکمرانوں کی حالت دیدنی تھی پھر انہوں نے جلدی سے ایک سابق لارڈ میئر کو آگے کردیا ۔ یہ کتنی خوف ناک بات ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے،،بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ جنرل مشرف کا تجویز کردہ ضلعی حکومتوں کا نظام عوام کے بہترین مفادمیں تھا جس کے تحت ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام اس دور میں ہوئے اس لئے اس سسٹم کو جمہوریت کی بنیاد بھی کہا جا سکتا ہے ۔ جس کی بدولت نہ صرف اختیارات نچلی سطح پر تقسیم ہوئے بلکہ عوامی مسائل بہتر انداز سے حل ہونے میں پیشرفت ہوئی اس وقت کئی مسلم اورمغربی ممالک میں ضلعی حکومتوں پر مبنی بلدیاتی نظام اپنی بھرپور افادیت کے ساتھ کام کررہا ہے پاکستان میں بھی اس سسٹم کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اس نظام میں ترمیم کرکے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت تھی۔ اس وقت بلدیاتی ادار ے نہ ہونے سے عوام کوعملأٔ بیور کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو اب چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروانے کیلئے افسروں کی منتیں کرنے پر مجبور ہیں حالانکہ ناظمین یا چیئر مین اور کونسلر عوام کے منتخب نمائیدے ہوتے ہیں بلدیاتی اداروں میں سرکاری ایڈ منسٹریٹر تعینات کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ لوکل باڈیز کے حوالہ سے عوام میں پیپلز پارٹی با رے کوئی اچھا تاثرنہیں ہے پھر مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس کی صف میں شامل ہوگئی جو پہلے ہاتھ دھو کر ضلعی بلدیاتی سسٹم کے پیچھے پڑی رہی پھر بلدیاتی الیکشن کروائے تو انہیں اختیارات ہی نہ دئیے جوسمجھ سے بالاتر ہے اب تبدیلی سرکار نے مرے پوسو درے لگاکر ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ بلدیاتی سسٹم جو بھی ہو عوام کی خدمت کا مؤثر ذریعہ ہوتاہے مسلم لیگ ن کی حکومت نے ضلعی حکومتوں کے نظام کو ہی فالو کرکے ناظم کا نام چیئر مین اور نائب ناظم کو وائس چیئر مین کا نام دے کر نیا لو کل باڈیز ایکٹ تیار کیا تھا یعنی یہ ضلعی حکومتی نظام کا جدید ایڈیشن تھا وزیر ِ اعلیٰ عثمان بزدارکی حکومت ایک نیا لوکل باڈیز ایکٹ نافذکرنا چاہتی ہے جس کا ابھی تک کوئی ناک نقشہ نظرنہیں آرہا ہر دوسرے تیسرے ماہ کچھ ترجیحات کاشوشا چھوڑکرنیا لوکل باڈیز ایکٹ لانے کااعلان کردیا جاتاہے ۔۔۔ حالانکہ مشرف دورکے ضلعی حکومتوں کے نظام کی خامیاں دور کرکے اس کومزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ آج تک کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات ڈکٹیٹروں کی چھڑی کے اشارے سے ہوئے ہیں شاید تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرارہی ہے لیکن ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں اﷲ تعالیٰ ہم اور ہماری جمہوری حکومتوں کو تاریخ کے اس چکر سے بچائے ۔ ویسے ایک تجویز ہے کہ عدلیہ اور حکومت مل کر ایک ایسا آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دے جو حکومتی اداروں کی کشمکش اورانکے اثر سے واقعی آزاد ہو ۔۔۔جو وقت ِ مقررہ پر صوبائی ، قومی اور بلدیاتی انتخابات کے انعقادکو یقینی بنانے کیلئے خودبخودکام کرتا رہے۔ ماضی میں اعلیٰ عدلیہ کئی سالوں سے بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم پر حکم دیتی رہی لیکن اس وقت کے حکمرانوں کے سرسے جوں تک نہیں رینگی پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو ان حکمرانوں کو تاحیات نااہل قراردیدیا جاتا ۔ اب بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے تحریک ِ انصاف کی حکومت فی الحال بالکل خاموش ہے آخرمیں آپ سے ایک سوال ہے جمہوریت کے دعویدار بھی عوام کو انکے بنیادی حق سے محروم رکھ کر بلدیاتی انتخابات نہ کروائیں تو پھراس ادا کو آپ کیا نام دیں گے ؟ اس ے بہتر تھا کہ بلدیاتی اداروں میں سیاسی ایڈمنسٹریٹر لگادئیے جاتے اس کے دو فائدے تھے عوام کوافسر شاہی کے نخروں سے نجات مل جاتی دوسرا ایڈمنسٹریٹر تعینات کئے گئے سیاسی کارکنوں کو عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوتی ۔یقین ہے کہ افسرشاہی ایسا نہیں ہونے دے گی ان کی اپتی مجبوریاں ہیں عوام کیاپنی مجبوریاں۔بس یہی کہاچاسکتاہے
کتنا ستم ظریف تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 336739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.