طلحہ السیف
اللہ رب العزت نے جہاد کی تیاری مسلمانوں پر فرض فرمائی۔
’’اور ان سے لڑنے کے لیے جو کچھ ﴿سپاہیاز﴾ قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے
جمع کر سکو سو تیار رکھو کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں پر اور تمہارے
دشمنوں پر اور ان کے سوا دوسروں پر ہیبت پڑے جنہیں تم نہیں جانتے اللہ
تعالیٰ ہی جانتا ہے‘‘۔ ﴿الانفال ۰۶﴾
جہاد کے لیے کتنی تیاری ضروری ہے اسے ’’مااستطعتم‘‘ کے فصیح و بلیغ جملے سے
واضح فرما دیا۔ استطاعت کے دو پہلو ہیں پہلا یہ کہ جتنی قوت حاصل کرنے کی
استعداد تمہارے جسموں میں موجود ہے اسے بروئے کار لانے میں غفلت نہ کرو
جتنا دوڑ سکتے ہو دوڑو، اپنے جسم کو جتنا مضبوط بنا سکتے ہو بنائو، عسکری
سازو سامان کے حصول کے لیے جتنی مالی وسعت میسر ہے اس میں بخل نہ کرو، گھڑ
سواری، تیر اندازی، اور ان جیسی دیگر عسکری مہارتیں حاصل کرنے میں کوئی
دقیقہ فروگزاشت نہ کرو۔ ’’مااستطعتم‘‘ کے حسین کلمے نے سستی اور کاہلی کی
جڑ کاٹ دی، ہر مسلمان اگر اس لفظ کو غور سے پڑھ لے اور اسکے مفہوم کو خصوصاً
طلبہ کرام ’’ما‘ ‘کے عموم کو دل میں اتار لیں تو کبھی بھی جہاد کی تیاری
اور تربیت سے غافل نہ ہوں اور نہ ہی کسی چھوٹی موتی تربیت پر قانع ہوں اس
لیے کہ ’’مااستطعتم‘‘ کے معنیٰ ہر اس چیز کا سیکھنا ہے جو جہاد میں کام آئے
اور اس حد تک سیکھنا ہے جتنی استطاعت انسانی جسم اور دماغ میں موجود ہے۔ ’’مااستطعتم‘‘
کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تیاری اپنی استطاعت کے مطابق فرض ہے نہ کہ کافروں
کی جنگی طاقت و قوت کے مطابق۔ مسلمانوں میں بدقسمتی سے بہت سے لوگ، بلکہ
اکثر لوگ دونوں پہلوئوں سے غافل اور انکے بارے میں افراط و تفریط کا شکار
ہیں۔ کچھ نے غفلت اور سستی کو اپنا شعار بنا کر جہادی تربیت اور تیاری کو
ترک کر رکھا ہے، کہیں دنیاوی مصروفیات کے عذر سے اور کہیں دینی مشغولیت کے
بہانے، جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے جہاد کو دشمنانِ اسلام کے برابر
طاقت، مہارت اور ٹیکنالوجی کے حصول پر موقوف کر رکھا ہے ان کا خیال ہے کہ
ہم جب تک امریکہ اور یورپ جیسی تباہ کن عسکری طاقت اور جاپان جیسی
ٹیکنالوجی حاصل نہ کر لیں اس وقت تک جہاد فرض نہیں۔ دونوں لوگ غلطی میں پڑ
گئے۔
نبی کریم ﷺ کے ابتدائی غزوات شاہد ہیں کہ ’’مااستطعتم‘‘ پر عمل کے لیے چند
ٹوٹی پھوٹی تلواروں، معمولی مقدار میں گھوڑوں اور ہلکے پھلکے جنگی سازو
سامان کی موجودگی کو کافی سمجھا گیا اور انہی اسباب کو بروئے کار لاکر اللہ
تعالیٰ کے بھروسے پر جہاد کیا گیا اور ساتھ ہی یہ اسوۂ حسنہ بھی بعد کے
زمانے میں واضح نظر آتا ہے کہ منجنیق اور دبابہ جیسے ہتھیار حاصل کئے گئے،
عسکری تربیت کے طور پر دشمنوں کی زبانیں سیکھیں گئیں، تیر اندازی اور گھڑ
سواری کے مقابلوں کا انعقاد کرایا گیا اور مسلمانوں کو ان کاموں میں لگے
رہنے کا اس تاکید سے حکم دیا گیا کہ صحابہ کرام ضعف پیری میں بھی ان سے
غافل نہ ہوتے تھے اس طرح نبی کریم ﷺ نے ’’مااستطعتم‘‘ کے ان دونوں پہلوئوں
کو خوب واضح فرما دیا اتنا کہ اب قیامت تک مسلمانوں کے لیے کسی شک شبہ کی
گنجائش باقی نہیں رہنی چاہیے مگر افسوس کہ لوگ قرآن نہیں پڑھتے، سیرت نبوی
ﷺ کا مطالعہ نہیں کرتے اس لیے دل و دماغ سے غفلت کے ہی پردے دور نہیں ہوتے۔
اہلِ ایمان سے آیت کی تفسیر تفصیلی انداز میں جاننے کے لیے ’’فتح الجوّاد
فی معارف آیاتِ الجہاد‘‘ کی جلد دوم میں صفحہ نمبر ۹۶۲ تا ۲۹۲ کا ایک بار
ضرور مطالعہ فرما لیں انشا اللہ توبہ کی توفیق بھی نصیب ہو جائے گی اور
اشکالات بھی دور ہو جائیں گے۔
امیر المؤ منین سید احمد شہید(رح) نے جب احیائِ جہاد کی تحریک شروع فرمائی
تو اس وقت بھی کئی دانش ور اور مفکر حضرات نے انکی تحریکِ جہاد پر یہ
اعتراض بڑی شد و مد کے ساتھ اٹھایا کہ اسلام میں جہاد کے لیے ایسے امیر کا
ہونا لازم ہے جس کے پاس مدِ مقابل کفار کے برابر ’’شوکت‘‘ ﴿عسکری قوت اور
لشکر﴾ ہو۔ بحرالعلوم حضرت مولنا شاہ اسماعیل شہید قدس سرہ نے اپنے ایک
مکتوب ِ گرامی میں ایسے حضرات کو مدلل اور مسکت جواب دیا۔ ہمارے زمانے میں
بھی چونکہ یہ اعتراض عام ہے کہ معمولی جماعت اور ادنیٰ سی عسکری طاقت ساتھ
لے کر امریکہ اور نیٹو جیسی قوتوں سے ٹکرا جانا حصولِ استطاعت کے حکمِ شرعی
کے خلاف ہے ﴿العیاذباللہ﴾ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شاہ اسماعیل
شہید قدس سرہ کے اس مکتوبِ گرامی کے کچھ اقتباسات نقل کر دئیے جائیں تاکہ
اہلِ ایمان ان ملحدین اور ملبسین کے جال میں پھنسنے سے بچیں اور دورِ حاضر
میں جاری اس عظیم تحریکِ جہاد کی شرعی حیثیت کو پہچانیں: ’’باقی آپ نے جو
اس کا ذکر کیا ہے، کہ اہل شوکت کے مقابلے کے لئے مقابل شوکت چاہئے، پس اول
تو یہ مقدمہ ممنوع ہے، کیو نکہ شوکت کی تحصیل کی کوشش بقدر استطاعت کا فی
ہے، مخالفین کی شوکت کے مماثل ہو یا نہ ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا
ہے’’وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ‘‘ ﴿۸:۰۶﴾ یہ نہیں فرماتا ’’
وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّثْلَ مَآ اَعَدُّوْالَکُمْ‘‘ دوسرے یہ کہ شوکت کے
وجود کے یہ معنی نہیں کہ امام کے جسم میں ایسی قوت پیدا ہو جائے کہ اس قوت
سے مخا لفین کی سلطنت کو درہم برہم کر دے اور اکیلے ان کے لشکروں اور فوجوں
کو شکست دے دے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ موافقین کی ایسی جماعت اس کے
ساتھ ہو جائے کہ بااعتبار ظاہر عقل ان کی قوت سے مخالفین کی مدافعت کر سکے
اور اجتماع کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر وقت اس کے چاروں طرف وہ لوگ کھڑے رہیں
، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ا س کی ذات سے ایسا تعلق ہو کہ اس سے وہ
اس کے احکام کی اطاعت کرنے لگیں جیسے نوکری کا تعلق سلاطین کے عرف میں اور
قربت وبرادری کا تعلق افغانوں کے عرف میں، اسی لئے شریعت نے تعلق بیعت کا
اعتبار کیا ہے ۔‘‘
’’تیسری یہ بات ہے کہ مشرق و مغرب کے کفار کی شوکت کے مماثل شوکت مراد
نہیں، ورنہ اگلے پچھلے اماموں سے کسی کی امامت ثابت نہیں ہوگی، پس اس سے
مراد صرف یہ ہے کہ ان مخالفین کی شوکت کے مماثل شوکت ہو جو بالفعل مقابل
ہیں اور اس وقت یہ شوکت محقّق ہے۔‘‘
’’یہ بات بالکل مستبعد نہیں ، بلکہ قوموں اور سلطنتوں کے انقلاب میں اللہ
کی یہ سنت جاری ہے کہ معمولی لوگوں میں سے کوئی کمزور فرد جیسے نادرشاہ
وغیرہ سر اٹھاتاہے ، اور آہستہ آہستہ رفقا کی ایک جماعت فراہم کر لیتا ہے
اور تدریجاً قوت اور شوکت حاصل کر لیتا ہے، یہاں تک کہ بڑے بڑے سلاطین کی
سلطنت اور بڑے بڑے بااقتدار شہنشاہوں کی مملکت درہم برہم کر دیتا ہے، کس
قدر بے انصافی ہے کہ جو شخص محض دنیا کی طلب میں کمربستہ ہو تا ہے اس کے حق
میں فتح و نصرت کا گمان کر لیا جاتا ہے، اور اسی گمان پر اس کا ساتھ دیا
جاتا ہے لیکن جوشخص اللہ کے لئے اور اللہ کی خوشی کے لئے دین کی مدد کے لئے
کھڑا ہوتا ہے ، اس کے حق میں فتح ونصرت کا حصول مستبعد سمجھا جاتا ہے اور
اس کو بھی دور کے وہموں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس پر عجیب عجیب اشکالات
اور قسم قسم کے اعتراضات کئے جاتے ہیں اس کا کوئی ساتھ نہیں دیتا اور عام
مسلمانوں کو بھی اس کی رفاقت سے روکا جاتا ہے اور نوبت بایںجارسد کہ اس کے
کارخانۂ جہاد کو درہم برہم کرنے کی سعی نامشکور کی جاتی ہے’’الَا لَعْنَۃُ
اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ ۔الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ
اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ‘‘ ﴿۱۱: ۸۱،۹۱﴾۔
چوتھے یہ کہ ہم مانے لیتے ہیں کہ شوکت قویہ کا حاصل ہونا اہل شوکت کے ساتھ
جہاد کرنے کی شرط ہے اور آنجناب کو بالفعل شوکت حاصل نہیں لیکن میں پوچھتا
ہوں کہ امام وقت کے لئے شوکت حاصل کرنے کا طریقہ آخر کیا ہے ، کیا شوکت اس
طرح حاصل ہوتی ہے کہ ایک شخص اپنی ماں کے پیٹ سے فوجوں ، لشکروں او رسامانِ
جنگ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، یا جس وقت جہاد کرنے کے لئے مستعد ہوجاتا ہے،
اسی وقت فی الفور غیب سے تمام لشکرو افواج اور سامانِ جنگ عطا ہوجاتا ہے؟یہ
بات نہ کبھی ہوئی ہے اور نہ کبھی ہوسکتی ہے اس کا طریقہ یہی ہے کہ جس طرح
امام کا مقرر کرنا تمام مسلمانوں کا فرض ہے اور اس میں مداہنت مو جب معصیت
اسی طرح امام وقت کے لئے شوکت کا حاصل کرنا بھی ان کا فریضہ ہے، مسلمانوں
کو چاہئے کہ اس کے گرد جمع ہو جائیں اور ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق
سامانِ جنگ فراہم کرنے کی کوشش کرے اور اس کو امام وقت کے سامنے پیش کرے
اسی لئے آیۂ کریمہ’’وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ‘‘ ﴿۸:۰۶﴾ اور
آیت ’’ وَّجَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ‘‘ ﴿۹:۱۴﴾ میں تمام
مخاطبین کو خطاب تھا ، نہ کہ صرف ائمہ کو ، پس ہر وہ شخص جو کہتا ہے کہ
امام کی شوکت جہاد کی شرط ہے اور یہ شوکت ہم کو حاصل نہیں، اس کو لازم ہے
کہ پہلے خود آئے اور بقدر استطاعت سامانِ جنگ اپنے ساتھ لائے اور اس معاملے
میں کسی دوسرے کی شوکت کا انتظار اصلاً جائز نہیں جہاد کے معاملے میں جو
تعویق و تعطیل و اقع ہوگی، اس کا وبال تمام خانہ نشین و پس ماندہ لوگوں کی
گردن پر ہو گاجس طرح نماز جمعہ کی ادائیگی ہر شخص پر واجب ہے، اور اس کا
ادا کرنا جماعت کے بغیر متصور نہیں اور انعقاد جماعت امام کے بغیر ممتنع ہے
پس اگر ہر شخص اپنے گھر میں بیٹھا اس کا انتظار کر تا رہے کہ جس وقت امام
آجائے گا جماعت موجود ہو جائے گی، میں بھی حاضر ہو جاؤں گا تو یقیناً جمعہ
کی نماز فوت ہو جائے گی اور ہر شخص گناہ گار ہو گا اس لئے کہ ارواح مقدسہ
میں سے کسی امام کا اترنا اور فرشتوں کی جماعت میں سے کسی جماعت کا جمعہ
قائم کرنے کے لئے آنا ہونے والی بات نہیں اس کا طریقہ یہی ہے کہ ہر شخص
اپنے گھر سے خواہ تنہا ہو باہر آئے اور مسجد میں چلا جائے، اگر جماعت مجتمع
ہو تو اس میں شریک ہو جائے ورنہ مسجد میں بیٹھا رہے اور دوسرے کا انتظار
کرے اگر اس نے مسجد خالی دیکھ کر اپنے گھر کا رستہ لیا تو جمعے کی جماعت
وامامت قائم ہو چکی !اسی طرح لازم ہے کہ ہر شخص اگر چہ تنہا ، کمزور قلیل
الاستطاعت ہو امام کی دعوت ک؛ آواز سن کر اپنے گھر سے نکل دوڑے اور جس قدر
سامان میسر آسکے ، اس کے ہمراہ مسلمانوں کی جماعت میں پہنچ جائے تاکہ جہاد
کے قائم ہو جانے کی صورت پیدا ہو، نہ کہ اپنے کو اللہ کے بندوں کے زمرے سے
نکال کر ڈرپوک بندوں میں شامل کرے اور دینِ متیں کے اس رکن رکین کو ہاتھ سے
جانے دے سر کش دولت مندوں کی کاسہ لیسی اور ناقصات العقل عورتوں کی کنگھی
چوٹی میں مشغول رہے، سبحان اللہ اسلام کا حق یہی ہے کہ اس کے رکنِ اعظم کی
جڑ کھود کر پھینک دی جائے اور اس شحض کو جس کے سینے میں کمزوری و ناتوانی
کے باوجود اسلامی حمیت جوش ماررہی ہے طعن و تشینع کا ہدف بنا لیا جائے؟ یہ
لوگ نصاریٰ و یہود و مجوس و ہنود کی طرح ہیں کہ ملت محمد یہ کے ساتھ دشمنی
کرتے ہیں ’’ محمدیت‘‘ کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر کوئی شخص کھیل اور مذا ق
سے بھی جہاد کا نام لے لے تو مسلمانوں کے دل سنتے ہی پھول کی طرح کھل جائیں
اور سنبل کی طرح لہلہا نے لگیں اور اگر دوردراز کے مقامات سے بھی جہاد کا
آوازہ اہل غیرت کے کانوں تک پہنچ جائے تو دیوانہ وار دشت و کوہسا رمیں
دوڑنے اور شہباز کی طرح اڑنے لگیں ، نہ یہ کہ جہاد کا مسئلہ اس عظمت کے
باوجود کتاب الحیض و النفاس کی تعلیم و تعلّم کے درجے سے بھی کم سمجھا
جائے۔
مناسب ہے کہ ان ہوا جسِ نفسانی اور وساوسِ شیطانی کو دل سے دور کریں او
رایمانی غیرت اور اسلامی حمیت کو جوش میں لائیں اور دوردراز کے خیالات کو
چھوڑدیں اور دنیا وی تعلقات کو جو اس مشغولیت سے مانع ہوں ، خیرباد کہیں۔
مصلحتِ دیدمن آن ست کہ یاراں ہمہ کار
بگزا رندو خمِ طرئہ یارے گیرند!
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو اپنے دل کو وادیوں میں ڈال دے اور ڈانواں ڈول
رکھے تو اللہ کو پرواہ نہیں ہو تی کہ کس وادی میں وہ مرتا ہے، اور جو اللہ
پر بھروسہ کرے اللہ ان تمام راہوں کا انتظام فرماتا ہے۔‘‘ |