سیاست کامطلب کسی دورمیں خدمت کے معنی میں
لیاجاتاتھاکیونکہ اس دورمیں جوشخص عوام سے ووٹ لے کرسیاستدان اورحکمران
بنتاوہ پھرعوامی خدمت میں ذات ومفادتک اپنی سب اناؤں،خواہشتات ،ضروریات
مطلب اپنے دل پرپتھررکھ کرخود ی تک کوبھلادیتامگراب۔۔؟اب ایسانہیں۔آج سیاست
نے کاروبارکاروپ دھارلیاہے۔اب جوجتنازیادہ سرمایہ لگائے گاوہ اتناہی زیادہ
کمائے گا۔ہمیں تحریک صوبہ ہزارہ کے مرحوم قائدکی وہ بات آج بھی اچھی طرح
یادہے۔یہ دسمبرکی ایک سردشام تھی۔ہم اپنے ایک دوست کے ہمراہ کسی اخبارکے
لئے قائدتحریک صوبہ ہزارہ کاانٹرویوکرنے گئے۔باباجی سے توملتے ہوئے ویسے
بھی دنیاجہان کی باتیں ہوتیں لیکن اس دن باباجی نے ایک بات کی جوواﷲ ہمارے
دل کولگی۔آج بھی جب ہم ملک وقوم کے یہ حالات دیکھتے ہیں توہمیں باباجی کی
وہ بات فوراًیادآجاتی ہے۔اﷲ کریم باباجی کی قبرپرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے
۔سیاست اوراہل سیاست سے متعلق کسی سوال پرباباجی نے کہا۔جوزوی صاحب۔ اس ملک
میں اب سیاست ہے اورنہ ہی کوئی اہل سیاست۔آج توسیاست کاروباراورسیاستدان
دکانداربن چکے ہیں ۔نہ جانے باباجی نے یہ بات کس ضمن اورکس وجہ سے کی لیکن
آج اگردیکھاجائے توباباجی کی یہ بات ہرلحاظ اورزوایے سے ہماری سیاست
اورہمارے ان سیاستدانوں پرفٹ بلکہ 100فیصدفٹ آتی ہے۔آج آپ گلگت سے
کراچی،چترال سے مکران ،سوات سے واہگہ بارڈراورپشاورسے کاغان تک ملک کاچپہ
چپہ چھان ماریں۔آپ ایک چھوٹے سے گاؤں سے شروع کرکے کسی شہر،تحصیل اورضلع تک
پرانے سیاستدانوں کے ساتھ سیاست میں کودنے والے دورجدیدکے چھوٹے سے کسان
کونسلر،کسی نومولودایم پی اے اورکسی نوواردایم این اے کے نبض پربھی ہاتھ
رکھ کردیکھیں۔آپ کواس کسان کونسلر،ایم پی اے، اورایم این اے کی رگوں میں
عوام اورخدمت خلق سے زیادہ ذات اورمفادکاخون بجلی سی رفتارلئے
دوڑتاہوانظرآئے گا۔یہ ووٹ عوام سے لیتے ہیں ۔نعرہ یہ خدمت کالگاتے ہیں لیکن
انتخابات کے بعدیہ سارے پھر الگ الگ چھابڑیاں اورٹوکرے
سرپراٹھاکراپنااپناچورن بیچناشروع کردیتے ہیں ۔ایک طرف یوم سیاہ اوردوسری
طرف یوم تشکریہ کیاہے۔۔؟یہی تووہ دکانداری اورکاروبارہی ہے جس کے ذریعے یہ
سیاستدان اورحکمران سادہ لوح عوام کوبیوقوف بناکراپنے دام کھرے کرتے ہیں۔اس
ملک اورقوم کے لئے توہرشب شب تاریک اورہردن یوم سیاہ ہے کہ ان پرایسے
مفادپرست اورنوسربازسیاستدان وحکمران مسلط ہیں۔ان سیاستدانوں اورحکمرانوں
کی وجہ سے اس ملک کے غریب عوام مہنگائی کی دلدل میں دھنسے
اورغربت،بیروزگاری وبھوک افلاس کے کیچڑمیں پھنسے لیکن ان عوام کی آج کسی
کوکوئی فکرنہیں ۔کوئی پرچم اٹھاکریوم سیاہ منارہے ہیں توکوئی جھنڈے
لہراکریوم تشکرانجوائے کررہے ہیں ۔سیاہ وسفیدوالے ان دونوں فریقوں
کامقصداورمنزل ایک ہی ہے ۔ ایک فریق اقتدارنہ ملنے پرسوگ منارہاہے
اوردوسراتخت پرچڑھنے کی خوشی میں شادیانے بجارہاہے۔رہ گیادرمیان میں بے
چارہ غریب ۔کہ وہ ان دونوں کے درمیان مہنگائی،غربت،بیروزگاری اوربھوک
وافلاس کے ہاتھوں سسک سسک کرمررہاہے۔غریب کوپیٹ بھرنے کے لئے کھانااورزندہ
رہنے کے لئے پانی چاہیئے۔ملک میں روزگار،بجلی،پانی،صحت اورتعلیم سمیت
دیگربنیادی ضروریات اورسہولیات توکسی غریب کومیسرہی نہیں لیکن ان
سیاستدانوں اورحکمرانوں کواپنی پڑی ہوئی ہے۔ایک سال پہلے ہونے والے
انتخابات توان سیاستدانوں کونظرآرہے ہیں لیکن سامنے کسی جھونپڑی میں بھوک
سے بلکنے ،سسکنے اورتڑپنے والاغریب نہ ان سیاستدانوں کونظرآرہاہے اورنہ ہی
حکمرانوں کواس کی کوئی خبرہے۔ان سیاسیوں کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے غریب
پرآج جوگزررہی ہے اس کی توان کوپرواہ نہیں لیکن اپنے ساتھ ہونے والی سیاسی
رنجشوں،بے انصافیوں اور دھاندلی کی ان سب کوبڑی فکرہے۔اپنی سیاست،ذات
اورمفادکے لئے برسوں سے غریب عوام کاخون چوسنے اورنچوڑنے والے اپوزیشن سے
تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کویوم سیاہ کے نام پرعوام کوپھرسے گمراہ کرنے
کی بجائے ایک دن کواپنے لئے یوم عبرت مناناچاہیئے ۔اسی طرح محض ایک سال کے
اندرمہنگائی،غربت اوربیروزگاری کوفروغ دے کر ملک وقوم کابیڑہ غرق کرنے والے
حکمرانوں اوران کے چمچوں کویوم تشکرنہیں بلکہ یوم بے شرمی مناناچاہیئے۔سال
پہلے ہونے والے انتخابات میں دھاندلی ہوئی یادھاندلا۔۔؟ہم اس بحث میں نہیں
پڑناچاہتے لیکن یہ ضرورکہتے ہیں کہ اس دن ہارنے والوں کے ساتھ جوکچھ ہواوہ
ان کے لئے کسی عبرت سے کم نہیں تھاکیونکہ عوام کوگھرکی لونڈی سمجھ کران کے
حقوق پرشب خون مارنے والوں کے ساتھ پھرایساتوہوناہی تھا۔۔؟ویسے تم برسوں سے
کسی کے حقوق پرڈاکہ ڈالوگے توکیاتمہارے حقوق پھرمحفوظ رہیں گے۔۔؟سیاست
کواپنی ذات اورمفادتک محدودکرکے ووٹ دینے والوں کوغلام سمجھنے والوں کے
ساتھ پھرایساہی ہوتاہے۔یوم سیاہ منانے والے اگراپنے وقت میں غریبوں
کودیوارکے ساتھ لگاکران کے صبرکاامتحان نہ لیتے تویہ بھی بڑے بے
آبروہوکرکوچے سے اس طرح نہ نکلتے۔جیساکروگے ویساتوپھربھروگے۔اپوزیشن والے
ماضی میں جس طرح کرتے رہیں اب اس طرح بھرتے ہی رہیں۔ویسے اپوزیشن
کوتواقتدارسے محرومی کادکھ ہے اوردکھ میں پھرواویلاکرنافطری بات ہے لیکن
اپوزیشن کے یوم سیاہ کے مقابلے میں حکومت کی جانب سے یوم تشکرٹورنامنٹ
منعقدکرنے کی ہمیں کوئی سمجھ نہیں آئی۔کیامعاشی انقلاب،انصاف عام احتساب
سرعام،پچاس لاکھ گھر،ایک کروڑنوکریاں ،نیاپاکستان اورفوری تبدیلی جن کا
نعرہ تھا۔ان کی حکومت میں محض ایک سال کے دوران بدترین مہنگائی ،غربت
وبیروزگای کے ذریعے جس طرح ملک وقوم کا ستیاناس ہوا۔عوام کی امنگوں
اورامیدوں کاجس طرح خون ہوا۔کیاان لوگوں کواپنے ایسے سیاہ کارناموں پریوم
تشکرمنانازیب دیتاہے۔۔؟جن لوگوں کی حکمرانی میں غریبوں پرزمین تنگ اورزندگی
بوجھ بن جائے ایسے لوگوں کواچھلنے ،کودنے اوریوم تشکرمنانے کی بجائے،،یوم
بے شرمی،،مناکراپنی آخرت کی فکرکرنی چاہیئے۔حالات کاتقاضاتویہ تھاکہ
25جولائی کواپوزیشن والے یوم عبرت اوراقتداروالے یوم بے شرمی یایوم
استغفارمنادیتے۔مگرلگتاہے کہ کئی سابق حکمرانوں کواپنی آنکھوں سے نشان عبرت
بنتے دیکھنے کے بعدبھی ہمارے ان سیاستدانوں اورحکمرانوں نے ان سے کوئی عبرت
حاصل نہیں کی۔جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایڑھیاں رگڑنے اورتماشابننے والے سابق
وزیراعظم نوازشریف اورسابق صدرآصف علی زرداری اشاروں اشاروں میں چیخ چیخ
کرکہہ رہے ہیں کہ ،،وقت کے حکمرانوں اورسیاستدانوں،،ہم سے تھوڑی سی عبرت
حاصل کرلو ۔اقتدارکاجوگمنڈتمہیں ہے اس میں کسی وقت ہم بھی مبتلاتھے۔ہم بھی
کسی وقت تم سے زیادہ مضبوط حکمران اورپاورفل سیاستدان شمارہوتے تھے۔جیساتم
سوچ رہے ہوایسا ہم بھی سمجھ رہے تھے کہ مائی کاکوئی لعل ہمیں کبھی ہاتھ
نہیں لگاسکتا۔ آج ہماری حالت اورانجام دیکھ لو۔اقتدارتک پہنچنے کے لئے22سال
تو لگ جاتے ہیں لیکن جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے میں ایک منٹ بھی نہیں
لگتا۔جوحالت اورانجام آج سابق حکمرانوں کاہے یہ بلکہ اس سے بھی بدترکل
کوموجودہ حکمرانوں کابھی ہوسکتاہے۔دولت ،شہرت اوریہ اقتدارآنی جانی چیزیں
ہیں ۔ان پرگمنڈ،تکبراورغروراپنے پاؤں پرکلہاڑی مارنے کے مترادف
ہے۔تکبروغرورویسے بھی میرے رب کوپسندنہیں،جوبھی اس مرض میں مبتلاہواوہ
دنیاکے اندرہی انجام سے ضروردوچارہوا۔آج خودکوطاقت کاسرچشمہ سمجھنے اورکہنے
والے فرعون کے ڈھانچے کوہی ایک باردیکھ لیں،فرعون بھی توان کی طرح
کہتاتھاکہ مجھ سے بڑاکوئی نہیں،پھران کے ساتھ کیاہوا۔۔؟اس کاڈھانچہ
اورہڈیاں صدیاں بیت جانے کے بعدآج بھی اہل دنیاکے لئے باعث عبرت ہے۔ہم نے
اس دنیامیں وقت کے بڑے بڑے حکمرانوں کوبھی غلام اورنشان عبرت بنتے ہوئے
دیکھا۔اﷲ کی دھرتی پرجس نے بھی فرعون بننے کی کوشش کی اﷲ نے اسے عبرت
کانشان ضروربنایا۔کوئی فرعون نہ پہلے بچااورنہ آئندہ بچے گا۔ یہی
ہماراایمان اوریقین ہے۔اسی لئے توکسی شاعرنے کہا۔
صبح کے تخت نشین شام کومجرم ٹھہرے۔۔۔۔ ہم نے پل بھرمیں نصیبوں کوبدلتے
دیکھا
|