عافیہ کی چیخ وپکار

 شہباز رشید بہورو۔۔۔۔۔۔۔ مقبوضہ جموں وکشمیر

عافیہ بہن کی اسیری کا تصور کرتا ہوں تو پورا بدن کانپنے لگتا ہے، نیند اڑ جاتی ہے، خیالات معطل ہوتے ہیں، سانسیں رک جاتی ہیں اور دل رونے لگتا ہے. ہمارے محترم ومکرم ڈاکٹر سمیع اللہ ملک صاحب کا مضمون بعنوان "کیسے بھول جاؤں عافیہ کو"کو پڑھا تو ان کے اس غم میں شامل ہونے کے لئے قلم کا سہارا لیا۔عافیہ بہن کی اسیری کا شدید احساس مجھے ان ہی کے مضمون کے ذریعے حاصل ہوا۔اس مظمون کا ہر جملہ ہی کچھ ایسا تھا کہ آنکھیں پڑھتے پڑھتے اشکبار ، دل شدید غم و غصہ سے دوچار ،زبان پر دعا اور ذہن خیالات سے بھر گیا۔ ان کے اس جملہ نے تو مجھے حوصلہ، ہمت اور ٹھہراو فراہم کیا۔

"مظلوموں کے حقوق کیلئے برسرپیکاررہناہی توزندگی ہے اورہے کیا؟ درندوں سے معصومیت کوبچانا،اس سے بڑااورکیاکام کیاہے!رہنے دیجئے بہت مشکل کا م ہے، اپنے لئے ایک پل بھی نہیں بچتا۔سب کچھ کھپ جاتاہے اس میں،کارعشق ہے،دیوانوں کاکا م۔ہرکس وناکس کے نصیب میں نہیں ہے۔ ہاں اپنااپنانصیباہے،اب کیا کریں". جینے میں تو مزہ ہی تب ہے جب یہ دل درد سے معمور،آنکھیں اشکبار اور بدن کانپنے لگ جائے ۔اسی کو تو کہتے ہیں زندگی ورنہ مثل پتھر سختی سے اپنی دوسروں کو نقصان پہچانے کی اہلیت رکھنا زندگی کے بدلے موت ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں امریکی دورے میں امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ سے ملاقات کی۔ اس دورہ کو پاکستانی میڈیا نے واقعہ معراج سے بھی زیادہ اہمیت دے ڈالی اور نجانے مبالغہ آرائی میں عمران خان کیا سے کیا بنا ئے گئے۔عمران خان صاحب کی ہر حرکت کو پاکستانی میڈیا نے یوں نشرکیاگویاکوئی نیاناممکن خلائی سفرپران کی روانگی ہے،ان کا جہاز پر سوار ہونا، جہاز سے اترنا،امریکی صدر سے ملاقات کرنا ، ان کی تقریر کے دوران ان کی ہر جنبش لب اور آنکھ کی ہر حرکت کو تخیلاتی اندازمیں نشرکیاگیا۔پاکستان کا ہر ٹی۔ وی چینل خان صاحب کے گن گانے کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔عمران خان کو پاکستان کی شان،آن بان اور پہچان بتانے میں پورے دودن صرف کئے گئے۔حد تو یہاں تک ہوئی کہ کپتان کی ملاقات کو سوشل میڈیا میں بڑے پیمانے پربھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی امریکی صدر سے ملاقات کے مقابلے میں دکھایا گیا اور اس تقابل میں ایسی غیر معیاری باتیں کہیں گئی کہ ایک سنجیدہ آدمی کا سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے ۔اس پورے تناظر میں میرے ذہن میں چند سوالات پیدا ہو گئے کہ پاکستانی میڈیا نے عمران خان کی کس بڑی کامیابی کو اس قدر جوش وخروش کے ساتھ منایا؟ کیا امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کرنا بہت بڑی کامیابی ہے؟کیا قصرسفید میں داخل ہونا ایک بہت بڑی کامیابی ہے ؟ کیا عمران خان کا قصرسفید کے روسیاہ،ظالم،جابراوربرملامسلمانوں سے نفرت کااظہارکرنے والے فرعون ڈونالڈ اور میلینا ٹرنپ کے پہلو میں کھڑا ہونا پاکستان کی کامیابی ہے؟کیا عمران خان کابہترین انداز بیاں پاکستان کہ ہر مشکل کاحل ہے ؟کیا کپتان کا صدر ٹرمپ سے افغانستان کے متعلق ایک بار اور دوسرے صدر مشرف کی طرح امریکہ کے حکم کے سامنے ہاں ہاں میں سر ہلانا پاکستان کی عوام کے لئے جیت ہے؟ ان جیسے متعدد سوالات میرے ذہن میں اپنا رخ بدلتے رہے لیکن میں موجودہ پاکستانی حکومت کی غلام ذہنیت پرصرف کف افسوس ملتے رہ گیا۔عمران خان کا یہ جملہ تو میرے لئے نشتر کے وار سے کم نہیں تھا"مجھے نہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں کسی بیرون ملک کے سفر سے واپس آرہا ہوں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کرکٹ ورلڈ کپ جیت کے آرہا ہوں"۔ہاں عمران صاحب یہی آپ کی کامیابی ہے کہ آپ قصر فرعون کے عیاشانہ اور شاہانہ ماحول میں اپنی مظلوم بہن عافیہ صدیقی کو بھول گئے جنہوں نے آپ کے وزیر اعظم بننے پرآپ کو ایک خط لکھ کرآپ کووعدہ یادلایاتھا کہ میں اس غیرقانونی سزاکی بناء پرقید سے باہر نکلنا چاہتی ہوں۔مجھے اغوا کر کے لایا گیا ہے ۔کیا عمران صاحب آپ اپنا ماضی فراموش کر گئے ؟ کیا ٓآپ اپنا غیرت نامہ پاکستان میں بھول گئے تھے؟ کیا آپ اپنی دھواں دھار تقاریرجس میں عافیہ کی رہائی کاساری قوم کے ساتھ وعدہ کیاتھااوریقیناً اس وقت کراماًکاتبین بھی توآپ کی اس گفتگوکوریکارڈکررہے تھے اورلوحِ آسماں پرتمام گفتگوآپ کے نامہ اعمال میں درج کرکے پہنچادی گئی لیکن آپ نے بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح اپنی سیاسی فتح اوراقتدارکی کامیابی کیلئے یہ بلندبانگ دعوے کئے جویقیناً روزِ آخرت کے دن آپ کے محاسبے کیلئے کافی ہوں گے۔ کیا آپ نے سوچاکہ مشرف ، نواز شریف اوردیگر غیرت فروشوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کروا کر اللہ کے ہاں حاضرکئے جائیں گے ؟ ہاں عمران صاحب تم وہ کچھ کر نے پر کمربستہ ہو جو آپ کے پیش رو حکمرانوں کی عادت ،فطرت اور نیت رہی ہے ۔حکومت کی گدی پر چڑھنے کے لئے کسی بے سہارا ،دل جلی،ظلم کی ماری کال کوٹھری میں قید معصوم بہن کی معصوم لیکن بجھی ہوئی تمناوں کو جھوٹابھروسہ دے کر وقت آنے پراس کی مظلومیت کا مذاق اڑانا پاکستان کے حکمرانوں کا انتخابی نغمہ بن چکا ہے ۔ہم ہی تو دیکھنے والے ہیں ،سننے والے ،اتفاق کرنے والے ،اختلاف کرنے والے ،منتخب کرنے والے ،تالیاں بجانے والے اورمداح خواں ہیں ۔یہ سب کچھ کرنے والے ہم ہیں لیکن ہم احساس سے عاری اور درد سے خالی ہوچکے ہیں ۔ہمیں کسی کی مظلومیت پر اب ترس نہیں آتا ہمیں بس کرسی پر بیٹھ کر مخر کی ہڈی کو ہلانے میں مزہ آتا ہے،لوگوں کی خوشامد سماعت فرمانے میں مزہ آتا ہے ،غیرت داو پر لگا کر عزت حاصل کرنے میں مزہ آتا ہے، فرعونوں اور نمرودوں کی توجہ کا مرکز بننے میں مزہ آتا ہے،بے حیا اینکرز کوانٹرویو دینے میں مزہ آتا ہے،دوسروں کو نصیحت کرنے اور خود بے عمل رہنے میں مزہ آتا ۔ہاں ہاں ہمیں یہی سب کچھ کرنے میں لذت حاصل ہوتی ہے۔

امیدیں جن سے وابستہ تھیں وہی امید توڑ بیٹھے،جن کی زبانوں سے میٹھے بول نکلتے تھے اب وہی زہر اگلنے لگے ،جو بے آسروں کا دل جیت چکے تھے وہی اب دل توڑ بیٹھے،جو کبھی سینے سے لگاتے تھے وہی اب ہم سے بے رخی برت رہے ہیں، جو کئی سالوں سے یاد کررہے تھے اب وہی ایک لمحہ میں سب کچھ فراموش کر گئے اورجوایک عرصہ دراز سے جانتے تھے وہ اب پہچانتے نہیں۔اس بے رخی اور بے اعتنائی کا سبب تلاش کروں توکیا کروں؟ہماری ملت کے حکمران کرسی پر شیر اور میدان میں بھیڑ،اپنی عوام کے رو برو گرج دار لیکن باطل کے سامنے کوئل کی مٹھاس،خیالات بڑے لیکن اعمال حقیر،مقاصد بلند لیکن عزائم پست،نعرہ خود مختاری کا لیکن مزاج غلامی کا،وعدہ خدمت کا لیکن ہوس حکمرانی کی۔اس پیچیدہ صورتحال میں ایک عام آدمی اپنی سوچ،سمجھ،جرات ،غیرت اورعزت حکمرانوں کے پاس رہن رکھ کر زندگی گذاررہاہے۔دین،ایمان،توحید،قرآن،حدیث،رسالت اور آخرت سب کچھ فراموش کر کے اپنی پہچان بنانے میں مصروف ہیں ۔اتنا بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ اپنی پہچان کی ٹوپی اتارکراب کون سی پہچان قائم کرنا چاہتے ہیں؟اتنا طویل سفر طے کرکے بھی ایک بات بھی ٹرمپ انتظامیہ سے منوا نہ سکے پاکستان کے حکمران۔اگرچہ دعوٰی بڑی کامیابی کا ہے لیکن ملت کے سامنے ناکام پلٹ کرآئے ہیں آپ۔عمران خان کو امریکہ میں کرکٹ ،نون لیگ،آصف زرداری،بلاول بھٹو،مریم بی بی وغیرہ سب یاد رہے لیکن یاد رکھے جانے کی عظیم مستحق ملت کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بھول گئے۔حیرت ہوتی ہے عمران خان پر کہ انہیں عافیہ صدیقی تو پاکستان کی گلی کوچوں میں یاد،پارٹی کے اجتماعوں میں یاد،ٹی وی چینلز پہ یاد،اسمبلی میں یاد،یاد وہاں رہی جہاں وہ موجود نہیں تھی اوربھول وہاں گئے جہاں وہ موجود تھی۔ معصوم عافیہ کی چیخوں کی پکاربھی آپ کوسنائی نہیں دی؟


 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.