بندے ہم بھی تھے بڑے کام کے لیکن اے عشق تونے ہمیں
نکمابنادیا۔وزیراعظم عمران خان بندے واقعی بڑے کام اورکمال کے تھے لیکن
کمبخت اس سیاست اوراقتدارنے انہیں نکمابنادیاہے۔صاحب کی پرانی تقاریر،وعظ
ونصیحت اورڈائیلاگ سن کرآج بھی مزہ بلکہ بہت مزہ آتاہے۔میں کسی کے سامنے
ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا،کسی کے سامنے نہیں جھکوں گا،خودکشی کرلوں گامگرآئی
ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا،جوقوم بھیک مانگتی ہے دنیامیں اس کی پھرعزت
نہیں ہوتی ،اقتدارمیں آکرہم دنیاکے سامنے سراٹھاچلیں گے،کسی کے سامنے نہیں
جھکیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔اس طرح کی باریک باریک باتیں ،وعظ اورنصیحتیں کوئی
کام اورکمال کابندہ ہی کرسکتاہے۔ہمارے کپتان واقعی بلاشک وشبہ کام اورکمال
کے بندے تھے لیکن افسوس اقتدارکی رنگینیوں اورنظریہ ضرورت نے انہیں بھی
ہمارے سابق حکمرانوں کی طرح بے کاراوربے کمال کردیاہے۔کپتان کی صورت میں دل
ودنیاکے کالوں کے ساتھ مغربی گوروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ایک جھلک
دیکھنے کی بھی امیدتھی مگراب۔۔؟اب تو وہ بھی ٹوٹ گئی۔وزیراعظم عمران خان
کاحالیہ دورہ امریکہ بطورایک سیاستدان اورپارٹی قائدتوکامیاب رہاکیونکہ
امریکہ جیسے گوروں کے دیس میں ہزاروں افرادکوسبزہلالی پرچم کے سائے تلے جمع
کرناواقعی کوئی بچوں کاکھیل نہیں۔اس لئے امریکہ میں کپتان کے کامیاب جلسے
کی جتنی بھی تعریف وتحسین کی جائے وہ کم ہے لیکن دوسری طرف بطورحکمران
عمران خان اپنے دل وخیالات کی روشنی میں ایک کامیاب دورہ کرنے میں یقینی
طورپرناکام مکمل ناکام رہے کیونکہ بادشاہ سلامت سے اپنی پہلی ملاقات میں
ہمارے کپتان بھی سابق وزیراعظم نوازشریف،آصف علی زرداری اوردیگرحکمرانوں کے
رسم ورواج اورروایات کوتوڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔22سال سے قوم
کوخودداری،غیرت،حمیت ،ایمانداری اوربہادری کادرس دینے والے وائٹ ہاؤس میں
داخل ہوتے ہی پھرخودیہ سب کچھ بھول گئے۔ قوم کوبڑی امیداورتوقع تھی کہ
وزیراعظم عمران خان صدرٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراگلاپچھلاساراحساب
وکتاب برابرکردیں گے لیکن اس بھولی بھالی قوم کوکیاپتہ ۔۔؟کہ اقتدارکی مستی
اورحکمرانی کانشہ یہ توشیرکوبھی گیدڑکے سامنے دم ہلانے پرمجبورکردیتی ہے۔
ماناکہ وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی طرح پرچی سامنے
رکھ کرامریکی صدرسے بات نہیں کی لیکن یہ بھی توایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم
پرچی کے بغیربھی صدرٹرمپ کے سامنے دل وضمیرکی کوئی بات نہیں کرسکے۔کہنے
والے توکہتے ہیں کہ سابق بزدل اورڈرپوک حکمرانوں کی طرح دورہ امریکہ کے
موقع پروزیراعظم عمران خان کے دل ودماغ پربھی خوف اورپریشانی کایہ بھوت
سواررہاکہ کہیں بادشاہ سلامت کی کسی بات سے دل آزاری اورگستاخی نہ ہو۔اس
لئے دل وضمیرکی باتوں کودل کی قبرمیں دفن کرکے بادشاہ سلامت سے پہلی ملاقات
میں جی جی کے تھڑکے سے لبریزخوش ذائقہ اورخوشبودارباتوں پرہی
اکتفاکیاگیا۔بہرحال جواس دورے کوسیاسی اورسفارتی دونوں لحاظ سے کامیاب
قراردے کرناچ رہے ہیں اﷲ کرے وہ اسی طرح ناچتے رہیں کیونکہ یہ بات بات
پرناچناان کاحق ہے اورہمیں ویسے بھی اس سے کوئی تکلیف اورپریشانی نہیں لیکن
اتناضرورکہتے ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات یاامریکہ کی جانب سے کسی
امدادکااعلان یہ کوئی بڑی بات نہیں ۔دہشتگردی کے خلاف نام نہادجنگ کواپنے
کندھوں پرلے کرہم نے امریکہ کی خاطرجوکچھ کیاصدرٹرمپ کیا۔امریکہ کاکوئی بھی
گورا ہمارے اس احسان کابدلہ کبھی نہیں چکاسکتا۔دہشتگردی کے خلاف نام
نہادجنگ کی وجہ سے ہی تویہ خطہ آگ وبارودکاڈھیربنا۔ہمارے ہزاروں فوجی جوان
اورعام شہری اسی دہشتگردی کانشانہ بن کرہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
جداہوئے۔امریکہ جی کی وجہ سے ہی توہمارایہ ہستابستاگلستان قبرستان میں
تبدیل ہوااورہماری ہزاروں مائیں ممتااوربچے باپ کی شفقت سے محروم
ہوئے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کودکراپنے پھول جیسے بچوں اورشہزادوں جیسے
ہزاروں جوانوں کے جنازے ہم نے اٹھائے۔معیشت ہماری تباہ ہوئی ۔امن
ہماراداؤپرلگالیکن پھربھی گلے اورشکوے بادشاہ سلامت کوہم سے ہیں ۔واہ
کیاعجب انصاف اور احسان کاکیازبردست بدلہ ہے۔۔؟پاکستان کے سابق حکمران
ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے تھے یاانہوں نے تعاون نہیں کیا۔امریکی صدرکی
جانب سے یہ گلہ اورشکوہ کیاہماری ان لازوال قربانیوں سے انکارنہیں۔۔؟ ہمارے
سابق حکمرانوں نے اگرامریکہ کی غلامی نہیں کی توپھرامریکہ اس خطے
کاٹھیکیدارکیسے بنا۔۔؟مسٹرٹرمپ پوری دنیامیں کوئی ایک فرد،گروہ یاکوئی ملک
ایسادکھائیں جس نے ہم سے زیادہ گوروں کے لئے قربانیاں دی ہوں ۔اﷲ شاہدہے کہ
امریکی محبت میں توہم پھراپنوں اوربیگانوں میں بھی کوئی تمیز نہیں
کرسکے۔ماضی قریب اوربعیدمیں ہمارے حکمران توامریکی غلامی میں اس قدرمگن رہے
کہ انہیں پھراپنی عزت،وقار،خودداری اورایمانداری تک بھی یادنہیں
رہی۔ڈاکٹرعافیہ صدیقی یہ امریکہ نہیں ہماری عزت تھی اورہے۔عافیہ صدیقی گناہ
گارہے یاپرہیزگاروہ الگ مسئلہ ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اپنی یہ عزت تو
اپنے ہاتھوں ہی امریکہ کودی نا ۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کوہم
صرف اس لئے ناکامی کی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ ہمارے کپتان کوٹرمپ کی سننی
نہیں بلکہ ایک کپتان کی طرح انہیں کھری کھری سنانی چاہئے تھیں۔ہم نے
توامریکہ کے لئے اپناسب کچھ داؤپرلگایامگرامریکہ نے ہمارے لئے
کیاکیا۔۔؟صدرٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیرپرثالثی کی پیشکش یہ تووہ لالی پاپ
ہے جویہاں ہمارے چھوٹے چھوٹے سیاستدان بھی گلی محلوں میں روزانہ ہزاروں
اورلاکھوں کے حساب سے تقسیم کرتے ہیں ۔مسئلہ کشمیریہ کل کاکوئی مسئلہ تو
نہیں۔اس مسئلے پرتوسترسال سے ہزاروں اورلاکھوں بے گناہ کشمیری اپنی جانیں
قربان کرچکے ہیں۔مظلوم کشمیریوں کی چیخیں اوربھارتی جارحیت وبربریت کی
پھڑپھڑاہٹ توبرسوں سے پوری دنیامیں سنائی دے رہی ہے۔کیاامریکہ اس ظلم سے
ابھی تک بے خبررہا۔۔؟صدرٹرمپ کومسئلہ کشمیرکے حوالے سے اقوام متحدہ کی
قراردادوں کابھی کیاکوئی علم نہیں ۔۔؟وہ امریکہ جن کی بھوکی آنکھوں سے
عراق،افغانستان اورلیبیامیں زمین کے اندرتیل ودیگرذخائربھی پوشیدہ نہ رہے
وہ بھلااتنے بڑے مسئلے اورظلم سے کیسے بے خبررہ سکتاہے۔۔؟حقیقت تویہ ہے کہ
مودی کے یاروں اوربھارت کے وفاداروں کو کشمیرکے اندربھارتی مظالم کبھی
مظالم محسوس ہی نہ ہوئے۔امریکہ کی تویہ خواہش ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیرمیں
اسی طرح الجھارہے۔اس لئے اقوام متحدہ کی واضح قراردادوں کے باوجوداس مسئلے
کوکبھی سنجیدگی کے ساتھ لیاہی نہیں گیا۔امریکہ اس وقت افغانستان میں بری
طرح پھنس چکاہے ۔تمام تروسائل استعمال کرنے اورایڑی چوٹی کازورلگانے کے
باوجودوقت کے سپرپاورکوافغانستان سے بھاگنے کاکوئی موقع مل رہاہے اورنہ ہی
فرارہونے کے لئے کوئی راستہ۔افغان جنگ نے امریکہ کی کمرتوڑکے رکھ دی
ہے۔امریکہ اگرمزیدچندسال تک افغانستان میں اسی طرح پھنسارہاتوپھربہت
جلدمسٹرٹرمپ جیسے لوگ بھی امریکہ میں خاک چھاننے پرمجبورہوجائیں گے ۔اس لئے
ماضی کی طرح اب ایک بارپھرہمیں نہیں امریکہ کوہمارے کندھے کی ضرورت درپیش
آئی ہے اوراسی وجہ سے امریکہ ہمیں مسئلہ کشمیرپرثالثی کی میٹھی گولی دے
کرہمارے ذریعے اپنی عزت بچاناچاہتاہے۔ یہ سچ کہ خطے میں چوہدراہٹ کی وجہ سے
اگرامریکہ سچے دل سے چاہے تومسئلہ کشمیرکے پرامن اورقابل قبول حل میں
اپناکلیدی کرداراداکرسکتاہے لیکن بظاہرایساممکن دکھائی نہیں دے رہاکیونکہ
امریکہ مسئلہ کشمیرکے حل میں کبھی سنجیدہ تھااورنہ اب ہے۔صدرٹرمپ کی جانب
سے ثالثی کی تازہ پیشکش یہ افغان مسئلے پرہماراکندھاحاصل کرنے کے لئے ایک
بہانہ یاایک دانہ ہے۔طاقت کے نشے میں مدہوش ٹرمپ جیسے گورے اﷲ کی رضاکیلئے
کبھی سانپ نہیں مارتے۔پھربھارتی سانپ توان کااپناپالاہواہے۔یہ ہماری خاطراس
اژدھے کوکیسے ماریں گے۔۔؟اس لئے امریکہ کے ساتھ دوستی کانیاسفرشروع کرنے سے
پہلے ہمیں سابقہ تجربات اورزمینی حقائق کوسامنے رکھناچاہئے کہیں ایسانہ
ہوکہ امریکہ ایک بارپھرہماراکندھااستعمال کرکے آگے نکل جائے اورہم پھرہاتھ
ملتے رہ جائیں ۔
|