اﷲ سبحانہ وتعالیٰ جو کہ خالقِ کائنات ہے؛ اس نے انسان
کو پیدا کیا اور اس کے سر پر شرف وبزرگی کا تاج سجایا۔ پھر چند امتحانات
میں کامیابی حاصل کرکے سرخ رو ہونے کے لیے، اسے اس دنیا میں بھیج دیا۔ اب
جو شخص، اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم واشارہ پاکر ’قربانی‘ پیش کردے گا، وہ
سرخ رو ہوگا اور جو باوجود واضح احکام دلائل کے، حکم کی تعمیل میں چوں وچرا
کرے گا، وہ راندۂ درگاہ ہوگا۔’قربانی‘ رسول اﷲ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم
کی سنتِ دائمہ ہے، اس لیے کہ آپ نے مدینہ منورہ تشریف آوری کے بعد ہر سال
قربانی کی ہے۔ (ترمذی) اور امت کو بھی اس کی تعلیم وترغیب دی۔ (بخاری، مسلم)
یہی نہیں، بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے باوجود استطاعت کے قربانی نہ کرنے
والوں سے سخت ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا۔ (ابن ماجہ) اسی کے پیش نظر
علماءِ محققین نے قربانی کوواجب قرار دیاہے۔ (فتاویٰ سراجیہ)
معنی و مفہوم
علامہ راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں: ’القربان‘کے معنی ہیں ’ہر وہ چیز جس سے اﷲ
تعالیٰ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان بمعنی ’نسیکۃ‘ یعنی ’ذبیحۃ‘
کے آتا ہے‘۔ اس کی جمع ’قرابین‘ہے۔ (معجم مفردات الفاظ القرآن)اسی سے
قربانی بنا ہے۔قربانی کو عربی میں اصطلاحاً ’اُضحیہ‘کہتے ہیں۔ (کتاب
التعریفات )اضحیہ کا لفظ قدرے اختلاف کے ساتھ چار طرح نقل کیا گیا ہے: (۱)
اُضحیہ (۲) اِضحیہ؛ ان کی جمع اضاحی ہے (۳)ضحیہ؛ اس کی جمع ضحایا ہے اور
(۴) اضحاۃ؛ اس کی جمع اضحی ہے۔ اسی لیے بقر عید کو ’یوم الاضحی‘ کہا جاتا
ہے۔(شرح مسلم للنووی، المجموع شرح المہذب)شرعاً اُضحیہ اس مخصوص جانور کو
کہتے ہیں، جسے قربت کی نیت سے مخصوص زمانہ میں مخصوص عمر کے ساتھ، مخصوص
اسباب وشرائط کی بنا پر ذبح کیا جاتا ہے۔(ہندیہ)
پس منظر
اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے موسس ومورثِ اعلیٰ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل
اﷲ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی دانست میں اﷲ تعالیٰ کا حکم
واشارہ پاکر اپنے لختِ جگر سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی
رضامندی سے قربانی کے لیے اﷲ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرکے اور ان کے گلے پر
چھری رکھ کر اپنی سچی وفاداری اور کامل تسلیم ورضا کا ثبوت دیا تھا، اور اﷲ
تعالیٰ نے عشق ومحبت اور قربانی کے اس امتحان میں ان کو کامیاب قرار دے کر
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زندہ وسلامت رکھ کر ان کی جگہ ایک جانور کی
قربانی قبول فرمالی تھی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سر پر ’امامت‘ کا
تاج رکھ دیا، اور ان کی اس نقل کو قیامت تک کے لیے ’رسمِ عاشقی‘ قرار دے
دیا، پس اِس دن کو اُس عظیم تاریخی واقعہ کی حیثیت سے تہوار قرار دے دیا
گیا۔ چوں کہ امتِ مسلمہ ملتِ ابراہیمی کی وارث اور اسوۂ خلیلی کی نمائندہ
ہے، اس موقع پر یعنی ۱۰/ذی الحجہ میں پورے عالمِ اسلامی کا حج میں اجتماع
اور اس کے مناسک حج میں قربانی وغیرہ اس واقعہ کی گویا اصل واول درجے کی
یادگار ہیں اور ہر اسلامی شہر اور بستی میں عید الاضحی کی تقریبات؛ نماز
وقربانی وغیرہ اس کی گویا نقل اور دوم درجے کی یادگار ہیں۔ انھیں وجوہات کی
بنا پر اس دن کو ’یوم العید‘ یعنی عید کا دن کہتے ہیں۔ (ملخصاً معارف
الحدیث)
قربانی واجب ہونے کی شرطیں
قربانی واجب ہونے کی درجِ ذیل شرطیں ہیں: (۱) مسلمان ہونا، غیر مسلم پر
قربانی واجب نہیں ۔(ھندیہ) (۲) مقیم ہونا، مسافر پر قربانی واجب نہیں، اگر
چہ وہ بقدر نصاب مال کا مالک ہو، یعنی اگر وہ ایام قربانی، ۱۰؍ ذی الحجہ کے
طلوع آفتاب سے۱۲؍ ذی الحجہ کے غروبِ آفتاب تک سفر شرعی میں رہے، تو اس پر
قربانی واجب نہیں ہوگی اور واپسی کے بعد اس کی قضاء بھی واجب نہیں (ھندیہ)
(۳) آزاد ہونا، غلام پر قربانی واجب نہیں۔ آزاد سے مراد یہ ہے کہ وہ غلام
یا باندی نہ ہو، عورت خاوند کے ہوتے ہوئے بھی آزاد ہے، بیٹے اور نوکر سب
آزاد ہیں۔ ہندوستان میں غلامی کا وجود نہیں۔ قیدی بھی آزاد ہیں اور ملازمِ
سرکار وغیر سرکار سب آزاد ہیں۔ اگر یہ لوگ مالکِ نصاب ہوں تو ان پر قربانی
واجب ہوگی۔ (ھندیہ، کفایت المفتی )(۴) مالکِ نصاب ہونا اور اس میں اتنا
کافی ہے کہ نصاب کا یا ایسی چیز کا مالک ہو، جس کی قیمت حاجتِ اصلی سے زائد
ہوکر نصاب کے برابر ہو جائے۔ (ھندیہ) نیز قربانی ایسے شخص پر واجب ہے جس کے
پاس بنیادی ضروریات کے علاوہ کوئی بھی سامان یا نقد رقم اتنی موجود ہو، جو
ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اگر کسی شخص پر قرض ہو، لیکن
بنیادی ضروری اشیاء، رہائشی مکان، استعمالی چیزوں اور استعمالی کپڑوں کے
علاوہ جو کچھ اس کی املاک ہوں، وہ اتنی ہوں کہ بیچ دی جائیں تو قرض ادا
کرنے کے بعد بھی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر اس کے پاس بچ رہے،
تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہے اور جس طرح دوسرے حقوق کی ادائیگی کے لئے
حسبِ ضرورت قرض لینا درست ہے، ایسے ہی اس مقصد کے لئے بھی قرض لینا جائز ہے۔
(کتاب الفتاویٰ) (۵) بالغ ہونا، نا بالغ پر قربانی واجب نہیں، البتہ! اگر
والدین صاحبِ مال ہوں اور اپنی نا بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں
تو کرسکتے ہیں، لیکن یہ مستحب ہے، واجب نہیں ۔(فتاویٰ رحیمیہ)(۶) عاقل ہونا،
مجنون پر قربانی واجب نہیں۔ اگر قربانی کے ایام میں مجنون کو افاقہ ہو تو
اس پر قربانی واجب ہے ۔(جواہر الفقہ)
(ڈیریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
٭٭٭٭
|