ہندوستان کی تاریخ میں بارہا ایسے مواقع آئے کہ اسلام کے
آفتاب عالم تاب کی کرنیں ختم کرنے کی کوششیں ہوئیں- کبھی تمدنِ اسلامی کو
نشانہ بنایا گیا، کبھی حقوقِ انسانی کے عظیم اسلامی اُصولوں کو، کبھی حقوقِ
نسواں کی آڑ میں صداقت کی لَو مدھم کرنے کی تگ و دَو رہی- الغرض! اسلام سے
کفر کی نبرد آزمائی جاری رہی، انگریزی عہد میں اس میں مزید اضافہ ہوا کہ
مشرکین و انگریز کے مشترک دُشمن مسلمان تھے، دونوں قوتیں مل کر برسرِ پیکار
رہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی ست
حال کا المیہ:
ملک میں فرقہ پرست حکومت آئی- جن کا مسلم مخالف ایجنڈا اول دن سے ظاہر ہے-
مودی حکومت نے پہلے شعائر اسلام پر وار کیا- گائے کی نسل کے ذبیحہ پر
پابندی عائد کی- اس وقت جیسی مخالفت کی جانی تھی؛ وہ نہیں ہوئی- پھر اسی
وقت قوانین اسلامی سے متعلق زہر افشانی کا بازار گرم کیا گیا؛ اور بہت جلد
تحفظ خواتین بل کے تحت طلاق جیسے خالص اسلامی مسئلہ پر قانون سازی کا
ہنگامہ سامنے آیا- مسلم نمائندگی کی دعوے دار جماعتوں میں بعض افراد ایسے
بھی سامنے آئے؛ جن کی بولی حکومت کی چاپلوسی سے مستنیر تھی؛ جیسا کہ بابری
مسجد کے مسئلے میں تصفیہ کے نام پر مندر کی تعمیر سے اتفاق جیسے عناوین
اُٹھائے گئے-
بہر کیف طلاق سے متعلق مسلم قیادت کا بحران رہا؛ وجہ یہ رہی کہ ملکی سطح پر
آواز بلند ہوئی تو اس پر اقتدار کا رعب طاری رہا؛ کہیں ایوان میں ایک دو
نمائندگان کے علاوہ بقیہ مہر بہ لب رہے؛ عوامی سطح پر تحریک تو چلائی گئی
لیکن عملاً زمیں کم زور رہی؛ حکومت نے سپریم کورٹ کے ذریعے اس خالص اسلامی
مسئلے پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی؛ کورٹ نے مسلم پرسنل لاء میں
کُلّی مداخلت کی راہیں مسدود دیکھی تو قانون سازی کا مشورہ دیا- جس پر فی
الفور کارروائی رو بعمل لائی گئی- نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ قانون سازی کی
گئی- جسے دونوں ایوانوں میں پاس کر لیا گیا- سیکولر ارکان ایوان کا بوقت
بحث بجائے مخالفت میں ووٹنگ کے واک آؤٹ کر جانا مسلم دشمنی کا عملاً اظہار
ہے-
ہمیں کیا کرنا چاہیے:
شریعت میں حکومت کی در اندازی کے پیش نظر ایک سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا
چاہیے؟.... اس بابت نتیجہ اخذ کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ؛ اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا بریلوی نے ایک صدی پیش تر اپنی معرکہ آرا کتاب ’’تدبیر
فلاح و نجات و اصلاح‘‘ میں جو تدبیر عطا کی؛ وہ درج کر دی جائے؛ اعلیٰ حضرت
لکھتے ہیں:
’’اپنے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے اپنے سب مقدمات اپنے آپ فیصل کرتے۔‘‘
(تدبیر فلاح و نجات و اصلاح، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں۲۰۰۸ء،ص۱۲)
اطلاقات:
مذکورہ معرکہ آرا نکتہ سے یہ پہلو سامنے آتے ہیں کہ:
1- شرعی معاملات میں غیر اسلامی قوانین کی حامل کورٹوں سے رجوع نہ کریں-
2- مسائل وارد ہونے کی صورت میں دارالافتاء و دارالقضاء سے حل کروائیں-
3- مسلمانوں کے لئے شریعت کا حکم حرفِ آخر ہے؛ پھر شرعی حکم سے واقفیت کے
بعد صبر و شکر کے ساتھ اس کے قبول میں تامل کیسا؟ اس لیے اگر طلاق کے
معاملات واقع ہوں تو گرمی و غصہ پر قابو پائیں اور دارالافتاء سے رجوع کریں-
4- اگر مسلمان یہ تہیہ کر لیں کہ ہمیں باہمی مسائل میں کورٹ نہیں جانا؛ تو
پھر طلاق سے متعلق بِل کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی؟؟؟
5- اسلامی دارالافتاء سے رجوع میں وقت، مال، عزت و قوت سبھی کا تحفظ ہے؛ اس
لیے اگر پوری قوم یہ عزم کر لے کہ ہمیں طلاق، شرعی معاملات، عائلی مسائل
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے ہیں؛ تو مسلم مخالف سازشوں کی بساط
سمٹ جائے گی-
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی زندگی گزاری جائے- قوم کا ہر فرد قوانین
اسلامی سے واقفیت حاصل کرے- بہارِ شریعت، قانونِ شریعت، نظامِ شریعت جیسی
کتابوں کا مطالعہ کریں تا کہ کتاب و سُنّت کے احکامات کی روشنی ہم تک
پہنچے؛ جو اہلِ تحقیق ہیں اُنہیں چاہیے کہ "فتاویٰ رضویہ" جیسے فقہی دائرۃ
المعارف سے رجوع ہوں- تا کہ تحفظ شریعت کے لیے قومی جذبات کو راہِ مستقیم
فراہم کی جا سکے- اس انفرادی جدوجہد سے اجتماعی تگ و دَو کا تازہ جذبہ مہیا
ہوگا- جس سے شریعت مخالف لہر دَم توڑ دے گی اور سازشی بِل لایعنی ہو کر رہ
جائیں گے-
***
نوٹ: یہ تحریر ٣١ دسمبر ٢٠١٨ء میں لکھی گئی؛ حال کے تناظر میں جزوی ترمیم
کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے- (یکم اگست ٢٠١٩ء)
|