انڈیا میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے
انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت ریاست جموں و
کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔
|
|
یہ فیصلہ وزیراعظم نریندر مودی کے زیرِ صدارت پیر کو دہلی میں ہونے والے
اجلاس میں کیا گیا اور اس کا اعلان وزیرِ داخلہ امت شاہ نے پارلیمان میں
کیا۔
امت شاہ کے اعلان سے قبل ہی صدرِ مملکت اس بل پر دستخط کر چکے تھے یعنی کہ
یہ تبدیلی قانونی درجہ حاصل کر چکی ہے۔
انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی طویل عرصے سے کشمیر سے
متعلق انڈین آئین میں موجود اُن تمام حفاظتی دیواروں کو گرانا چاہتی تھی جو
جموں و کشمیر کو دیگر انڈین ریاستوں سے منفرد بناتی تھی۔
سوال یہ ہے کہ انڈیا کے آئین کا یہ آرٹیکل 370 تھا کیا جس کے تحت جموں و
کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور اس تبدیلی کے نتیجے میں کیا ہو گا۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کا مطلب کیا ہے؟
بی جے پی کی حکومت کی جانب سے لائی جانے والی اس تبدیلی کے نتیجے میں جموں
و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔
اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے بن جائیں گے جن
میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہو گا اور ان دونوں
علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔
جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو
گی۔
امت شاہ کے مطابق جموں و کشمیر کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کا
فیصلہ علاقے میں سکیورٹی کی صورتحال اور مبینہ طور پر سرحد پار سے ہونے
والی دہشت گردی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ مملکت
تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلیٰ کی بجائے براہِ راست
وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں
چلائے گا۔
|
|
انڈیا کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے
اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جائیں گے۔ اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے
فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہو گا۔
جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کی جگہ پانچ برس ہو جائے گی۔
کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ہو جائیں
گے۔
وفاقی حکومت یا پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ جموں و کشمیر میں تعزیراتِ ہند کا
نفاذ ہوگا یا پھر مقامی آر پی سی نافذ رہے گا۔
آرٹیکل 370 تھا کیا؟
تقسیمِ برصغیر کے وقت جموں و کشمیر کے حکمران راجہ ہری سنگھ نے پہلے تو
خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا تاہم بعدازاں مشروط طور پر انڈیا سے الحاق پر
آمادگی ظاہر کی تھی۔
اس صورتحال میں انڈیا کے آئین میں شق 370 کو شامل کیا گیا جس کے تحت جموں و
کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔
تاہم ریاست کی جانب سے علیحدہ آئین کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جس پر سنہ 1951
میں وہاں ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی اجازت بھی دے دی گئی۔
انڈین آئین کی شق 370 عبوری انتظامی ڈھانچے کے بارے میں ہے اور یہ دراصل
مرکز اور ریاستِ جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا۔
یہ آرٹیکل ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین میں خصوصی نیم خودمختار حیثیت
دیتا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ اور انڈین
وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی اس پر پانچ ماہ کی مشاورت کے بعد اسے آئین میں
شامل کیا گیا تھا۔
اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور انڈیا کے آئین
کی جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں اس آرٹیکل کے تحت ان کا اطلاق
ریاست جموں و کشمیر پر نہیں ہو سکتا تھا۔
|
|
اس کے تحت ریاست کو اپنا آئین بنانے، الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا تھا
جبکہ انڈیا کے صدر کے پاس ریاست کا آئین معطل کرنے کا حق بھی نہیں تھا۔
اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے
میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر
انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی ریاست میں یا پورے ملک
میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل 370 کے تحت انڈین حکومت
کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
آرٹیکل 35 اے کیا تھا؟
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت اس میں شامل کیا جانے
والا آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور
مستقل باشندہ پہچان ہوتی تھی اور انھیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے
تھے۔
انڈیا کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A
کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔
اس قانون کی رُو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری
ریاست میں غیرمنقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری
حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔
تاہم اب کسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔
یہ قوانین ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے سنہ 1927 سے 1932 کے درمیان مرتب کیے
تھے اور ان ہی قوانین کو سنہ 1954 میں ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعہ آئین
ہند میں شامل کر لیا گیا تھا۔
کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ آئینِ ہند میں موجود یہ حفاظتی دیوار گرنے کے نتیجے
میں تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن ہو جائیں گے، کیونکہ غیر مسلم آبادکاروں
کی کشمیر آمد کے نتیجے میں ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قبضہ ہو سکتا
ہے۔
یہ خدشہ صرف کشمیر کے علیحدگی پسند حلقوں تک محدود نہیں بلکہ ہند نواز
سیاسی حلقے بھی اس دفعہ کے بچاؤ میں پیش پیش رہے ہیں۔
|