قلم کیسے سب اچھالکھے؟زبان خلق کیسے خاموش
رہے؟اکثریت کے مسائل سے نظریں کیسے اورکیوں چورائی جائیں؟چوری حکمرانوں نے
کی توسزامحکوم کوکیوں ملے؟سب کچھ ٹھیک نہیں توبہترین کیوں اورکیسے
کہیں؟سرکاری اسپتال میں بغیررشوت وسفارش آپریشن نہیں ہوتے توکرپشن میں کمی
کی خبریں کیسے سچی مانی جائیں؟محلوں کے مکین حکمران کسی مزدور،کسان یعنی
غریب عوام کے دکھ تکلیف محلوں کے پرسکون ماحول میں رہ کرکیسے سمجھ سکتے
ہیں؟زندگی کے اصل رنگ دیکھنے ہیں توحکمران محلات سے نکلیں،گلی ،کوچوں میں
میلے اورپھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس،تعلیم سے محروم بچوں کوکسی ہوٹل،ورکشاپ
پرمزدوری کرتادیکھیں،پھرایک باراپنے بچوں کی پرعیش زندگی پرنظرکریں
اورپھرقلم سے سب اچھالکھنے کی فرمائش کریں، حکمران تومقدس گائے ہیں وہ
کیاجانیں کہ ایک مزدورکیلئے جیناکس قدرمشکل ہوچکاہے،پلیٹ میں کھانانہیں،بدن
پرلباس خستہ حال ہیں،صحت وتعلیم نام کی کوئی چیزدستیاب نہیں،عزتیں سرعام
نیلام ہورہی ہیں توریاست مدینہ کی مثالیں کیوں؟اسپتالوں کانظام
بہتربناکرسوفیصد عوام کوصحت کی بنیادی سہولت فراہم کرنے کی بجائے چالیس
فیصد عوام کوصحت کارڈدے کرصحت کی سہولت کومنتخب لوگوں تک محدودکرناکہاں
کاانصاف ہے؟چالیس فیصدکوصحت کارڈملے گابہت اچھی بات پریہ بتایاجائے کہ باقی
ساٹھ فیصد عوام کاکیاقصورہے؟کیاان کوعلاج کی سہولت فراہم کرناحکومت وقت کی
ذمہ داری نہیں؟قلم کیسے سب کچھ اچھالکھے اورکیوں لکھے؟قلم مظلوم اور حق
دارکی آوازہے ظالم کے پاس توتلوارہواکرتی ہے،سب اچھالکھواناہے توسب
اچھاکیاجائے ورنہ سب اچھالکھناممکن نہیں،لٹے لٹائے،غربت کی چکی میں پسے
مہنگائی کے ہاتھوں تنگ خودکشیاں کرتے عوام کہہ رہے ہیں کہ ایماندار،صادق
وامین عوام کاخیرخواہ،خوشحال تبدیلی اور ریاست مدینہ کادعویدارعمران خان
بھی گزشتہ حکمرانوں کے ساتھ ہی کہیں قید ہوگیا،موجودہ وزیراعظم ماضی کے
عمران خان کی طرح عوام کاخیرخواہ نہیں یہ توماضی سے بھی زیادہ مہنگائی لے
آیا،گزشتہ ادوارکے حکمران چورتھے ڈاکوتھے سب کچھ براتھاپرایک شخص جس کانام
عمران خان تھاوہ عوام کاخیرخواہ تھا،ماضی کی خراب حکمرانی سے جان بچانے
اورمستقبل کے سنہرے خواب دیکھنے کی سزایہ ملی کہ حال نے حکمران بناکر عوام
سے وہ خیرخواہ بھی چھین لیا، عام پاکستانی کو تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان
تحریک انصاف کے سربراہ اورحاکم وقت نے بتایاکہ جب ڈالرکی قیمت میں اضافہ
ہو،جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جائیں،جب آئی ایم ایف سے قرضے لئے
جائیں،جب اشیاء خوردونوش مہنگی ہوں توسمجھ لیں کے اوپرحکمران چوربیٹھاہے،اس
آگاہی کوتحریک انصاف کے سپورٹرآج بھی یوں بیان کرتے ہیں کہ کپتان نے عوام
کوشعوردیا،قبل ازجب عمران خان نیازی نے پیپلزپارٹی،ن لیگ،ق لیگ
اوردیگرجماعتوں کے جانے پہچانے کردارجنہیں عوام پہلے بھی آزماچکے تھے
کودعوت دے کراپنی پارٹی میں شامل کیاتواس وقت اہل شعورنے یہ بات کپتان
کوسمجھانے کی کوشش کی کہ یہ توچلے ہوئے کارتوس ہیں جنہیں ساتھ ملاکرتبدیلی
لاناممکن نہیں،تب عمران خان نے کہاکہ میں فرشتے کہاں سے لاؤں،انہی لوگوں کے
دم پرملک میں خوشحال تبدیلی لاؤں گا اورفرمایاکہ جب اوپرقیادت
ایماندارہوتونیچے سب ٹھیک ہوجاتاہے،یعنی بقول وزیراعظم پاکستان عمران خان
جب ملک میں مہنگائی بڑھے،ملک مقروض ہوتاجائے تب اوپرحکمران چورہوتاہے اورجب
ایمانداریعنی وہ خودجنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی صادق وامین
ڈکلیئرکیاہے ہوں تب خوشحال تبدیلی آتی ہے،ایماندار،صادق وامین ،نڈر،بے
باک،باصلاحیت حکمران بن جائیں جن کادعوہ ہوکہ وہ ملک کوریاست مدینہ کے
اصولوں پرچلائیں گے تب ملک مقروض نہیں ہوتا،تب ملک بھیک نہیں مانگتا،تب
ڈالرکی قیمت نہیں بڑھتی،تب پیٹرولیم مصنوعات مہنگی نہیں ہوتیں،تب ملک اپنے
پیروں پرکھڑاہوجاتاہے،قوم آج جس مشکل دورسے گزررہی ہے بتایاجاتاہے کہ اس کی
ذمہ دارگزشتہ حکومتیں ہیں جبکہ عوام کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ حکومت تو63روپے
لیٹرپیٹرول دے رہی تھی،گزشتہ حکومت کے دورمیں توڈالرسوروپے کے قریب
تھاتوجواب ملتاہے کہ گزشتہ حکومت نے ڈالرکی قیمت مصنوعی طریقے سے کنٹرول
کررکھی تھی،عوام کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ حکمران چور،ڈاکوتھے پھربھی مہنگائی
اس قدرتیزی سے نہیں بڑی اب جبکہ حکمران نیک،ایماندراورصادق وامین ہے
توپھرکیوں عوام کومہنگائی کے دلدل میں دھنسایاجارہاہے،گزشتہ حکمرانوں نے
عام عوام کے منہ سے نوالہ چھیناجبکہ دورحاضرکے حکمران پیٹ سے بھی نکالنے کی
کوشش کررہے ہیں،کپتان شائد یہ نہیں جانتاکہ فقط اچھی خبریں زندہ رہنے کیلئے
کافی نہیں،فقط سابق حکمرانوں کی گرفتاریاں عوام کے پیٹ نہیں بھرتیں،احتساب
کرنا،ٹیکس وصول کرناحکومت کی ذمہ داری ہے تومہنگائی کنٹرول
کرنا،صحت،تعلیم،سستے اورفوری انصاف جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی
حکومت کی ذمہ داری ہے،2008ء میں جب پیپلزپارٹی کو حکومت ملی تب عالمی منڈی
میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان تھا اس دور میں نرخ فی
لٹر 116 روپے تک پہنچ گئے ،عالمی مارکیٹ میں قیمت فی بیرل 150 ڈالر تک تھی،
پیپلزپارٹی کے دور کے بعد ن لیگ حکومت میں آئی تواس وقت عالمی سطح پر
پٹرولیم نرخوں میں کمی ہوتے ہوتے فی بیرل قیمت 35 ڈالر تک آگئی،ن لیگ کی
حکومت نے کافی حد تک عوام کو ریلیف دیا،فی لیٹرپیٹرول کی قیمت 65 روپے تک
ہوگئی جس میں ابھی مزید کمی کی گنجائش تھی پراُس وقت بھی حکومت وقت نے مزید
قیمت کم کرنے کی بجائے مختلف حیلوں، بہانوں سے اضافے کو معمول بنائے
رکھا،سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی پانامہ کیس میں نااہلی ہوئی تواُن کے
جاں نشین شاہدخاقان عباسی وزیراعظم منتخب ہوئے تب بھی پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافے پر اضافہ جاری رہا،ایک ماہ میں دودوبار بھی اضافہ
کیاگیا،ان دنوں تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی،تحریک انصاف پٹرولیم کے نرخوں
میں اضافے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی اوردعوے کرتی رہی کہ حکومت میں آکر
پٹرولیم پر نافذ تمام ٹیکس ختم کر دیگی،تحریک انصاف اپنے ہی وعدے اوردعوے
کے مطابق آج بھی اضافی ٹیکس ختم کردے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
خاطرخواہ کمی ممکن ہے ،عوام کہہ رہے ہیں کہ ایک سال گزرنے کے باوجود حکومت
کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات میں آئے روز اضافہ کرکے عوام پر زندگی تنگ کی
جارہی ہے۔،عوام کے خیرخواہ بن کرسیاست میں آنے والے عمران خان اقتدار میں
آئے تو عوام کو مہنگائی کے خاتمے اور زندگی میں آسانیوں کی امیدہونے لگی،
عمران خان کی حکومت آتے ہی پٹرولیم کے نرخوں میں اضافے کی سمری بھجوائی گئی
جسے وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وہ عوام پر بوجھ نہیں
ڈالنا چاہتے، اگلے ماہ کمی کرکے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کی پرافسوس کہ
اسکے بعد عوام پر بوجھ ڈالنے کا احساس جاتا رہا اور پٹرولیم مصنوعات میں
آئے روز اضافہ در اضافہ کرکے عوام کی امیدوں کے چراغ بجھا دئیے۔سو دن میں
کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرنے والے عمران خان کووزیراعظم پاکستان بنے ایک
سال گزرچکا پر کرپشن ختم تودورکی بات ہے کم تک نہیں ہوئی اورمہنگائی کایہ
عالم ہے کہ پاکستان ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں
جولائی کے دوران مہنگائی کی شرح جو،جون کے مقابلے میں 2.29فیصد زیادہ ہے،
10.34فیصد تک جا پہنچی، رپورٹ میں تلف پذیر اشیا 8.6فیصد، غیر تلف پذیر
7.85فیصد،کپڑے جوتے 7.40بجلی گیس،پانی دیگر ایندھن 12.74، علاج معالجہ
8.97، ٹرانسپورٹ 14.67اور تعلیم کے شعبے میں مہنگائی میں اضافے کی شرح
6.91فیصد بتائی گئی ہے، سبزی، دالوں، بیکری اشیاء، چینی،آٹا، گوشت ،اشیاء
خوردونوش اور روزمرہ استعمال کی دیگر چیزوں کی قیمتوں میں اوسطاً 10سے
60فیصد تک ہونے والے اضافے نے عوام کا جینامشکل سے ناممکن کے قریب کردیا
ہے،ادارہ شماریات کی رپورٹ میں ذخیرہ اندوزوں،ناجائزمنافع خوروں کی جانب سے
کی جانے والی مزید مصنوعی مہنگائی کاذکرنہیں کیاگیایعنی حکومتی
عدادوشماراوربازاروں کی صورتحال بالکل مختلف ہے،حکومت نے جس چیزپرایک فیصد
ٹیکس عائد کیاعوام سے اسی چیزپرسوفیصدزیادہ قیمت وصول کی جارہی ہے جسے
کنٹرول کرنابھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے پرعوام اب کس سے گلہ کریں،کس سے
حال دل بیان کریں کہ اُن کاخیرخواہ مہنگائی کامخالف لیڈڑتوماضی کی حکومتوں
میں ہی کہیں گم ہوگیا-
|