سینٹ میں اگرچہ حکومت جیت گئی مگردیکھا جائے تواخلاقی
طورپرحکومت ہارگئی ہے نئے پاکستان میں بھی الیکشن جیتنے کے لیے وہی پرانے
طریقے اپنائے گئے جوماضی میں ہوتارہاہے چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتمادکی
ناکامی نے گزشتہ سال ہونے والے الیکشن میں دھاندلی پرایک اورمہرلگادی ہے
،یہ اپوزیشن کی شکست نہیں بلکہ فتح ہے کہ جس نے ان کے بیانیے کودرست ثابت
کیاہے ۔گزشتہ الیکشن میں بھی عوام نے اپنی جماعت کے امیدواروں کوووٹ
دیامگرنتیجہ وہی نکلا جوچیئرمین سینٹ کے خلا ف عدم اعتمادکی تحریک پر
ہوا،ایک سال قبل ہونے والے عام الیکشن میں بھی عوام کی اکثریت موجودہ
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تھی مگررات کی تاریکی میں کامیاب کسی
اورکوکروایاگیا ،اس باردن دیہاڑے یہ منظرساری قوم نے دیکھا کہ کس طرح
64کو50میں تبدیل کیاگیا اورکس طرح 36کو45میں بدلاگیا ۔
حکومت کی طرف سے یہ کہاجارہاہے کہ جن اپوزیشن ارکان نے انہیں ووٹ دیاانہوں
نے ضمیرکے مطابق ووٹ دیاہے مگریہ کیساضمیرہے جوصرف ووٹ دیتے وقت جاگا
اورپھرسوگیا اگرواقعی ضمیرجاگاہے توپھرپتہ بھی چلناچاہیے کہ کس
کاضمیرجاگاہے ان سینیٹرزکوبتانابھی چاہیے کہ ہماراضمیرجاگ گیاہے ہم نے
پارٹی پالیسی کے خلاف اس وجہ سے ووٹ دیاہے مگروہ نہیں بتائیں گے کیوں کہ یہ
ضمیرکافیصلہ نہیں بلکہ ضمیرکاسوداتھا-
سوال یہ ہے کہ ان کے ضمیرکاسوداکس نے کیا ؟موجودہ حکومت کے بس میں تونہیں
کیوں کہ جوپارٹی عوامی طاقت کے ذریعے الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے
اورچوردروازے سے اقتدارمیں آئے وہ ایسے سودے کیسے کرسکتی ہے ؟جوحکومت قومی
اسمبلی اورسینٹ اجلاسوں میں کورم پورانہیں کرسکتی ،جس کے وزاراء اورممبران
اسمبلی دونوں ایوانوں کی کاروائی میں شرکت کوگناہ سمجھتے ہیں جووزیراعظم
قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کواپنی توہین سمجھتاہے وہ ضمیرکے فیصلے کیسے
کرواسکتی ہے ؟جس حکومت کی ایک سالہ کارکردگی صرف بیان بازی ،شوروغل کے
سواکچھ نہ ہو،جوحکومت بیرون ملک سے مانگ تانگ کرگزارہ کررہی ہواس میں ایسی
ہمت اورطاقت کہاں کہ وہ ضمیروں کوخریدسکے ؟جس حکومت کاسپیکراپنے ارکان
کاپروڈکشن آرڈرجاری کرنے سے کتراتاہووہ حکومت کیسے ضمیروں کوجگاسکتی ہے ؟جس
حکومت کی اپنی کوئی اخلاقی پوزیشن نہ ہووہ کیسے اخلاقی فتح حاصل کرسکتی ہے
؟حکومت نے ایساکون ساکارنامہ سرانجام دیاہے کہ جس کی وجہ سے سینٹ میں
اپوزیشن ارکان کے ضمیرجاگ گئے ؟اورووٹ ڈالنے کے بعد وہ ضمیراچانک پھرسے
سوگئے ؟صادق سنجرانی کی ایسی کرشماتی شخصیت نہیں کہ جس کی وجہ سے اپوزیشن
ارکان متاثرہوں اورہو ضمیرکے مطابق فیصلہ کرنے پرمجبورہوں ؟
چلومان لیا کہ اپوزیشن کے 14سینیٹرزکے ضمیرجاگ گئے تھے اورانہوں نے حکومت
کوبتایابھی ہوگا کہ ہمارے ضمیرجاگ گئے ہیں اگرایسی بات ہے توپھرتوحکومت
کوخوشی سے بتاناچاہیے کہ فلاں فلاں باضمیرشخص نے انہیں ووٹ دیاہے حکومت ان
سینیٹرکی فہرست قوم کے سامنے لائے کہ ساری اپوزیشن میں صرف یہ 14باضمیرہیں
باقی سب چورڈاکواوربے ضمیرہیں ،مگرحکومت یہ نہیں کرسکتی البتہ یہ حکومت
ہرایساگناہ قبول کرے گی جواس نے کیاہی نہیں ،کیوں کہ یہ حکومت اپنے پاؤں
پرنہیں کھڑی ہے بیساکھیوں کے سہارے چلنے والی حکومت کوپتہ ہے کہ جس دن
بیساکھی ذراسی پھسلی یہ دھڑام سے گرجائے گی اس دن حکومتی صفوں سے لوگوں کے
ضمیرجاگناشروع ہوجائیں گے ۔حکمران جانتے ہیں ان کی صفوں میں سب سے زیادہ
باضمیرشامل ہیں جن کے ضمیرہرپانچ سال بعد جاگتے ہیں اوروہ نئی جماعت میں
ضمیرکی قیمت لگانے کوتیاربیٹھے ہیں ۔
جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کی بات ہے توانہیں بھی اپنی منجی تلے ڈانگ
پھیرناہوگی اپنی صفوں میں سے ایسی کالی بھیڑوں کونکالناہوگاجووقت آنے
پردغادے جاتے ہیں۔ نظریاتی کارکنوں کی بجائے جب سرمایہ داروں اورچھتری
برداروں کونوازجائے گا توپھرضمیروں کے سودے اسی طرح ہوتے رہیں گے یہ عجیب
ضمیروں کے سوداگرہیں کہ جواپوزیشن کی دعوتوں میں بھی شریک ہوئے ،سینٹ میں
چیئرمین کے خلاف عدم اعتمادکی قراردادکے موقع پربھی اپنی وفاؤں کایقین
دلاتے ہیں مگرجب ووٹ دینے کاموقع آتاہے توحکومت کوبھی ناراض نہیں کرتے
۔پھرجب عدم اعتمادکی ناکامی کے بعداپوزیشن جماعتوں کااجلاس ہوتاہے تویہ
14باضمیروہاں بھی موجود ہوتے ہیں ۔اوراپوزیشن جماعتیں ان باضمیروں کوتلاش
کرنے کے لیے کمیٹیاں بنارہی ہیں اوریہ اس اقدام میں بھی ان کی ہمنواہیں ۔
ضمیروں کی سوداگری جماعتی بنیادپرہوئی یاانفرادی سطح پرہوئی اس نے اپوزیشن
اتحادکوشدیدنقصان پہنچایاہے آل پارٹیزکانفرنس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے
25جولائی کوبھرپورطریقے سے یوم سیاہ بنایااپوزیشن ایک سال کے وقفے کے
بعدپورے ملک میں بڑی تعدادمیں عوام کوسڑکوں پرلانے میں کامیاب ہوئی مگرسینٹ
الیکشن میں 14باضمیروں کی وجہ سے اس اتحادکے غبارے سے ہوانکال دی ہے ۔کس نے
کس کودھوکہ دیایہ سب کوپتہ ہے اگرنہیں بھی پتہ توآہستہ آہستہ یہ سب کھل
کرسامنے آجائے گا ۔ایک طے شدہ منصوبے کے تحت سوشل میڈیاپرصادق سنجرانی
کوووٹ دینے والے سینیٹرزکی جعلی فہرست وائرل کی گئی تاکہ اصل ملزمان تک نہ
پہنچاجاسکے ۔
جماعت اسلامی کے دوسینٹرزکابھی ضمیرجاگ گیا اورانہوں نے اس سارے عمل
کابائیکاٹ کرکے اپنی ڈیوٹی سرانجام دی حالانکہ یہ ضمیراس وقت بیدارنہیں
ہوئے جب جماعت اسلامی کاایک سینیٹرمنتخب ہورہاتھا مگرانہی جماعتوں کی حمایت
سے دوسراسینیٹربھی منتخب کروایاگیا اس وقت ضمیرکاگلادبادیاگیاتھا جماعت
اسلامی کی طرف سے عجیب توجیح بیان کی جارہی ہے کہ ہم اس گندمیں شریک نہیں
ہوئے اس کامطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کوبھی پتہ تھا کہ سینیٹرزکی منڈی لگی
ہوئی تھی جماعت اسلامی پرلازم ہے کہ وہ سچ سامنے لائے مگرجماعت اسلامی میں
بھی یہ ہمت نہیں وہ سچ سامنے لاسکے ۔
اپوزیشن کے پاس اب کوئی راستہ نہیں گزشتہ سال ان کی کمین گاہ پرحملہ
کیاگیاتھا امسال ان کی صفوں پرنقب لگائی گئی ہے اگراپوزیشن جماعتوں نے اپنی
روش نہ بدلی توپھرایک زوردارحملہ ان کوتتربترکردے گا مولانافضل الرحمن
گزشتہ ایک سال سے احتجاج پرہیں ان کی کوشش تھی اورہے کہ اپوزیشن متحدہوجائے
مگرچندلوگوں کی سوداگری نے انہیں بھی مایوس کیاہے اب بھی اپوزیشن کے پاس
وقت ہے کہ وہ واپس پلٹ آئے مولانافضل الرحمن کاراستہ ہی نجات کاراستہ ہے
اسی میں اپوزیشن کی کامیابی ہے ۔صادق سنجرانی کی ناکامی حکومت کی ناکامی
نہیں تھی بلکہ ہم پرمسلط کیے گئے اس سسٹم کی ناکامی تھی جوباضمیرسوداگروں
کی وجہ سے ناکام ہوئی ہے ۔اپوزیشن جماعتوں کے اتحادمیں دراڑیں کسی اورکے
لیے خود ان کے لیے نقصان دہ ہیں اس کاخمیازہ قوم کوبھگتناپڑے گا آج حکومت
کی پالیسیوں کی وجہ سے قوم کاہرطبقہ پریشان ہے تاجرزپھرہڑتال پرجارہے ہیں
،بزنس مین کومسائل کاسامناہے ایسے میں اگراپوزیشن جماعتیں اپناکردارادانہیں
کرتیں توتاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی ۔
اگرآصف علی زرداری یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوئی ریلیف مل جائے گاتویہ ان کی
بھیانک غلطی ہے انہیں بالآخرسیاست سے دستبردارہوناپڑے گا اگروہ جعلی
اورغیراخلاقی طریقے سے بلاول زرداری کی راہ ہموارکرناچاہتے ہیں تویہ ان کی
نوجوان بلاول کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے ،سینٹ الیکشن سے ایک رات
قبل آصف علی زرداری سے بزنس ٹائیکون کی ملاقات بہت سے سوالات جنم دے رہی ہے
اسی طرف مسلم لیگ(ن)کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
اخباری اطلاع ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے معاملے پر پوری پیپلزپارٹی نے فیصلہ
کیا تھا۔خواجہ آصف نے پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کی جانب سے استعفے جمع کرانے
کو ڈرامے بازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب ڈرامے بازی کے سوا کچھ نہیں،
سیاستدان استعفے جمع کرانے کی ڈرامے بازی کرتے رہتے ہیں جیسے دھرنے کے
دوران پی ٹی آئی نے استعفے دیے لیکن انہوں نے واپس لے لیے، اب پتہ تب چلے
گا جب پی پی کے سینیٹرز اپنے استعفے سینیٹ میں جمع کرائیں گے۔خواجہ آصف کا
مزید کہنا تھا کہ آصف زرداری پر انویسٹمنٹ ان کی غلطی تھی، پی پی اور
(ن)لیگ میں اعتماد کا فقدان برقرار ہے اور دونوں جماعتوں کے اعتماد میں
مزید دراڑیں پڑیں گی۔
|