پیپلز پارٹی جو اب تک تمام تر
حقائق واضح ہونے کے باوجود خود کو عدالتی آزادی اور اداروں کی آئینی حدود
کی دعویدار رہی ہے چیئرمین نیب کی برطرفی کے فیصلے کے بعد کی صورت حال یہ
ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ صاحبان اقتدار ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ،
دکھانے کے اور کے مقولے پر عمل پیرا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اپیل پر سپریم کورٹ
کی جانب سے چیئرمین نیب جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کی تقرری کو کالعدم قرار
دینے کے خلاف کراچی سمیت سندھ بھر میں ہڑتال کی گئی، اس موقع پر سڑکوں پر
ٹریفک کم اور تجارتی مراکز بند رہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں پر تشدد
واقعات کے دوران کم از کم 12افراد جاں بحق اور درجن سے زائد زخمی ہوگئے
جبکہ عام شہریوں کی 18 گاڑیاں بھی نذر آتش کر کے راکھ کا ڈھیر بنادی گئیں۔
دوسری جانب سندھ اسمبلی میں چودھری نثار کی طرف سے دیدار شاہ کی تقرری کو
سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کی گئی۔ قرارداد
میں کہا گیا کہ چودھری نثار کی دائر کردہ پٹیشن جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔
قرار داد میں جسٹس (ر) دیدار حسین شاہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا
اور کہا گیا کہ قرار داد کو پوری اسمبلی متفقہ طور پر منظور کرتی ہے۔ ایوان
میں پیپلزپارٹی کے تمام ارکان سیاہ پٹیاں باندھ کر آئے۔ اسمبلی کے اجلاس کے
بعد ارکان سندھ اسمبلی نے سندھ ہائی کورٹ تک احتجاجی مارچ کیا۔ مارچ کی
قیادت صوبائی وزیر داخلہ اور پیپلزپارٹی سندھ کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر
ذوالفقار مرزا کر رہے تھے۔ موصوف کا سندھ اسمبلی میں اپنے بیان میں کہنا
تھا کہ پنجابی ججوں نے ایک سندھی ریٹائرڈ جج کو عہدے سے ہٹا دیا،حالانکہ
سپریم کورٹ کے جس تین رکنی بنچ نے مذکورہ فیصلہ سنایا اس میں شامل دو فاضل
ججوں کا تعلق بلوچستان سے ہے اور یہی صورتحال عدلیہ کی آزادی کے نعروں کی
قلعی کھول رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سید دیدار حسین شاہ کو صدر آصف علی زرداری نے
اکتوبر 2010ءمیں نیب کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ ان کی تقرری کے 6 دن بعد ہی
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار نے نئے چیئرمین نیب کی تقرری
کو چیلنج کردیا تھا، موصوف حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ
سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ دیدار شاہ
کی تقرری سیاسی بنیاد پر کی گئی اور وہ ایک جانبدار شخص تھے جبکہ احتساب کے
لیے کوئی غیر جانبدار شخص ہونا چاہیے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر آصف علی
زرداری خود نیب کے زیر تفتیش ہیں اور انہیں مقدمات کا سامنا ہے۔ اگر وہ
اپنی تفتیش کے لیے اپنی مرضی کا چیئرمین مقرر کریں گے تو کیا عدالت عظمیٰ
کو اتنا حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اس تقرر کو غیر آئینی اور کالعدم قرار
دیدے۔
پیپلزپارٹی ماضی میں اپوزیشن جماعت کے طور پر بھی احتجاج اورہڑتالیں کراتی
رہی ہے لیکن وہ عموماً پر امن رہی ہیں۔ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ
ہڑتال کی کال کے ساتھ ہی کراچی، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں درجنوں
موٹرسائیکل سوار انتہائی منظم انداز میں سڑکوں پر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے
نکلے، گاڑیاں نذر آتش کیں اور دکانداروں کے دھمکیاں بھی دیں۔ عدالتی فیصلے
کے خلاف کی جانے والی ہڑتال سے جہاں پیپلز پارٹی کے قول وفعل میں تضاد
سامنے آگیا ہے وہیں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ وفاقی حکومت حقیقی احتساب سے
خوفزدہ ہے۔ فیصلے پر تلملانے والی حکومت یہ بھی بھول گئی ہے کہ چیئرمین نیب
کی تقرری کے وقت بھی وکلاء برادری اور سول سوسائٹی نے اپنا بھرپور احتجاج
ریکارڈ کرایا تھا۔ اگر حکومت اسی وقت اپنے فیصلے سے دستبردار ہوجاتی تو
صورتحال یہاں تک پہنچتی اور نہ ہی اتنی بدنامی پیپلزپارٹی کے حصے میں آتی۔
لیکن حکمران جماعت کے پالیسی سازوں کو کون سمجھائے کہ ان کی باڈی لینگوئج
اور ”کارنامے“ اداروں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خود
اپنی ہی جماعت اور حکومت کے لیے مشکلات بھی پیدا کر رہے ہیں جن سے نبرد
آزما ہونے کے لیے پارٹی قیادت کو گھسے پٹے بیانات اور اعلانات کا سہارا
لینا پڑ رہا ہے۔
ایک طرف تو کھلم کھلا طبل جنگ بجایا جارہا ہے اس پر مستزاد وزیراعظم گیلانی
کا ”عدلیہ ہماری دوست ہے اور اس سے کوئی ٹکراؤ نہیں۔“ کا بیان ہے جو عین
ایسے وقت میں سامنے آیا جب پیپلزپارٹی کے جیالے سپریم کورٹ کے فیصلے کے
خلاف ”یوم احتجاج“ منا رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم اور ان کی
حکومت اپنے قول میں اتنی ہی سچی اور عدلیہ سے مخلص ہے تو پھر اسی عدلیہ کے
فیصلے کے خلاف سڑکوں پر آنا، جلاؤ گھیراؤ کاروبار بند کروانا پریشان حال
عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ پھر حکومتی
رہنما عدالت عظمیٰ کے ہر فیصلے پر سیاست کیوں چمکا رہے ہیں؟ سچی، کھری اور
دو ٹوک بات یہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران آئینی اداروں سے تصادم کے ذریعے اپنی
ناکامی چھپاکر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔حکومت کا یہ اقدام عوام کو وسیع
پیمانے پر لاقانونیت اور بدامنی کی ترغیب دینے کے مترادف ہے۔ عدالتی فیصلے
سے اختلاف کا حق ہر ایک کو حاصل ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے ہی
دور اقتدار میں انوکھی مثال قائم کرتے ہوئے عدلیہ کے خلاف سڑکوں پر نکلنے
کی کال دی جائے۔ حکومت سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل بھی دائر کرسکتی
تھی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد…. افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ مضحکہ خیز رویہ
اور غیر معقول حکمت عملی حکومت نے اختیار کی اور عدالت عظمیٰ سے تصادم کی
راہ پر چلنے کو ترجیح دے کر خود ہی غیر آئینی قوتوں کو مستحکم و مضبوط کرنے
کا موقع دیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا جیسے پیپلزپارٹی ”عدالتی شہید“ بننے کے لیے احتجاجی سیاست
پر اتر آئی ہے تاکہ مظلوم بن کر عوامی عدالت میں پیش ہوکر ہمدردیاں سمیٹی
جاسکیں اور آئندہ انتخابات میں شکست سے بچا جاسکے۔ پیپلزپارٹی نے ہڑتال کے
ذریعے ایک بار پھر ”سندھ کارڈ“ کا استعمال کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو بھی
پیغام دیا ہے کہ اگر اسے حکومت کو بے دخل کیا گیا تو اس کے رد عمل میں سندھ
میں یہ کچھ ہوسکتا ہے۔ صرف سندھ کی حد تک ہڑتال نے واضح کردیا ہے کہ پارٹی
رہنما صوبائیت اور لسانیت کو فروغ دے کر ڈانوڈول ہوتا اقتدار قائم رکھنے کے
لیے منفی ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ کے فیصلے کو
پنجابی ججوں کا اقدام کہنے والوں سے یہ ہی ہمارا سوال ہے کہ بے نظیر بھٹو
کو انصاف سے محروم رکھنے والے سابق چیف جسٹس سجاد شاہ کا تعلق بھی اسی سندھ
سے تھا تو کیا پی پی رہنما اور ذمہ داران اسے بھی سندھ کے ساتھ زیادتی کے
مترادف قرار دیں گے؟ اگر سندھ کے خلاف تعصب برتا جارہا ہے تو بتایا جائے
جسٹس (ر) بھگوان داس کو بھی اسی حکومت نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں تعینات
کیا ہے اور ان کا تعلق بھی سندھ سے ہے اس پر کسی نے کوئی اعتراض کیوں نہیں
کیا؟ اب تمام تر قومی حلقوں کو عدلیہ کی موجودہ آزادی کے رحجان کو ملک کے
وسیع تر مفاد میں قبول کرنا ہی ہوگا اور حکمرانوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں
کے رہنماؤں کو زبانی جمع خرچ کی بجائے عدالتی فیصلوں پر سو فیصد عملدرآمد
یقینی بنانے کے لیے اقدام کرنا ہوں گے۔ آخر میں پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی
جماعتوں سے یہ سوال! کہ کیا ملک کی دگرگوں ہوتی صورتحال اس بات کا تقاضا
نہیں کرتی کہ آئینی اداروں سے تصادم کی راہ پر چلنے کی بجائے مفاہمت کی فضا
کو فروغ دیا جائے اور کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ٹکراؤ کی سیاست سے گریز
کرتے ہوئے مل بیٹھ کر پریشان حال قوم کے مسائل کا حل نکالا جائے؟؟ |