پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان
کا امریکہ کا ترجیحی دورہ ہو یا پھر ایوب دور میں صدر ایوب خان کا دورہء
امریکہ اور فقید المثال استقبال ہو۔ سیٹو، سینٹو کے معائدے ہوں یا پھرسابق
سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے میں امریکہ کی مدد کرنا ہو۔ حالیہ ماضی قریب میں
نان نیٹو اتحادی کا درجہ پانا، کولیشن اسپورٹ فنڈ کے تحت ملنے والے ڈالرز
ہوں یا پھر یہی فنڈ بند کر دینے کی بری خبر ہو۔ پاکستان اور امریکہ کے
تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں ۔ امریکہ کے سپلائی
روٹ کی بندش سے پاکستان نے کسی حد تک اپنا نقطہ ء نظر بیان کر دیا تھا تو
ڈونلڈ ٹرمپ نے امداد کی بندش سے واضح پیغام دے دیا تھا کہ حالات پہلے جیسے
نہیں رہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم پاکستان کا دورہء رامریکہ مختلف حوالوں
سے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ اس دورے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ عسکری
قیادت بھی وزیر اعظم پاکستان کے ہمراہ تھی۔ خبروں میں بظاہر وزیر اعظم
چھائے رہے لیکن یارانِ واقفِ حال جانتے ہیں کہ عسکری قیادت چھٹیاں گزارنے
نہیں گئی تھی بلکہ حقیقتاً وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے پس
منظر میں اہم امور پہ مصروف رہے ہوں گے۔ امریکہ اپنی فوج افغانستان سے
نکالنے کے چکر میں ہے۔ ٹرمپانہ بڑھکیں اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار
ممکن نہیں ہے افغانستان امریکہ کے لیے دوسرا ویتنام ثابت ہونا شروع ہو گیا
ہے۔ حکومت کابل تک محدود ہے ۔ اور جن کو کل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے آج
ان کے ساتھ میز پہ بیٹھ کے گفت و شنید کرنا مجبوری بن چکا ہے۔
ڈومور کی گردان اب تک امریکی فیصلہ سازوں نے پاکستان پہ تھوپے رکھی ہے۔ اور
توقعات و امیدیں یہی تھیں کہ عمران خان یقینی طور پر پاکستان کا مقدمہ بہتر
انداز میں لڑیں گے(اور پہلے دورے کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو عمران خان
کا پہلا دورہ اتنا برا بھی نہیں رہا)۔ عمران خان کا لب و لہجہ ہمیشہ سے
غلامی نہ کرنے کے حوالے سے واضح سمت اپنائے رہا ہے۔ امریکہ کے حوالے سے بھی
ان کی سمت واضح تھی۔ اور توقع یہی تھی کہ وہ واضح نقطہ نظر اپنائیں گے۔ ان
کا دورئے کے مثبت پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے پاکستانی وزیر
اعظم کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حیران کن طور پر اپنی
روایات سے ہٹ کے پاکستان کے حوالے سے سے نرم لہجہ اپنائے رکھا، اور قہقے
بھی لگائے، پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر قہقے لگا کے بات کرئے تو ویسے
ہی دل میں خوش گمانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بہرحال سب اچھا رہا کہ نہ صرف لب
و لہجہ مناسب رہا بلکہ تحکمانہ انداز بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ افغانستان
میں کھلا راز ہے کہ پاکستان کے رول سے انکار نہ ممکن ہے نہ پاکستان کو نظر
انداز کر کے افغانستان میں امریکہ دودھ و شہد کی نہریں جاری کر سکتا ہے۔
پاکستان لازم ہے افغان تنازعے کے حل کے لیے۔یہ یقینی طور پر مثبت نقاط ہیں
۔
یہاں تنقید برائے تنقید مقصد نہیں بلکہ تصویر کے دونوں رخ دکھانا مقصود ہیں
کہ چند قہقوں کی وجہ سے لمبی امیدیں باندھ لینا کسی بھی صورت ہوشمندانہ
رویہ نہیں ہو گا۔ امریکہ نے پاکستان کو ہر موقع پر پہلی ترجیح نہیں رکھا۔
لہذا ہمیں تھوڑا محتاط رہنا ہو گا۔ کشمیر کے حوالے سے بیان تو خوش آئند ہے۔
لیکن کیا بھارت کی منشاء کے بغیر امریکہ کچھ کر سکتا ہے یا یہ صرف کاغذی
بیان ہی ہے۔پاکستان کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے لیکن یوٹرن لینا ٹرمپ کے لیے
بھی مشکل کام نہیں۔ دوسری جانب عافیہ صدیقی کے حوالے سے امریکی حکام نے
یقینی طور پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہو گا اس لیے یہ معاملہ کھل کے ڈسکس
نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان قیدیوں کے تبادلے کی صورت عافیہ کی رہائی ممکن بنوا
سکتا ہے۔ اور کس قیدی کا تبادلہ کیا جانا مناسب ہے یہ سوچا جا سکتا ہے۔
عافیہ صدیقی کا معاملہ پس منظر میں رہا۔ جس کی امید نہیں تھی۔ افغانستان کے
حوالے سے پاکستان کے کردار پہ تو بحث کی گئی لیکن اس پورے معاملے میں بھارت
کے ساتھ کیامعاملات کس نہج پہ ہوں گے یہ غیر یقینی رکھا گیا ۔ بھارت
افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ دونوں ایسے ممالک کے مفادات کا تحفظ
کیسے ہو گا جن کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ اپنی جگہ ایک سوال
برقرار ہے۔ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے اور امریکی صدر نے جس انداز سے عمران
خان کی موجودگی میں ایران کو برا بھلا کہا وہ خطے میں پاکستان کے کردار کو
مشکل بنانے کا سبب بن سکتا ہے۔ دونوں راہنماؤں کی موجودگی میں چینی موبائل
کمپنی کا معاملہ زیر بحث آیا جس سے چین براہ راست جڑا ہے اور ہمارے چین سے
تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پیسوں کے معاملے پہ جس طرح ٹرمپ نے پاکستان
کو مخاطب کیا وہ اپنی جگہ ایک افسوس ناک پہلو ہے۔ عافیہ صدیقی کا معاملہ،
کشمیر میں جاری جارحیت، بلوچستان میں مسائل، اندرون پاکستان دہشت گردی،
افغان سرحد پہ مسائل تمام چیزیں پس منظر میں رہیں، جنہیں سامنے آنا چاہیے
تھا۔
امریکی صدر کا لب و لہجہ قہقے لگاتا ہوا ضرور تھا لیکن وہ واقعی پاکستان کی
مدد کے متقاضی ہیں افغانستان میں یا محض ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا
چاہتے ہیں، اس حوالے سے بہرحال ہمیں لمبی امیدیں باندھنے کے بجائے صبر سے
کام لینا ہو گا۔ اس دورے سے کیا حاصل ہوا کیا نہیں وقت آنے پہ معلوم ہو
جائے گا۔ لیکن ہمیں اس دورے سے ساٹھ کی دہائی کا تاثر دینے سے خود کو روکنا
ہو گا کہ ہم دوبارہ سے امریکی بلاک میں جا بیٹھے ہیں۔ خدا خدا کر کے ہم نے
اپنا آزاد کردار منوانا شروع کیا ہے اسی کو جاری رکھنا اہم ہے۔
|