یہ دن تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا جب آمریکہ کا
دارالحکومت واشنگٹن پاکستان زندہ باداور عمران خان زندہ باد کے نعروں سے
گونج رہا تھا۔اورجب وہ سٹیج پر آئے توسارا سٹیڈیم نعروں سے گونج اٹھا اور
یہ نعرے وائٹ ہاوس کی دیواروں کو لرزانے کے لئے کافی تھی۔ان نعراں نے ثابت
کر دیا کہ بیرون ملک پاکستانی اپنی پیارے ملک اور اپنے ملک کے اس نئے لیڈر
سے کتنی محبت کرتے ہیں۔تبھی تو تقریبا تین منٹ تک خان صاحب ان کو خاموش
کرانے میں مصروف رہے۔اور میں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلا لیڈ ر دیکھا جس
نے واشنگٹن کی سر زمین پر کھلے عام اتنے بڑے مجمے کے سامنے بڑی خوبصورتی
اور نایابی کے ساتھ ریاست مدینہ کی مثالیں پیش کی۔ ایک ایسا لیڈر جو سر جکا
کرپرچیاں پڑھ پڑھ کر نہیں سناتا بلکہ لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات
کرتا ہے۔ جو سٹوڈنٹس کے سامنے ایک موٹی ویشنل سپیکر ہے جو تاریخ دانوں کے
سامنے ایک تاریخ دان ہے جس نے ریاست مدینہ کی مثالیں دیں کر اور اپنی تقریر
میں قرآن و حدیث کا حوالہ دے کر ایک سچا مسلمان ہونے کی وضاحت کی ۔پاکستان
کا وہ لیڈرجسکا انتظار دنیا کا سب سے طاقت ور شخص وائٹ ہاوس کے دروازے پر
کر رہا تھا۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تو تھا کہ میں اپنے ساتھ بہت ساری
پرچیاں لے کر آیا ہوں لیکن صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ڈھونڈنے والے
ڈھونڈتے رہ گئے لیکن کیسی کو کوئی پرچی یا ٹرانسلیٹر نہ ملا۔انہوں نے جو
باتیں کی دل سے کی اور اگر میں کہوں کہ انہوں نے پاکستانی عوام کے دل کی
ترجمانی کی تو بجا نہ ہو گاکونکہ پاکستانی عوام کے دل کی ترجمانی صرف ایک
سچا پاکستانی ہی کر سکتا ہے ۔ جس لباس اور تسبیح کو امریکہ نے دہشت گردی سے
جوڑ دیا تھا اسی تسبیح کو ہاتھ میں لئے اور اسی لباس کے ساتھ جا کر فخر
پاکستان عمران خان نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دہشتگردی کا لباس نہیں بلکہ امن
اور محبت کا لباس ہے۔دوسری جانب اس ملاقات نے بہت سے لوگوں کے ارادوں پھر
پانی پھیر دیا۔اگر کھل کر بات کی جائے تو انڈیا کو بڑا زور کا دھچکا لگا ہے
کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ امریکہ کے اور ہمارے تعلقات بہت مضبوط ہے اور
انڈیا امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کو بلکل جدا کر دے گا اس کو ختم کر دے
گالیکن اس ملاقات کے بعدانڈیا کے سابق سفارتکار ایم کے بدرا کمار اپنے
آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار بہت اہم
ہے۔اور اس پورے خطے میں پاکستان کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔اب سب سے اہم بات
یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ
وہ اس وقت سپر پاور ہے اوردوسری طرف ہمیں اپنے لیڈر کو مکمل سپورٹ کرنا
چاہئے ۔ایک لیڈر وہ تھا جس نے سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگایا ان کو ایک راہ
دکھائی اور سمجھایا کہ تم لوگوں نے اس راہ پر جانا ہے ۔اور جیسے ہی مسلمان
اس راستے پر چلنا شروع ہوئے ان کی اپنی زندگی کی راہ ختم ہوئی اور منزلیں
مقصود پر پہنچ گئے۔اس کے بعد پاکستان کو کوئی ایسا لیڈر نہ مل سکا جو اس کی
راہنمائی کرتا۔پھر خان صاحب آئے اور انہوں نے مسلمانوں کو ان کی منزل بتائی
اور سمجھایا کہ تم لوگوں نے یہاں تک پہنچنا ہے۔اور مجھے پورا یقین ہے کہ
عمران خان ہی اس ملک کو آگے لے جا سکتا ہے کیونکہ آج حکومت اور فوج ایک پیج
پر ہے۔سب کا ایک نظریہ ہے اور جب نظریہ ایک ہوتا ہے تو وہ نظریہ ایک قوم کی
شکل میں ابھرتا ہے۔اور اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے تو ہمیں اسلامی تعلیمات پر
عمل کر کے آگے بڑھنا ہوگااور مدینہ کی فلاحی ریاست بنانے میں اپنے لیڈر کی
مدد کرنی ہوگی۔
|