عالم اسلام کے تاریخی اسلامی شہروں کا مساجد کی تفصیل اور
تذکرے کے بعد تعارف ادھورا ہوگا۔ ایسے ہی مکہ معظمہ کا تذکرہ بھی مساجد کے
تعارف کے بغیر نا مکمل ہے۔ شہر مکہ میں مسجد حرام کے علاوہ کئی تاریخی
مساجد شہرکی اسلامی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں سے بعض مساجد کا براہ
راست ربط نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
|
|
انہی تاریخی مساجد میں ایک منیٰ کے مقام پر 'مسجد بیعت' ہے۔ یہ مسجد اسلام
کی پہلی بیعت کی زندہ علامت ہے۔ یہ مسجد اگرچہ نئے خطوط پر تیار کی گئی ہے
مگر اسلامی تاریخ کی ایک عظیم یادگارکے طور پر آج بھی اپنی آفاقی اہمیت
رکھتی ہے۔
'مسجد بیعۃ' جمرہ عقبہ کبریٰ سے 500 میٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ ایک ایسا مصلیٰ
ہے جو اوپر سے کھلی اور چھت کے بغیر ہے۔ ایک محراب، شمال میں منیٰ کی طرف
ایک بڑا صحن، جنوب میں جبل ثبیر اور الانصار گھاٹی واقع ہیں۔
مسجد میں پتھر کی دو سلیں نصب ہیں۔ ایک پتھر پر 'امر عبداللہ امیر المومنین
اکرمہ اللہ ببنیان ھذا المسجد' کی عبارت کندہ ہے۔ اس عبارت سے عباسی خلیفہ
کی طرف اشارہ ہے۔ شامی اور یمانی اطراف میں 23 ہاتھ لمبی اور ساڑھے چودہ
ہاتھ چوڑی دو گیلریاں ہیں۔ ان پر تین گنبد ہیں اور دو دروازے ہیں۔ محراب سے
مسجد کے دوسرے کونے تک 23 ہاتھ کا فاصلہ ہے۔
مسجد کی تعمیر
تاریخ مکہ مرکز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فواز الدھاس نے 'العربیہ ڈاٹ نیٹ' سے بات
کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد البیعۃ الانصار گھاٹی میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ وہ
مقام ہے جہاں انصار مدینہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر
بیعت کی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب
بھی موجود تھے۔ اس جگہ پر عباس خلیفہ ابو جعفر المنصور نے مسجد تعمیر کی۔
یہ مسجد 144ھ میں مکمل ہوئی۔ بعض تاریخی مصادر اور ماخذ سے پتا چلتا ہے کہ
عباس خلیفہ المستنصر باللہ نے 629ھ کو اس کی دوبارہ مرمت کی تھی۔
سعودی مورخ کا کہنا ہے کہ آپ علیہ السلام عرب قبائل کو دین حق کی دعوت دینے
اکثر بڑے بازاروں میں جاتے۔ سرزمین حجاز میں اس وقت حج کے موسم میں عکاظ کا
میلا لگتا، اس کے علاوہ مجنہ، ذی المجاز، عرفہ اور منیٰ میں بھی ایسے بازار
لگائے جاتے۔ آپ ان میلوں میں جاتے۔ ایک ایک گھر اور ایک فرد تک پہنچتے اور
پکار پکار کرفرماتے کہ' اے فلاں ابن فلاں میں اللہ کا رسول ہوں۔ مجھے اللہ
نے تمہارے لیے مبعوث کیا ہے۔ مجھے حکم ہے کہ میں تمہیں اللہ کی عبادت کی
طرف بلائوں، شرک سے روکوں۔ لہٰذا تم مجھ پرایمان لائو، میری تصدیق کرو، اگر
میں بعثت کے حوالے سے اللہ کے احکامات سے روگردانی کروں تو مجھے روکو'۔
|
|
ایک سوال کے جواب میں الدھاس نے کہا کہ یثرب کے قبائل کو اللہ کے رسول کے
دعوت حق پیش کی۔ یہودیوں کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے یہ قبائل سچے دین کی دعوت
کو مانتے گئے۔ یہ قبائل یہودیوں سے اکثر یہ سنا کرتے کہ تورات کے پیروکار
ایک نبی کے مبعوث ہونے کی پیشن گوئی کرتے۔ اسی طرح اوس اور خزرج قبائل کے
درمیان پائی جانے والی عداوت اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے میں
یہودیوں کے کردار نے قبائل کو آخری نبی صلی اللہ وعلیہ وسلم کی دعوت پر
لبیک کہنے کا موقع فراہم کیا۔
مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل قبائل کی طرف سے آپ کے پاس مشاورتی وفود بھیجے
گئے۔ ان وفود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین اسلام کے بارے میں معلومات
حاصل کیں۔ پھر اپنے قبائل کو دین حق کے بارے میں بتایا۔ بعثت نبوی کے 11
ویں برس جزیرۃ العرب میں اسلام اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چرچے
عام ہوگئے تھے۔ اوس اور خزرج کے قبائل کے 12 نمائندہ افراد نے منیٰ کے مقام
پر آپ علیہ السلام سے ملاقات کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام کو بیعت الانصار یا
انصار کی گھاٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے جبل الرخم اور جبل الحکمت
کے نام بھی دیے جاتے ہیں۔
|
|
بشکریہ: (العربیہ ڈاٹ نیٹ ۔ حامد القرشی) |