باسم تعالی
نعیم صدیقی
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نہایت عیاری اور مکاری کے ساتھ اسرائیل کے
نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں سازشیں شروع کر دی ہیں۔عالمی قانین
اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی
خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔جس کے بعد ساری دنیا میں بالخصوص پاکستان میں
بھارت کے اس سیاہ اقدام کے بعد حکومتی سطح پر اور عوام میں شدید ترین
تشویش،غم و غصہ اور نفرت پائی جاتی ہے جس کا رد عمل سخت ترین جواب کی صورت
بھی ہو سکتا ہے۔بھارت کے تعصب پسند نسل پرست اور ہندوتوا کے پیروکار حکمران
مودی نے یہ انتہائی اقدام کر کے کشمیر کی جلتی وادی میں نفرت کا ایسا بیج
بونے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ ایک خطرناک جنگ کی صورت میں سامنے آسکتا
ہے۔اگر دیکھا جائے تو نریندر مودی جیسے انتہا پسند کا وزیراعظم بننا ہی اس
بات کی علامت تھی کی یہ شخص عالمی امن کو داؤ پر لگانے سے بازنہیں آئے گا ۔پہلے
ہی بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ کشمیر میں تعینات نہتے کشمیریوں
پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور جدوجہد آزادی کو بندوق اور بارود کے زور پر
دبانے کی کوشش جاری ہے ابھی حال ہی میں بھارت نے اپنے ظالمانہ اقدامات کو
زبردستی نافز کرنے کے لیے مزید آٹھ ہزار مسلح فوجی دستے جموں کشمیر میں
اتار دیے ہیں اس سے پہلے بیس ہزار سے زائد مسلح فوجی بھیجے جا چکے
تھے۔بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر اور لداخ کو الگ کر کے وہاں گورنر کا
عہدہ ختم کردیا ہے۔ ان علاقوں کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔تمام
اختیارات کونسل آف منسٹرز کو تفویض کر دیے گئے ہیں۔اس اقدام کے نتیجے میں
اب مقبوضہ کشمیر میں غیر مقامی افراد نوکریاں حاصل کر سکیں گے۔بھارت کے
آئین کی دفعہ 370 میں ان سیاہ اقدامات سے قبل اور بعد کی صورتحال اس طرح ہو
گئی ہے کہ پہلے خصوصی اختیارات کے تحت جموں کشمیر کے عوام کو دوہری شہریت
کا حق حاصل تھا۔جموں کشمیر کا اپنا پرچم،ہندو اور سکھ اقلیتوں کا کوئی کوٹہ
نہیں،ایمرجنسی نافذ نہیں ہو سکتی ،،قانون ساز اسمبلی کا عرصہ چھ برس ہے،اگر
جموں کشمیر کی خاتون باہر شادی کرتی ہے تو وہ اپنی شہریت سے محروم ہو جاتی
ہے،جموں کشمیر میں پنجائیتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں۔ اس کے برخلاف اب یہ
سارے قانین ختم کر کے بھارتی متعصب حکومت نے اسمبلی کا دورانیہ پانچ سال کر
دیا ہے۔تمام خصوصی اختیارات ختم،شہریت صرف ایک کر دی گئی ہے۔آئین کی دفعہ
-370 اور 35 A کوختم کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں اب کسی بھی وقت مالیاتی
ایمرجنسی لگائی جا سکتی ہے۔مقبوضہ وادی میں اب اقلیتوں کو سولہ فیصد کوٹہ
دیا گیا ہے۔جس سے مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل کی حیثیت ختم کر دی گئی
ہے۔کشمیر کے اپنے پرچم کی بجائے اب بھارت کا ترنگا پرچم ہوگا۔اگر کوئی
کشمیری عورت باہر کہیں شادی کرتی ہے تو اس کی بھارتی شہریت برقرار رہے
گی۔بھارت کی دوسری ریاستوں کی طرح اب یہاں کی پنجائیتوں کو بھی وہی حقوق
حاصل ہوں۔بھارت کی جانب سے آئین کو یکسر بدل دینا اس بات کی علامت ہے کہ
بھارت نے ظلم و جبر اور عالمی غنڈہ گردی کی آخری حدود کو پار کر لیا ہے۔اس
وقت پاکستان میں سرکاری اور عوامی سطح پر شدید ترین رد عمل دیکھا جا رہا
ہے۔ہمارے کشمیر کے لوگ دونوں جانب اور ساری دنیا میں بھارت کے اس بدترین
اور انسانی حقوق کے خلاف زبردستی کے اقدامات پر سراپائے احتجاج بنے ہوئے
ہیں۔مقبوضہ وادی میں پہلے ہی بھارتی ظلم و جبر اپنی انتہاؤں کو چھورہا
ہے۔بچے،بوڑھے جوان اور خواتین کو شدید ترین ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا
ہے۔جیلوں کو جوانوں سے بھر دیا گیا ہے کہ کوئی احتجاج کرنے والا اور آزادی
کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔ساری حریت قیادت۔سید علی گیلانی،میر واعظ عمر
فاروق،یاسین ملک کے علاوہ تمام اہم رہنماؤں کو نظربند کردیا گیا ہے یا
جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو بھارت کی پسندیدہ کٹھ
پتلی قیادت ہے۔جن میں فاروق عبداﷲ اور م،حموبہ مفتی شامل ہیں۔ان کی جانب سے
بھی بھارتی اقدامات کو مسترد کیا گیا ہے۔جس کے بعد تمام کٹھ پتلی قیادت بھی
نظر بند کر دی گئی ہے۔ اس وقت مقبوضہ وادی میں بھارت کا ظلم اور جبر اپنی
انتہا پر ہے۔اس کے خلاف آواز اٹھانے والے جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں یا نظر
بند کر دیے گئے۔ اگر عوام میں سے ہیں تو ان پر بھارتی درندہ صفت فوج گولیاں
برسا رہی ہے اور ان کی حق خود ارادیت کی آواز کو خاموش کرایا جا رہا
ہے۔بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اس لیے یکطرفہ
اقدام سے اس کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔بھارت نت اقوام متحدہ کی
قرار دادون اور شملہ معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔بھارت آئین میں
ترمیم کے بعد یہ پروپ]یگنڈہ کرے گا کہ اب کشمیر کی متنازعہ حیثیت ختم ہو
گئی ہے۔پاکستان کے پاس بھارت کے غیر قانونی اور عالمی قوانین کے خلاف
اقدامات کو روکنے کے لیے تمام عالمی فورمز موجود ہیں۔اس لیے پاکستان کو
بھارتی اقدامات کے خلاف تمام بین الاقوامی فورمز پر اس مسئلے کو پوری شدت
کے ساتھ اٹھانا ہوگا۔بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ طاقت کے زور پر قانین
بدلے ہیں اس کے نتیجے میں کشمیری عوام کی رائے کو نہیں بدلا جا سکتا۔حق خود
ارادیت مقبوضہ کشمیر کے عوام کا بنیادی حق ہے۔طاقت اور جبر کے ذریعے من
مانے اور غیر خلاقی فیصلے کیے جا سکتے ہیں لیکن انسانیت کے اعلی اصول اور
ضابطے ہمیشہ قائم ودائم رہتے ہوئے عمل پسندوں کے منتظررہتے ہیں۔بھارتی
اقدامات کے نتیجے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ پانچ اگست کا دن بھارت کی
تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔جس کے خلاف آزادی اور انسانی حقوق کے علمبرادر
ہمیشہ سراپائے احتجاج رہیں گے۔
|