ہجومی تشدد ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ

آج ہمارا ملک ہندوستان جن ناگفتہ بہ حالات سے گذررہاہے وہ نہایت ہی مایوس کن اور حیرت انگیز ہیں ، آزادی کے بعد سے لے کر آج تک ایسے حیرت انگیز مصائب سے کبھی دوچار نہیں ہوا تھا ، لیکن جب سے ملک پر کچھ ایسی شرپسند تنظیمیں قابض ہوگئی ہیں جنہیں کام سے زیادہ نام کی فکر ہے ،جو قولاََسب کاساتھ سب کاوِکاس کانعرہ بڑے زور وشورسے دیتی ہیں، لیکن عملاََ ملک کی سالمیت اور آپسی بھائی چارہ نیز اتحاد واتفاق کے شیرازہ کو منتشر کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں ۔ جب کہ اہل ہند اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارا ملک ایک جمہوری وسیکولر ملک ہے ۔یہاں ہر قوم وملت کے افراد رہتے اور بستے ہیں ،ہرمذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب و دھرم پر عمل کرنےاور تہوار وخوشی منانے کامکمل اختیار حاصل ہے نیز کسی مذہب کو ماننے یا منوانے پر کسی کے ساتھ زور زبردستی بالکل ناجائزو نامناسب ہے ،خصوصا مذہب اسلام تو ا س کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

چونکہ دین اسلام ایک آفاقی ،فطری اور ہمہ گیر مذہب ہے اس کے تمام اصول وقوانین آفاقی اور ہر خاص وعام کے لیے عام ہیں،یہی وجہ ہےکہ یہ دین ہر فرد بشر چاہے مرد ہوں یا عورت ،بچے ہوں یا بوڑھے ،مسلم ہوں یا غیر مسلم یہاں تک کی جانوروں اور چرند وپرند کے ساتھ بھی حسن سلو ک کی تعلیم دیتاہے اور ایک شخص کو ناحق جان سے مار دینے کی صورت میں پوری انسانیت کا قتل اورایک جانور کو بھوکا رکھنے اور جان سے مار دینے کی صورت میں جہنم کی وعید سناتاہے ۔ اس میںکالے گورے،امیر غریب ،مردوخواتین اور عربی وعجمی کے درمیان کوئی امتیاز نہیںبلکہ سب کےساتھ یکساں سلوک وبرتائو کیاجاتاہے۔چوری ،ڈاکہ زنی ،بے ایمانی ،زناکاری،فحاشی،شراب نوشی کی سزا میںکوئی تفریق نہیں،ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کیاجاتاہے ۔اسی طرح اس دین کی یہ خاصیت ہے کہ یہ جنگ کا میدا ن ہو یا عام حالت کسی پر ظلم وزیادتی،بدتمیزی وبدسلوکی کو قطعا برداشت نہیں کرتا ،امیر غریب ،فقیر قلاش ، مردعورت ،عربی وعجمی غرض ہر ایک کے جان ومال کے ساتھ ان کی عزت وآبروکی حفاظت کی ضمانت دیتاہے اورناحق قتل وخونریزی ،جنگ وجدال اور فتنہ وفساد برپا کرنے والوں کے متعلق سخت سے سخت سزا متعین کرتاہے کہ ایسے ظالموں کو جان سے ماردیاجائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دیئے جائیں، تاکہ ملک وسماج میں امن وامان قائم رہے، ملک کی سالمیت برقرار رہے اور امیر وغریب ،مردوخواتین عزت و احترام کے ساتھ پرسکون زندگی بسر کریں اور ہندومسلم ،سکھ عیسائی سب بھائی بھائی بن کر ایک پاکیزہ ومہذب زندگی گذار سکیں۔

لیکن افسوس کہ آج کے اس پرفتن وپرآشوب دور میں وطن عزیز کی پاکیزہ وپر امن فضاکو کچھ ناہنجار وشرپسند افراد مسموم کرنے کی ناپاک سازشیں کررہے ہیں ،وہ ملک جو صدیوں سے سونے کی چڑیا کہاجاتاتھا آج وہ قتل وخونریزی ،جنگ وجدال ،ہجومی تشدد کا مرکز بناہواہے ۔وہ ملک جہاں ہندومسلم، سکھ عیسائی صدیوں سے شیر وشکر ہوکر ایک مہذب اور پاکیزہ زندگی بسر کررہے تھے وہیں آج کچھ نا م نہاد دیش بھکت وگئو رکشک ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ گئو رکشک کے نام پر انہوں نےاقلیتوں خصوصا مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیاہے جب کہ صدیوں سے اس ملک کی عزت وآبروکی حفاظت کرنے والے ،ملک کی آزادی کی خاطر اپنے جان ومال کی قربانی پیش کرنے والے مسلمان نعوذ باللہ انہیں آتنک واد اور دہشت گرد نظر آرہے ہیں ۔ جو ان کی غلیظ فکر کا ترجمان اور گندی سوچ کا نتیجہ ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ سوتیلا سلو ک اور ان کی خدمات جلیلہ کوفراموش کرکے اپنے آپ کو دیش بھکت اور سچا ہندوستانی کہاجائے کہاں کا انصاف ہے ۔جب کہ یہ ظالم اور انصاف کے دشمن اسی دیش بھکتی کی آڑ میں ملک وملت کے ان تمام قوانین وفرامین کو بالائے طاق رکھ کر وہ کارنامے انجام دیتے ہیں جس سے انسانیت شرمسارہوجاتی ہے ۔ چنانچہ آج ا نھیں وجوہات واسباب کی بنیادپر ملک کے حالات اتنے ابتر ہوگئے ہیں کہ تنہا اور کھلے عام مسلمانوں کا جینا اور سفر کرنا مشکل ہوگیا ہے ،کبھی مساجد ومدارس میں زیر تعلیم طلبہ واساتذہ ،مساجد کے ائمہ وموذنین کو تشدد کانشانہ بنایا جاتاہے تو کبھی گاڑیوں اورٹرینوں میں سفرکرنے والے باریش سفراءاور بائک پر سوار مسافروں سے ان کے نام ،آدھار کارڈاور ڈرائیونگ لائسنس چیک کرکے ہجومی تشددکا نشانہ بنایاجارہاہےاور اب تو میڈیا کے لوگ بھی تشد د سے محفوظ نہیں رہےچنانچہ ابھی حال ہی میں میرٹھ کے ایک صحافی شاہ ویز خان کو اس کا نام وپتہ معلوم کرکے اسے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایاگیا ۔اسے بے تحاشہ پیٹا گیا اور اس کے بائک کو نیچے کھائی میں ڈھکیل دیاگیا غرض یہ کوئی یکا دوکا واقعہ نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیاجائے بلکہ آج یومیہ ایسے حالات پیش آتے ہی رہتے ہیں،قدم قدم پرمسلمانوں کے مذہب اورعزت وآبروسے کھلواڑ کیاجاتاہے ،لیکن حکومت ہے کہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ، انھیں طرح طرح سےستا کراور ٹارچر کرکے شرکیہ جملے ’’ جے شری رام ‘‘اور’’ وندے ماترم ‘‘جیسے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔جب کہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ایسے گھنائونے افعال ملک عزیز کے لیے نئے نہیں ہیں اس سے پہلے بھی ایسے حالات پیش آئے ہیں ،لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حالیہ دنوں تقریبا پانچ چھ سالوں سے ہجومی تشدد(ماب لنچنگ)کے ایسے ظالمانہ وگھنائونا واقعات بکثرت ہوئے ہیں جسے سن اور پڑھ کر کلیجہ دہل جاتاہے ۔

آج آپ ذراملک کے حالات کا جائزہ لیجئے اور حکومت کی جانبدارانہ پالیسی پر غور کیجئے کہ ایک آدمی بڑے جانورکا کاروبار کررہاہے یا گوشت لے جارہاہے اسے پکڑ کر ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جائے ،جب کہ آج تو ملک کے حالا ت اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ مساجدکےائمہ ودعاۃ بھی مامون ومحفوظ نہیں رہے ،ابھی ۱۵؍جولائی ۲۰۱۷؁ءکے روزنامہ راشٹریہ سہاراکی خبرہے کہ اترپردیش کے باغپت ضلع میں ماب لنچنگ کا ایک سنسی خیز معاملہ سامنے آیا ہے کہ قصبہ بڑھانہ سے ۵؍کلومیٹر دور موضع جولانہ کے رہنے والے( جو ضلع میرٹھ کے قصبہ سردھنہ میں صابری مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں)مفتی املاک الرحمٰن بن محمد یامین گھر لوٹ رہے تھے تو راستے میں چند نوجوانوں نے مبینہ طور سے حملہ کرکےان کے ساتھ بدتمیزی وبدسلوکی کی ،ان سے شرکیہ نعرہ لگانےپرمجبورکیا ،انکار کی صورت میں ان کی ریش مبارک کو نوچا،مارپیٹ اور گالی گلوچ بکے ۔اسی طرح جے شری رام کے نام پر مارپیٹ کی یہ وبا اترپردیش وہریانہ سے ہوتے ہوئے مغربی بنگال تک پہنچ گئی ،مرشدآباد ضلع کے ساگر دیگمی پولیس اسٹیشن علاقے میں ۱۱؍سالہ مدرسہ کے طالب علم رجب علی کو چند افراد نے جے شری رام کا نعرہ نہ لگانے پر جم کر پٹائی کی ،جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگیا اور اسے اسپتال میں داخل کیاگیا جس کی حالت نازک بتائی جارہی ہے ۔ غرض اس طرح کے بے شمار واقعات یومیہ اخبارا ت کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ جس پر برسراقتدار پارٹی ہوش کے ناخن لینے کے بجائے ایسے ظالموں اور شرپسند عناصرکے ساتھ کوئی کاروائی نہیں کررہی ہے ۔ جو کہ ملک کی سالمیت اور اتحاد واتفاق کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔ جب کہ ملک کا ہر شہری اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ملک کےاصول وقوانین کی پابندی ہمارا اولین فریضہ ہے اور ملک کے قانون ودستو رمیں یہ بات درج ہے کہ ظلم کا مقابلہ کرنے اور ظالم سے بدلہ لینے کا حق ہر فرد کوہے اور دین اسلام نے بھی اپنےمدافعت کا پوراپورا حق دیاہے ۔ جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ :’’ اگر کسی مسلمان کے جان ومال ،عزت وآبرو پر حملہ ہوتاہے اور وہ حملہ آور سے مقابلہ کرتے ہوئے جان سے ماردیاجاتاہےتو شہید اور زندہ بچتاہے تو غازی کہلاتاہے ‘‘۔

لیکن ہم ان نازک حالات میں ایوان حکومت سے نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ اس بات کی اپیل اور امید کرتے ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہو کر ملک کی سالمیت و حفاظت کے لیے جلد از جلد کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھائیں ۔ اور ان شر پسند عناصر کوسلاخوں کے پیچھے ڈالیںجو اس مذموم حرکت کو انجام دیتے یا اس کی پشت پناہی کرتے ہیں تاکہ ملک کا ہر شہری سکھ کی دو روٹی کھا کر امن وسکون کی زندگی بسر کرسکیں اور تمام مذاہب ومسالک کے لوگ شیر وشکر اور بھائی بھائی بن کر ایک پاکیزہ ومہذب زندگی گذارسکیں ۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ،خوشی اور کامیابی وکامرانی ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔ آمین !

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 133936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.