مسئلہ کشمیر پر جنیوا سنجیدہ رد عمل دے!

جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35-A کو ختم کرنے کے ساتھ ہی صدر کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلہ پر جہاں اپوزیشن کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ، وہیں لیڈروں کی اکثریت نے اس فیصلے کی زبردست مخالفت کی ہے۔ لوک سبھا الیکشن مہم کے دوران ہی بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار پر واپس آئے تو جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا اور شاید انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک کی ترقی کیلئے ہر ایک کو یکساں ساتھ لے کر چلیں گے۔ بھارت کے معاملے میں یہ بات مکمل طور پر صحیح کہی جا سکتی ہے کہ انتخابات اور سیاسی ساکھ بچانے کیلئے جذباتی موضوعات کو استعمال کیا جاتا ہے ۔جذباتی موضوعات کے سامنے حقیقی موضوعات بونے پڑ جاتے ہیں ۔ بجلی ، سڑک ، مہنگائی، بے روزگاری ، تعلیم ، صحت ، انفرا سٹرکچر ، عصمت دری، کسانوں کی خود کشی یہ سارے معاملات پر جذباتی موضوعات اکثر بھاری پڑتے دکھائی دئیے ہیں۔ہسپتالوں میں آکسیجن گیس نہیں ملنے سے سینکڑوں بچے مر جاتے ہیں اس کے با وجود بھی بر سر اقتدار پارٹی پولنگ بوتھ پر فتحیاب ہوجاتی ہیں، نوٹ منسوخی سے پورے بھارت کی عوام ایک کرب سے گزرتی ہے اس کے باوجود بھی ووٹوں کی گنتی اسی کے حق میں جاتی ہے۔ بے روزگاری اپنے تمام ریکارڈ توڑ دیتی ہے پھر بھی انتخابات میں جذباتی موضوع ہی غالب آتے ہیں ۔شاید یہ عنصر بر صغیر کے خون میں شامل ہے۔ 2019 کے پارلیمانی عام انتخابات میں بھی یہی جذباتی موضوعات چھائے رہے ، اگر بالا کوٹ کا واقعہ نہیں ہوتا تو شاید نتائج کچھ اور ہوتے لیکن انتخابات سے محض دو مہینے قبل بالا کوٹ نے پورے الیکشن کی ہیٔت بدل ڈالی۔ گزشتہ چند سالوں سے بھارت میں جتنے بھی الیکشن ہو رہے ہیں ان میں زیادہ تر جذباتی موضوعات ہی چھائے رہے ہیں ۔ آرٹیکل 370 سے زیادہ جذباتی موضوع اور کون سا ہو سکتا ہے؟’’ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے‘‘ یہ بہت پرانا اور جذباتی نعرہ ہے۔مودی حکومت کا آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے نے ایک دفعہ پھر وطن پرستی، قوم پرستی کی ہوا پھیلا دی ہے اور آج ہندوستان کے مسلمان بھی اس پر شرمندہ ہیں کہ ہم نے اس وقت ہندو بنیے پر یقین کیسے کر لیا۔ حالانکہ ابو الکلام نے قائد اعظم کو جس طرح کا تاریخی جواب دیا تھا اس کے بعد مسلمانوں سے حب الوطنی کا لائسنس مانگنا دھوکہ اور سازش کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟۔موجودہ حالات سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ مودی نے ساری ڈور امیت شاہ کے ہاتھ دے دی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مودی نے راجناتھ کو وزیر داخلہ کے عہدہ سے ہٹا کر امیت شاہ کو یہ ذمہ داری دی ، کیونکہ پارٹی کے ایجنڈے میں شامل تھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد پارٹی کے لیڈروں کو کیا کیا کرنا ہے۔ پہلا کام پارٹی نے طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنا کر عوام کو پیغام دے دیا ہے کہ اب پارٹی جو چاہے گی وہی کرے گی ۔ دوسرا کام پارٹی نے کشمیر کے مسئلہ کو اپنے تئیں حل کرنے کی کوشش کی ہے ، اب اسے پاکستان سے کسی بھی طرح کی کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جموں و کشمیر مکمل طور پر ہندوستان کا حصہ بن گیا ہے ۔ جموں و کشمیر کے لیڈروں کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے جبکہ اس کی تیاری ایک دن قبل ہی اس وقت شروع کر دی گئی تھی جب سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عبداﷲ عمر کو ان کے گھروں میں بند کر دیا گیا تھا لیکن انتظامیہ نے اس بارے میں کہا تھا کہ یہ صرف حفاظتی اقدامات کے طور پر کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی ہندوستان ہے جہاں کئی سو سالوں تک مغلوں اور مسلم حکمرانوں نے راج کیا پھر ان کے جانے کے بعد انگریز آئے اور وہ کچھ دینے کے ساتھ بہت کچھ لے کر چلے گئے ۔ یہاں ایک معترض سوال یہ بھی ہے کہ جس طرح سے جموں و کشمیر میں حالات تبدیل کئے گئے ہیں اسی طرح ناگا لینڈ، میزورم ، ارونا چل پردیش، ہما چل پردیش ، سکم اور منی پور میں بھی ان کے خصوصی اختیارات ختم کیوں نہیں کئے گئے؟ ان ریاستوں میں ہندوستان کی کسی دوسری ریاست کا شہری نہ تو زمین خرید سکتا ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ ان ریاستوں میں داخلہ کیلئے انر پرمنٹ چاہئے جبکہ کشمیر میں کوئی بھی شہری آزادی کے ساتھ جا سکتا ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے ان ریاستوں کے بارے میں اب تک کیوں نہیں سوچا جا سکا؟اگر واقعی بھارتی حکومت ملک میں سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کرنا چاہتی ہے تو ان ریاستوں کو بھی ویسا ہی رنگ دے جو جموں و کشمیر کو دیا ہے۔ اس فیصلے کی مذمت کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے کی ہے ۔ اور بھارتی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے نہ صرف بھارت بلکہ خطے بھر کی ہوا کشیدہ ہو چکی ہے۔ عالمی امن پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں ، ثالثی کی پیشکش کرنے والے امریکی صدر کی زبان اس بارے گنگ ہو کر رہ گئی ہے، جو کہ امریکی حکومت پر پاکستان کا اعتبار کرنے کا شاخسانہ ہے۔بھارت سمیت دنیا بھر کے سیاسی و سماجی راہ نما بھارت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو فلسطین بن جانے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔اگر ہم ان ساری باتوں کا نتیجہ نکالیں تو بھارتی عوام کی شعوری زندگی اور بھارتی مسلمانوں کے اذہان پر پڑے غلامی کے جالے بخوبی نظر آتے ہیں ۔ نسلوں اور اقوام کی تنزلی اور مٹ جانے کے پیچھے یہی عناصر کارفرما ہوتے ہیں جو آج بھارتی سیاستدان بھارت میں پیدا کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے یہ اقدام نہ صرف پنڈت جواہر لعل نہرو کے اس اقوام متحدہ میں دئیے گئے عہد کے برعکس ہیں بلکہ جنیوا کنونشن کو بھی کھلا چیلنج دے رہے ہیں، جنیوا کو اس بارے سنجیدہ رد عمل دینا چاہئے۔ پاکستانی حکومت اگر قائد اعظم کو واقعی بانی پاکستان تسلیم کرتی ہے تو ان کے اس بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ’’ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ‘‘ کشمیر کا مسئلہ عالمی برادری میں اٹھائے، اگر بھارت نہیں سمجھتا تو اسے انسان بنانا بھی پاکستان کا حق ہے۔ جنگ نے ہمیشہ بہت ایم اور دیر پا فیصلے کئے ہیں ، اگر اس فیصلے کیلئے بھی جنگ ضروری ہوچکی ہے تو اﷲ کی مرضی سمجھ کر قبول کر لینی چاہئے۔اگر اقوام متحدہ امریکہ کی اور امریکہ اسرائیل کی لونڈیاں ہیں تو بے شک پاکستان اور مسلم ممالک اس سے علیحدہ ہو کر ایک نیا اتحاد تشکیل دیں۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166884 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More