کشمیر فلسطین نہیں

گذشتہ روز انڈین پارلیمنٹ نے آرٹیکل370 کے خاتمہ کے بعد یہ سوچنا اور سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ اب کشمیر کی آئینی اورجغرافیائی حیثیت وہ نہیں رہی جو اس سے قبل تھی۔370 آرٹیکل کے خاتمہ کے بعد چین،امریکہ،او آئی سی ،ترکی،ملائشیا ،سعودیہ اور اندرون بھارت حزب مخالف کے رد عمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہی آرٹیکل بھارت کے لئے گلے کی ہڈی بن جائے گا کہ جسے نگلنا اوراگلنا دونوں صورتوں میں نقصان نام نہاد سیکولر ہندوستان کا ہی ہوگا۔کم و بیش تیس ہزار مزید بھارتی فوج کی تعیناتی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو بنیا اب کشمیریوں کے عزائم سے خوف زدہ ہو چکا ہے۔ان کا خیال یہ ہے کہ سلگتے چناروں کو ہم نے جلا دیا ہے،کوہساروں کو سرکا دیا ہے،ندی نالوں اور آبشاروں کو کشمیریوں کے خون سے لہو رنگ کر دیا ہے،مگر یہ سب ان کی خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی طرف سے مزید فوجی کمک نے کشمیر میں سلگتے چناروں کوبہار عطا کر دی ہے ،پہاڑوں سے اٹھنے والے شعلے فلک بوس ہوتے جا رہے ہیں۔گویا جتنا اس مسئلہ کو دبانے کی کوشش کی جائے گی اتنا ہی یہ ابھر کر دنیا کے سامنے آئے گا۔

ایسے ہی ایک طبقہ اور حلقہ یہ تاثر دینے کی کوشش میں بھی مصروف ِ عمل ہے کہ انڈیا خطہ میں اسرائیل کا کردار ادا کرتے ہوئے کشمیر کو فلسطین بنانا چاہتا ہے،ایسے ہی خیالات کا اظہار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کے راہنما شہباز شریف نے بھی کیا ہے۔افسوس صد افسوس ایسے طبقہ فکر،حلقہ اور لیڈران پر جو مسئلہ کشمیر اور بھارت کو مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے ساتھ ملانے میں مماثلت تلاش کرنے اور انہیں ثابت کرنے کے در پے ہیں۔ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے اور ان کے علم میں اضافہ کے لئے عرض ہے کہ اسرائیل unilateral ہے،وہ ایک قوم ہے،ان کا آئین صرف ایک فقرہ پر مشتمل ہے کہ تورات ہمارا آئین ہے۔اسی آئین نے پورے یہودیوں کو ایک پرچم تلے جمع کر رکھا ہے۔سب سے الگ چیز یہ ہے کہ اسرائیل میں صعف یہودی آباد ہیں دیگر اقوام وہاں پر آباد ہے بھی نہیں اور یہودی ان کو ہونے بھی نہیں دیتے۔اب ذرا بھارت کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے کہ انڈیا میں اگرچہ اکثریتی آبادی ہندؤوں کی ہے تاہم اسی خطہ میں 16 کروڑ سکھ اور 22 کروڑ مسلمان بھی آباد ہیں۔سکھ اندرون خانہ بھارت کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتے خالصتان کی صورت میں علیحدگی کی تحریک چلائے ہوئے ہیں کیونکہ سکھوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کے بعد ان کی علیحدگی کی تحریک بھی زور پکڑتی جا رہی ہے،اسی طرح مسلمان بھی پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے ہیں،اس طرح انڈیا اور اسرائیل کو کبھی بھی ایک جیسا قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ دونوں ممالک کی ڈیموگرافی بالکل مختلف ہے۔کشمیر چونکہ مسلمان اکثریت ریاست ہے اس لئے وہاں پر ہندؤوں کی آبادکاری کسی طور بھی ممکن نہیں ہو سکتی،اگرچہ آرٹیکل370 اس بات کی طرف ایک کوشش ہے کہ ہندؤوں کو وہاں جائیداد کی خرید وفروخت کا حق حاصل ہو جائے تاکہ یہودیوں کی طرح فلسطین میں جائیداد خرید کر کے وہاں آبادکاری کو ممکن بنایا جا سکے مگر صورت حال یہاں اس لئے مختلف ہے کہ اسرائیل میں یہودی بھی بیت المقدس پر اپنا اتنا ہی حق جتاتے ہین جتنا کہ مسلمان کیونکہ ان کی مذہبی نسبت بھی مسلمانوں کی طرح بیت المقدس کے ساتھ ہے جبکہ بھارتی ہندؤوں کا کشمیر میں جائیداد خرید کر کے آباد ہونا اس لئے بھی ناممکن ہے کہ وہاں نہ تو ان کی کوئی مذہبی عبادت گاہ ہے اور نہ ہی کشمیری مسلمان انہیں اپنی جائیداد فروخت کرنے کو تیار ہوں گے،اس لئے یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ کشمیر کبھی فلسطین اور انڈیا کبھی اسرائیل نہیں بن سکتا۔علاوہ ازیں پاکستان نے کشمیر کا موقف اقوام متحدہ میں،سفارتی سطح پر اور او آئی سی میں اٹھا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔کچھ لوگ انڈیا اور پاکستان کی جبگ کا بھی عندیہ دے رہے ہیں تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ لداخ کے مسئلہ پر چین نے بھی بھارت کو کھلے عام کہہ دیا ہے کہ ہوش کے ناخن لے وگرنہ وہ خود ذمہ دار ہونگے۔جتنی بھی کشیدہ صورت حال ہو جائے تینوں مشترکہ سرحدی لائن رکھنے والے ممالک پاکستان ۔انڈیا اور چین ایٹمی پاور ہونے کی بنا پر اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ خطہ کو ایٹمی جنگ جھونک دیا جائے جو کسی طور بھی عقلمندانہ فیصلہ نہیں ہے اسی بات کا اشارہ پاکستان کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی دیا ہے کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو پھر ہم خون کے آخری قطرہ تک لڑیں گے،ایسی صورت میں ہم ٹیپو سلطان بننا پسند کریں گے نا کہ بہادر شاہ ظفر۔لہذا ایسے افراد اور اداروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کشمیر کبھی بھی فلسطین نہیں بن سکتا اور نہ بھارت کو اسرائیل بننے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
 

Murad Ali Shahid
About the Author: Murad Ali Shahid Read More Articles by Murad Ali Shahid: 100 Articles with 86090 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.