پاکستان کے وزیر اعظم کے دورہ امریکا نے بین القوامی
میڈیا کی سرخیوں میں جگہ بنادی۔ افغانستان ، بھارت سمیت دنیا بھر کی نظریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے وزیر اعظم پر جمی رہیں۔ جبکہ ملاقات
کے بعد ان کے بیانات کا بھی انتظار کیا جانے لگا۔ملاقات کے بعد پاکستان کے
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کو کامیاب قرار دیا گیا۔ پاکستان سمیت
دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے پاکستانیوں نے د ل کھول کر ان کے دورہ
امریکا کی پذیرائی کی۔ ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دو باتیں بین
القوامی سطح پر خبروں کی شہ سرخی بنیں جس کے بعد امریکی صد ر کو اپنے
بیانات پر سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ملاقات کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے
افغانستان کے معاملے پر پاکستان کے کردار کو سراہا جبکہ افغانستان میں 18
سالوں سے جاری افغان جنگ بھی ختم کرنے کی طرف اشارہ دیا جبکہ دوسر ی بڑی
بات مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کردار نبھانے کی پیش
کش کی جس پر بھارت کی جانب سے اس خبر کی سختی سے تردید کر دی گئی۔ اور
بھارت کے دفتر خارجہ نے بیانیے پر یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ مودی کی جانب
سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔
بہرحال پاکستان کے وزیر اعظم امریکہ کا کامیاب دورہ کرکے واپس آگئے۔ لیکن
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد مودی سرکار آپے سے باہر ہوگئی۔اور وزیر خارجہ کے
بیان کے بعد بھارت نے جولائی 2018 میں بھارتی 10 ہزار فوجی مقبوضہ کشمیر
میں تعینات کرنے کا عندیہ دے دیاجس کے بعد کشمیر کی وادی میں فوج تعینات
کردی گئی۔ جس کے کچھ دنوں بعد مزید دستے کشمیر پہنچا دئے گئے۔ اور کشمیر کے
حالات او رکشمیریوں کی زندگی تنگ کرنا شروع کردی گئی۔ جبکہ ان سے قبل
پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگوں کا باعث بننے والے اس متنازع خطے
میں دہلی حکومت نے کم از کم پانچ لاکھ فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں جبکہ
ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد ساڑھے چھ لاکھ کے قریب ہے جن میں پولیس
اہلکار اور نیم فوجی دستے بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد بھار ت کے مظالم کا
سلسلہ ختم نہ ہوا بلکہ حریت رہنماوں کو نظر بند کردیا۔ علاقے میں سرچ
آپریشن کے نام پر کئی نہتے کشمیری نوجوانوں کو ابدی نیند سلادیا۔ اور یہی
نہیں بلکہ علاقے سے سیاحوں کو بھی نقل مکانی کے احکامات جاری کردیے ۔جس کے
بعد سیاحوں اور غیر ملکی طلبا، یاتریوں نے کشمیر سے نقل مکانی شروع کردی۔
مقامی افراد کو خوراک ذخیرہ کرنے کا حکم دے دئے گئے۔ وادی میں شدید کرفیو
لگا دیا۔ لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا گیا، انٹرنیٹ، موبائل سروس بند
کردی گئی اور کشمیریوں کا دنیا بھر سے رابطہ منقطع کردیا گیا۔ لیکن بھارت
کا آرٹیکل 370 ختم کرنے کا خواب پورا ہوگیا اور بھارتی وزیر خارجہ نے لوک
سبھا میں آرٹیکل کی شق ختم کرنے کا اعلان کردیا اور اس طرح مقبوضہ کشمیر کی
مخصوص حیثیت ختم کردی گئی۔ جس کے بعد بھارتی ظلم کا نہ صرف پاکستان بلکہ
دنیا بھر کے رہنماوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی۔ جبکہ پاکستان نے عالمی سطح
پر اس معاملے کو اٹھانے کا مطالبہ کردیا۔ آ رٹیکل 370 کیا ہے اور اس کے
خاتمے کا کیا مطلب ہے؟آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق ہے
اور اس کو ختم کرنے کے لئے بھارتی انتہا پسند اور اسلام مخالف حکومت کب سے
پرتول رہی ہے۔ جس کے بعد آج اس کو ختم کردیا گیا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل
بھی راجیہ سبھا میں پیش کیا۔ بی جے پی کی حکومت کی جانب سے اس آرٹیکل کے
ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔اب ریاست
جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے بن جائیں گے جن میں سے
ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہو گا اور ان دونوں علاقوں کا
انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی
ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔امیت شاہ کے مطابق جموں و
کشمیر کو مرکز کے زیرِ انتظام علاقہ بنانے کا فیصلہ علاقے میں سکیورٹی کی
صورتحال اور مبینہ طور پر سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں
کیا گیا ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری
مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نا ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
آرٹیکل 370 کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدرِ مملکت
تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے
داخلہ امور وزیراعلیٰ کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ
جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔بھارتی میڈیا کے مطابق
بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے مذکورہ بل پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد اسے
قانون کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ اس آرٹیکل کے ختم کرنے سے برصغیر میں خطرناک
اثرات مرتب ہوں گے۔ جبکہ بھارت کی جانب سے اب مزید مظالم بڑھے گے۔ مسئلہ
کشمیر کے معاملے پرپاکستان کاکرداراہم ہے۔پاکستان کو اس معاملے پر اہم اور
کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کو چاہییے کہ وہ اس معاملے پر اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائے اور دنیا کے سامنے بھات کے
مظالم کو بے نقاب کرے اور جلد ازجلد اس معاملے کو حل کرنے پر زور دے۔ جبکہ
او آئی سی کو بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیئے اور اس معاملے
کا فوری اورتصفیہ طلب حل نکالے ورنہ اس کے دورس اثرات مرتب ہوں گے۔ جبکہ
دوسری طرف کشمیرکی موجودہ صورت حال کے بعد وزیراعظم کادورہ امریکامعنی
خیزلگنے لگاہے۔
|