قارئین کے سوالات (۲)

قارئین کے سوالات کے جوابات شامل کرنے سے پہلے میری حکومت اور تعلیم کے کرتا دھرتا حکام سے گزارش ہے کہ وہ سکولوں، کالجوں اور جامعات میں رہنمائی و مشاورت کی آسامیاں پیدا کریں تاکہ وہ طلباء و طالبات کی صحیح سمت رہنمائی فرمائیں۔ یوں ہمارے معاشرے کو مختلف شعبہ جات میں دل چسپی اور مہارت رکھنے والے افراد ملیں گے۔ فہد جان، چارسدہ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے میٹرک پاس کیا ہے۔ اَب میرا داخلہ کمپیوٹر سائنس ، شماریات اور معاشیات میں ہے۔ ایف ۔اے کے بعد کون سے مضامین لے سکتا ہوں؟ آپ نے بہت اچھے مضامین کا انتخاب کیا ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ اس گروپ کے مضامین کو آرٹس میں تصور کیا جاتا ہے۔ آج کل بی ایس (چار سالہ ) پروگرام شروع ہوچکے ہیں ۔ لہٰذا آپ معاشیات اور شماریات دونوں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔بی ایس کمپیوٹر سائنس میں داخلے کے اہل نہیں ہیں کیوں کہ آپ نے ریاضی کا مضمون نہیں پڑھا ہے۔اس کے علاوہ بی ایس انگلش ، اُردو ، پاکستان اسٹڈیز ، پولیٹیکل سائنس وغیرہ میں بھی داخلہ لے سکتے ہیں۔ محمد وقاص ، چارسدہ سے لکھتے ہیں کہ بچوں کو کتنی عمر میں سکول میں داخل کروانا چاہیے؟ نیز تعلیم کا اصل معنی کیا ہے ؟ حدیث پاک ؐ ہے کہ علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی لحد تک۔ یعنی ماں کی گود بچے کی اولین درس گاہ ہوتی ہے۔ اکثر ممالک میں بچوں کو سکول میں داخل کروانے کی عمر چھ سال رکھی گئی ہے۔ البتہ ایسے ممالک میں بچہ دو سال نرسری اور کے۔جی میں پڑھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تین سال کے بعد بچے کے دماغ کے اعصابیوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جاتا ہے اور اعصابیوں کا نیٹ ورک پھیلتا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی اُصول اپنایا گیا ہے۔ ہمارے ہاں اس کو کچی ، پکی ، پریپ ، نرسری اور کے۔جی وغیرہ کے نام دیئے جاتے ہیں۔ان اعصابیوں میں اضافے کے برعکس بچے کے لئے ماحول بھی ایک اہم عنصر ہوتا ہے جو کہ اُس کو گھر کے علاوہ سکول میں نہیں مل سکتا ہے۔ لہٰذا بچے کی تربیت گھر پر سکول کی نسبت اچھی ہو تی ہے۔لیکن بد قسمتی سے والدین اپنی مصروفیات کی بناء پر بچوں کو یہ ماحول نہیں دے پا سکتے ہیں لہٰذا اُن کو چھوٹی عمر میں سکول بھیج دیا جاتا ہے۔ آپ کے سوال کا دوسرا حصہ تعلیم سے متعلق ہے۔ تعلیم کسی فرد کی ہر پہلو سے سنوارنے کا نام ہے۔ خواہ وہ معاشرتی ہو یا معاشی ، جسمانی ہو یا ذہنی ، انفرادی ہو یا سماجی وغیرہ۔تعلیم مجموعہ ہے تدریس ، تربیت اور جائزے کا۔ ہم نے اپنی تعلیم سے تربیت کو نکال باہر کردیا ہے جو آج کے معاشرے کے بگاڑ کی اہم وجہ ہے۔ کہتے ہیں کہ تعلیم کی کمی کو تربیت اچھی طرح ڈھانپ لیتی ہے لیکن تربیت کی کمی کو تعلیم کبھی پورا نہیں کر سکتی ہے۔ اسی طرح کسی فرد کی پہچان علم سے نہیں بلکہ ادب سے ہوتی ہے کیوں کہ علم تو ابلیس کے پاس بھی تھا لیکن وہ ادب سے محروم تھا۔ اُمید ہے کہ آپ کی تسلی و تشفی ہو گئی ہو گی۔ نادیہ ، ہنگو سے پوچھتی ہیں کہ میں بی ایڈ کرنا چاہتی ہوں۔ اس میں داخلے کا کیا طریقہ کار ہے؟آپ نے اپنے سوال میں اپنی تعلیمی قابلیت کے بارے میں نہیں لکھا ہے۔ اگر آپ ایف۔اے ، ایف۔ایس۔سی یا مساوی قابلیت کی حامل ہیں تو بی۔ایڈ چار سال، بیچلر ہونے کی صورت میں بی۔ایڈ ڈھائی سال اور ماسٹر کی قابلیت پر ڈیڑھ سال میں ہوتا ہے۔ بی۔ ایڈ میں داخلہ ریگولر اورٖ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ٖفاصلاتی دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے۔یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ جس ادارے میں داخلہ لینا مقصود ہو ، اُس کے متعلق پوری معلومات حاصل کریں کہ اُس کا الحاق کس یونیورسٹی کے ساتھ ہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن اُن کی ڈگریوں کو تسلیم کرتا ہے۔ حال ہی میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے فاصلاتی تعلیم کے حوالے سے بہت سی پبلک اور پرائیویٹ جامعات اور اُن کے اسٹڈی سنٹروں پر پابندی عائد کی ہے۔ پشاور سے رئیس زادہ پوچھتے ہیں کہ بی ایس کامرس میں داخلے کے لئے کیا اہلیت ہے؟ بی ایس کامرس چار سالہ پروگرام ہے، یہ کامرس اور مینجمنٹ کالج صوبہ بھر میں کرواتے ہیں۔ اس کی اہلیت ایف اے ، ایف ایس سی ، ڈی کام یا مساوی قابلیت میں سیکنڈ ڈویژن ہے۔ موجودہ سال کے لئے بی ایس کامرس میں داخلے جاری ہیں۔ محمد رمضان ڈیرہ اسماعیل خان سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے بچوں کی لکھائی نہایت خراب ہے، اس کے لئے تجاویز بتا دیں ؟ اس کا سادہ سا حل ہے کہ آپ بچوں کو اُردو اور انگلش اخبارات دے دیا کریں اور اُن سے کہیں کہ وہ پنسل سے اخباری الفاظ پر پھیریں، یوں اُن کی لکھائی میں بہتری آجائے گی۔ اس کے علاوہ آپ اپنے بچوں کے لئے خوش خطی کے رجسٹر لے کر دے سکتے ہیں۔ اُس پر مشق کرنے سے لکھائی میں بہتری اور الفاظ میں یکسانیت آجائے گی۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 265605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.