مارکس لینے کی ریس
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی مارکس لینے کی ریس
یہ مسئلہ بڑا نازک بھی ہے اور گھمبیر بھی۔ نہ صرف طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مارکس حاصل کرے بلکہ والدین بھی اپنے بچوں پر پریشر ڈالتے ہیں کہ جیسے بھی ہو، پوزیشن لو اور اپنا مستقبل بناؤ۔ اساتذہ کرام بھی اپنے طلباء کو پڑھاتے وقت بہتر سے بہترین پوزیشن کی کوشش کرتے ہیں اور اخلاقیات پر بھی توجہ دیتے ہیں۔میڈیا ان پوزیشن ہولڈرز کو بھرپور کوریج دیتا ہے اور حکومت ایسے طلباء کو نقد انعامات، سرٹیفکیٹ اور تمغوں سے نوازتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کم مارکس لینے والے سٹوڈنٹس احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
والدین کی وجہ سیاب ماحول ایسا بن رہا ہے کہ جیسے زیادہ نمبر حاصل کرنا ہی سب کچھ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ "زیادہ مارکس لینا" واقعی تعلیم کا مقصد خاص ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ مارکس کا حصول یقینی طور پر کسی بھی تعلیمی سفر کا ایک حصہ تو ہے، کیونکہ یہ کارکردگی کی پیمائش کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن جب نمبر صرف برائے نمبر بن جائے اور انہیں مقصد بنالیا جائے تو تعلیم و تربیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بعض طلباء صرف رٹہ لگا کر امتحان پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ کہ علم کو سمجھنے، سیکھنے اور اپنے خیالات کو ترقی دینے کی۔ مگر عملی زندگی اور مشکلات کے لیے تیار نہیں ہوتے۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے تو زیادہ تر تعلیمی اداروں میں ایس ایل او بنیاد پر طلباء کو تعلیم دی جاتی ہے اور ان کے کردار سازی پر بھی توجہ دی جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے والدین کی لاپرواہی اور سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے طلباء اس جانب کم توجہ دیتے ہیں۔
یہ مقابلہ ذہنی دباؤ، تناؤ اور اکثر اوقات ذہنی بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ والدین کی جانب سے غیر منطقی توقعات، اور دوستوں کا دباؤ، اور معاشرتی معیار کے تقاضے مل کر بچوں کو پریشان کر دیتے ہیں۔ اس دوڑ میں بعض بچے تعلیم چھوڑنے یا دیگر منفی راستوں کی طرف جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ اس مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اس صورتحال کا حل تعلیم کے معیار کی بہتری میں مضمر ہے۔ ہم بچوں کو صرف امتحان کے لیے تیار نہ کریں بلکہ انہیں سمجھنے، تخلیقی سوچ پیدا کرنے، اور عملی مسائل حل کرنے کی تربیت بھی دینی چاہیے۔ تعلیمی اداروں کو ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے جہاں بچے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکیں۔
والدین کا کردار تو اس معاملے میں بہت کلیدی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف نمبر بنانے کی بجائے، ان کی ذہنی صحت، دلچسپی،کردار اور مجموعی شخصیت کی ترقی پر توجہ دیں۔ بچوں کو یہ سکھائیں کہ زندگی میں کامیابی صرف نمبر لینے میں نہیں بلکہ اچھے اخلاق، مہارتوں، اور محنت میں ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تعلیمی ادارے بھی نمبر کی ریس میں حصہ لیتے ہیں، کبھی کبھی طالب علموں پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف سیکھنے کی روح متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ طلباء بھی نقصان اٹھاتے ہیں جو محنت کرتے ہیں مگر نمبر حاصل نہیں کر پاتے۔
مزید یہ کہ، اس طرح کی ریس سے معاشرتی ناانصافی بھی بڑھتی ہے کیونکہ صرف بہتر مالی حیثیت رکھنے والے بچے اضافی کوچنگ اور سہولیات کے ذریعے بہتر نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جبکہ نادار بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس سے مناسب مواقع کی فراہمی کا تصور دور ہوتا جا رہا ہے۔
لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم تعلیمی نظام کو اس طرح بہتر بنائیں کہ نمبر کی دوڑ ختم ہو اور علم کی حقیقی قدر قائم ہو۔ بچوں کے لیے ایک معاون، سمجھدار، اور محبت بھرے ماحول میں تعلیم حاصل کرنا ممکن بنائیں جہاں وہ اپنی دلچسپیوں اور صلاحیتوں کے مطابق ترقی کر سکیں۔ ہمیں ایک طالب علم کو والدین کا فرمان بردار، قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے والا، ہمسائیوں،یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا انسان بنانا چاہیے۔ اسی طرح ایک فرض شناس اور مفید شہری بنانا تعلیم کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ زیادہ مارکس کے پیچھے دوڑنا ایک وقتی کامیابی کا باعث تو ہو سکتا ہے، مگر یہ زندگی کی حقیقی کامیابی نہیں۔ زندگی میں اچھی سوچ، اخلاق، محنت، اور لگن ہی اصل کامیابی کے ضامن ہیں۔ اسی لیے ہمیں اپنے تعلیمی رویے کو بدلنا ہوگا، اور بچوں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینی ہوگی تاکہ وہ نہ صرف اچھے طالب علم بنیں بلکہ اچھے انسان بھی بن سکیں۔ |
|