بچوں کو سکلز سکھائیں اور کامیاب بنائیں
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
بچوں کو سکلز سکھائیں اور کامیاب بنائیں تحریر: ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
بچوں کو سکلز سکھائیں اور کامیاب بنائیں
کون نہیں جانتا کہ یہ اکیسویں صدی کا دور ہے۔ دنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے۔ آ ج وہی نوجوان کامیاب ہے جس کے پاس کوئی سکل موجود ہو۔ یاد رکھیں عصر حاضر کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بچے کو کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کا موقع ملے اور اس سے یہ بھی معلوم ہو کہ وہ میٹرک کے بعد کس شعبے میں قدم رکھے اور اس کی دلچسپی کس فیلڈ میں زیادہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ اب رٹا سسٹم کی جگہ عملی اور ٹیکنیکل تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ بچے دسویں کلاس تک ٹیکنیکل مہارتیں حاصل کر سکیں۔ سیکنڈ ٹائم بچوں کو مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ ان میں عملی قابلیت بڑھے۔ اسی طرح بچوں کی عملی تربیت سے ان کی اہمیت بھی بڑھے گی۔
جدید دور کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے اپنے بچوں کو کمپیوٹر اور لیںپ ٹاپ کا استعمال سکھانا چاہیئے۔ پرنٹر کا استعمال سکھانا چاہیئے۔ اسی طرح کمپیوٹر کا لازمی فنکشنز اسے انے چائیے۔
بچوں کو گھر کے ڈسپنسر بننے کی تربیت بھی دی جائے جو آج کے وقت کی شدید ضرورت ہے۔ انہیں بلڈ پریشر مانیٹر کرنا، وین یا گوشت میں انجیکشن لگانا، ایمرجنسی میں بینڈج کرنا اور ڈرپ لگانا جیسے ہنر سکھائے جائیں تاکہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ان کی زندگی بھر کام آئیں
آٹو مکینک کے حوالے سے، خاص طور پر موٹر سائیکل کے انجن اور اس کے پرزے تبدیل کرنے کی تربیت دی جائے۔ یہ سیکھایا جائے کہ ساتویں کلاس سے دسویں تک مرحلہ وار موٹر سائیکل کے حصے کس طرح کام کرتے ہیں، تاکہ دسویں کے بعد بچے اس قدر ماہر ہوں کہ خود پرزے خرید کر موٹر سائیکل کو مکمل طور پر استعمال کے قابل بنا سکیں سکیں۔
بجلی کے عملی کام جیسے انڈر گراؤنڈ اور اوپن وائرنگ، موٹر وائنڈنگ، بچوں کو مکمل پریکٹیکل سکھایا جائے کیونکہ یہ کام محض نظریات نہیں بلکہ ایک مکمل سائنس ہے۔ فزکس کے نصاب میں اس کی تھیوری دی گئی ہے مگر عملی تربیت انتہائی ضروری ہے تاکہ بچے حقیقی معنوں میں کام کر سکیں۔ اسی طرح جہاں ان کی دلچسپی بڑھے گی اور وہاں قابلیت میں بھی اصافہ ہو گا
۔ ان مہارتوں سے نہ صرف وہ اپنی روزمرہ زندگی آ سان بنا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کی خدمت بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اپنی فیملی میں نہ صرف ان کی عزت بڑھے گی بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی بھی آئے گی۔
درحقیقت دور جدید موبائل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ موبائل ریپیئرنگ اور سافٹ ویئر کے حوالے سے بھی بچوں کو عملی تربیت دے کر سکھایا جائے کہ موبائل کی مرمت کیسے کی جاتی ہے، سافٹ ویئر انسٹال اور اپڈیٹ کیسے کیا جاتا ہے۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو مشترکہ طور پر کاروبار کرنے کے ٹاسک دیے جائیں تاکہ وہ اس طرح کاروبار کا تجربہ حاصل کر سکیں اور عملی زندگی کی مشکلات سے واقف ہوں۔ یہ مشق بچوں کو پیسے کمانے کا طریقہ سکھاتی ہے، جیسا کہ جاپان اور چین میں نسل نو کو تیار کیا جا رہا ہے۔
فری لانسنگ کی تربیت بھی بچوں کو دی جائے تاکہ وہ کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنی خدمات بیچنا سیکھیں۔ انہیں بتایا جائے کہ کس طرح وہ آن لائن اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں، چاہے وہ اپنی دیہی مصنوعات ہوں جیسے دیسی گھی، مکئی کا آٹا، یا مکھن بیچنا وغیرہ۔ انٹرنیٹ کے ذریعے اس طرح کے کام کریں تو یہ نہ صرف آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ بچوں کو خود اعتمادی بھی ملتی ہے۔
نرسری اگانے کی تربیت بھی دینی چاہیے، جس میں پھولوں، سبزیوں اور درختوں کے بیج بوتے جائیں، تاکہ اگر بچے کا رجحان فطرت کی طرف جائے تو وہ نرسری کا کاروبار شروع کر سکے۔
چھوٹے پیمانے پر صابن سازی بھی بچوں کو سکھائی جائے تاکہ یہ ہنر ان کا ذریعہ معاش بن سکے۔ مارکیٹنگ کے حوالے سے بھی بچوں میں اتنا اعتماد پیدا کیا جائے کہ وہ اپنی مصنوعات کو بہترین انداز میں بیچ سکیں۔ انہیں یہ ہنر نصاب کے ذریعے اور اساتذہ کے ذریعے دیا جائے کیونکہ اساتذہ کے ہاتھوں میں بچوں کی تربیت سب سے موثر ہوتی ہے، حتی کہ والدین سے بھی زیادہ۔
اب وقت آ چکا ہے کہ نصاب کو مکمل پریکٹیکل بنایا جائے اور عملی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ ہمارے بچے دسویں تک اپنی مہارتیں حاصل کر کے عزت اور وقار کے ساتھ روزگار حاصل کر سکیں اور اپنے ملک کے وفادار اور مفید شہری بن سکیں۔
کون نہیں جانتا کہ یہ اکیسویں صدی کا دور ہے۔ دنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے۔ آ ج وہی نوجوان کامیاب ہے جس کے پاس کوئی سکل موجود ہو۔ یاد رکھیں عصر حاضر کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بچے کو کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنے کا موقع ملے اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ وہ میٹرک کے بعد کس شعبے میں قدم رکھے اور اس کی دلچسپی کس فیلڈ میں زیادہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ اب رٹا سسٹم کی جگہ عملی اور ٹیکنیکل تعلیم دی جانی چاہیے تاکہ بچے دسویں کلاس تک ٹیکنیکل مہارتیں حاصل کر سکیں۔ سیکنڈ ٹائم بچوں کو مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ ان میں عملی قابلیت بڑھے۔ اسی طرح بچوں کی عملی تربیت سے ان کی اہمیت بھی بڑھے گی۔
جدید دور کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے اپنے بچوں کو کمپیوٹر اور لیںپ ٹاپ کا استعمال سکھانا چاہیئے۔ پرنٹر کا استعمال سکھانا چاہیئے۔ اسی طرح کمپیوٹر کا لازمی فنکشنز اسے انے چائیے۔
بچوں کو گھر کے ڈسپنسر بننے کی تربیت بھی دی جائے جو آج کے وقت کی شدید ضرورت ہے۔ انہیں بلڈ پریشر مانیٹر کرنا، وین یا گوشت میں انجیکشن لگانا، ایمرجنسی میں بینڈج کرنا اور ڈرپ لگانا جیسے ہنر سکھائے جائیں تاکہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ان کی زندگی بھر کام آئیں
آٹو مکینک کے حوالے سے، خاص طور پر موٹر سائیکل کے انجن اور اس کے پرزے تبدیل کرنے کی تربیت دی جائے۔ یہ سیکھایا جائے کہ ساتویں کلاس سے دسویں تک مرحلہ وار موٹر سائیکل کے حصے کس طرح کام کرتے ہیں، تاکہ دسویں کے بعد بچے اس قدر ماہر ہوں کہ خود پرزے خرید کر موٹر سائیکل کو مکمل طور پر استعمال کے قابل بنا سکیں سکیں۔
بجلی کے عملی کام جیسے انڈر گراؤنڈ اور اوپن وائرنگ، موٹر وائنڈنگ، بچوں کو مکمل پریکٹیکل سکھایا جائے کیونکہ یہ کام محض نظریات نہیں بلکہ ایک مکمل سائنس ہے۔ فزکس کے نصاب میں اس کی تھیوری دی گئی ہے مگر عملی تربیت انتہائی ضروری ہے تاکہ بچے حقیقی معنوں میں کام کر سکیں۔ اسی طرح جہاں ان کی دلچسپی بڑھے گی اور وہاں قابلیت میں بھی اصافہ ہو گا
۔ ان مہارتوں سے نہ صرف وہ اپنی روزمرہ زندگی آ سان بنا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کی خدمت بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اپنی فیملی میں نہ صرف ان کی عزت بڑھے گی بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی بھی آئے گی۔
درحقیقت دور جدید موبائل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ موبائل ریپیئرنگ اور سافٹ ویئر کے حوالے سے بھی بچوں کو عملی تربیت دے کر سکھایا جائے کہ موبائل کی مرمت کیسے کی جاتی ہے، سافٹ ویئر انسٹال اور اپڈیٹ کیسے کیا جاتا ہے۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں بچوں کو مشترکہ طور پر کاروبار کرنے کے ٹاسک دیے جائیں تاکہ وہ اس طرح کاروبار کا تجربہ حاصل کر سکیں اور عملی زندگی کی مشکلات سے واقف ہوں۔ یہ مشق بچوں کو پیسے کمانے کا طریقہ سکھاتی ہے، جیسا کہ جاپان اور چین میں نسل نو کو تیار کیا جا رہا ہے۔
فری لانسنگ کی تربیت بھی بچوں کو دی جائے تاکہ وہ کمپیوٹر کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنی خدمات بیچنا سیکھیں۔ انہیں بتایا جائے کہ کس طرح وہ آن لائن اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں، چاہے وہ اپنی دیہی مصنوعات ہوں جیسے دیسی گھی، مکئی کا آٹا، یا مکھن بیچنا وغیرہ۔ انٹرنیٹ کے ذریعے اس طرح کے کام کریں تو یہ نہ صرف آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ بچوں کو خود اعتمادی بھی ملتی ہے۔
نرسری اگانے کی تربیت بھی دینی چاہیے، جس میں پھولوں، سبزیوں اور درختوں کے بیج بوتے جائیں، تاکہ اگر بچے کا رجحان فطرت کی طرف جائے تو وہ نرسری کا کاروبار شروع کر سکے۔
چھوٹے پیمانے پر صابن سازی بھی بچوں کو سکھائی جائے تاکہ یہ ہنر ان کا ذریعہ معاش بن سکے۔ مارکیٹنگ کے حوالے سے بھی بچوں میں اتنا اعتماد پیدا کیا جائے کہ وہ اپنی مصنوعات کو بہترین انداز میں بیچ سکیں۔ انہیں یہ ہنر نصاب کے ذریعے اور اساتذہ کے ذریعے دیا جائے کیونکہ اساتذہ کے ہاتھوں میں بچوں کی تربیت سب سے موثر ہوتی ہے، حتی کہ والدین سے بھی زیادہ۔
اب وقت آ چکا ہے کہ نصاب کو مکمل پریکٹیکل بنایا جائے اور عملی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ ہمارے بچے دسویں تک اپنی مہارتیں حاصل کر کے عزت اور وقار کے ساتھ روزگار حاصل کر سکیں اور اپنے ملک کے وفادار اور مفید شہری بن سکیں۔ |
|