تینتیس دانت

ایک محبت مزاج کی کہانی۔جس کے ہر کام میں پرفیکشن تھی سوائے عشق کے۔۔

یار!۔۔جن لڑکیوں کے سامنے والے دو دانت باقی دانتوں سے چوڑے ہوتے ہیں نا۔۔۔۔وہ بہت کیوٹ اور شریر ہوتی ہیں۔۔۔ارشاد کہتے کہتے رُک گیا اور میری طرف تبصرہ طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ میں آج بالکل بھی بحث کے موڈ میں نہیں تھا کیونکہ دردِ شقیقہ نے سارا دن میرا رس نچوڑا تھا،اور اب کئی پین کلرزلینے کے بعد نڈھال سا شام کی بیٹھک میں بیٹھا باتیں سُن رہا تھا۔۔۔ اسی لیے چائے کی پیالی سے ایک چھوٹا سا سِپ لیااور خاموشی سے ارشاد اور فرحان کو سُنتا رہا۔۔ ارشاد نے بات بڑھانے کے لیے آگے سے ایک اور لقمہ دیا۔۔۔ لیکن جس کے ڈریکولا دانت کے اوپر ایک ٹیڑھاسا چھوٹا دانت زائد نکلا ہو،اُس کی مسکراہٹ کلیجے چیرتی ہے!۔۔۔ میں نے چائے کی پیالی سے ایک اور سِپ لیا اور ارشاد کی طرف روئے سخن کرکے دریافت کیا۔۔۔ ارشاد! یار اِس قیافہ شناسی اور دندان شناسی کے نئے فارمولے کہاں سے اخذ ہورہے ہیں؟۔۔۔ ارشاد نے قہقہہ لگا کر فرحان کو چھیڑنے کے انداز میں بات شروع کی۔۔ وسیم بھائی!ماخذ کا پتہ تو فرحان بھائی دیں گے۔۔۔ ہم تو صرف اُس علم کی تشہیر اور تبلیغ کررہے ہیں،جس کی سند فرحان بھائی ہیں۔۔۔ فرحان! پھر سے یہ سوشل ریسرچ کہاں ہورہی ہے،جس سے نئی نئی تھیوریاں اُبل اُبل کر مارکیٹ میں آرہی ہیں؟میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ان دونوں کی باتوں میں حصّہ لے لیا!۔۔ وسیم بھائی! وہی ملی تھی کل شام،پشاور کی شفیع مارکیٹ میں!۔۔۔ میں نے استفسار کیا۔۔کون وہی۔۔؟۔۔۔ اس نے کچھ بتانے سے پہلے شعرپر اکتفا کر نا ضروری سمجھا۔، ۔۔۔ دوسری بار بھی ہوتی تو تم ہی سے ہوتی۔۔ میں جو بالفرض محبت کو دوبارہ کرتا۔۔۔ ارشاد اور میں نے ہلکی سی واہ واہ کی۔۔۔ تو وہ جھینپ گیا۔۔اور سر جھکا کر کہنے لگا۔۔۔ بھائی کیابھول گئے، اُس تینتیس دانتوں والی کو۔۔؟۔۔۔۔سُنایا تو تھاپوراقصّہ۔۔۔!۔۔

فرحان پشاور یونیورسٹی کا انتہائی لائق فائق اور ذہین طالب علم تھا۔۔۔وہ میڑک سے ہر امتحان میں اے پلس گریڈ لے رہا تھا۔۔۔پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری بھی گولڈ میڈل کے ساتھ لے چکا تھا،اور اب ایم فل سکالرتھا۔۔۔ گاؤں میں کبھی کبھار آنا ہوتا،کیونکہ اُسے اپنے گاؤں کی زندگی کبھی بھی راس نہ آئی۔ فرحان اور ارشاد سے میری دوستی ایک ہی کلب میں کرکٹ کھیلنے سے ہوئی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اٹوٹ بن گئی۔۔۔ فرحان کا ہر کام پرفیکٹ تھا،خواہ کھیل کا میدان ہو،پڑھائی ہو،یاکالج کی بزمِ ادب تقریبات کا ڈائس۔۔۔۔ لیکن اُس میں ایک نمایاں خامی، بے جا جذباتیت تھی۔۔۔ کچھ لوگوں کے مزاج سخت اور کچھ کے نرم ہوتے ہیں لیکن فرحان محبت مزاج تھا۔۔۔ اُسے ایک عشق سینکڑوں لوگوں سے سینکڑوں مرتبہ ہوچکا تھا۔شاید اُسے لوگوں سے نہیں، بلکہ محبت سے محبت تھی۔ پچاس کے قریب سچے عشق تو اُسے پبلک ٹرانسپورٹ میں لکی مروت سے پشاور جاتے ہوئے ہوچکے تھے۔۔۔ کوئی بھی رومینٹک گانا پسند آتا تو دن رات ایک ہی گانا کانوں میں ہینڈ فری کی ٹونٹیاں لگائے بار بار سُنتا رہتا اور اُس کی آنکھیں سچی محبت کی تلاش میں سرگرداں رہتیں۔۔ پھر جس پر یہ نگاہیں رُکتیں اُس سے محبت ہوجاتی۔۔۔ وہ اُس محبت میں آہیں بھی بھرتا۔۔۔آنکھوں سے نیند بھی رُخصت رہتی لیکن اُس کی پڑھائی پر کوئی منفی اثرنہ پڑتا۔۔۔ ارشاد اور میں دن رات پڑھنے کے باوجود بھی اُن نمبروں کے لیے ترستے جو وہ محبتوں اور فراق کے صدموں کے باوجود آسانی سے حاصل کرلیتا۔۔۔ اگر کوئی اُسے ٹھکرا کر چلی جاتی،تو اس جدائی اورصدمے میں سگریٹ اور نسوار دونوں بیک وقت استعمال کرنے لگ جاتا، ورنہ عام طور پر، دو میں سے صرف ایک ہی پر اکتفا کرتا ہے۔۔۔ جب کسی محبت میں شدید دُکھ ملتااور چوٹ سیدھی دل پر لگتی تو فرحان کے نسوارکی گولی جو نچلے جبڑے کی د اڑھوں کے پاس عموماََ پڑی رہتی، ترقی کرکے اوپری دانتوں اور ہونٹ کے درمیاں آجاتی، اور آدھی مونچھ پھول جاتی۔۔۔ بچوں کے کنچے سے بڑی نسوار کی گولی فرحان کے مُنہ کو ٹیڑھا کر دیتی، اس لیے ان دِنوں میں وہ کسی سے سیدھے مُنہ بات نہ کرتا۔

تینتیس دانتوں والی ماہ نور بھی اُسے پبلک ٹرانسپورٹ میں ملی تھی۔ فرحان اُس روز دورانِ سفرفلائنگ کوچ میں ہینڈفری کے ذریعے اپنا پسندیدہ ہندوستانی فلمی گیت ۔۔ہم جو ہر موسم پہ مرنے لگے،وجہ تم ہووجہ تم ہو۔۔۔ہم جو شعر و شاعری کرنے لگے،وجہ تم ہو وجہ تم ہو۔۔ بار بار سُن رہا تھا،اور اُس کے کسی محبت میں مبتلا ہونے کے چانسز کئی گُنابڑھ چکے تھے جبکہ ماہ نور اُس کے عین سامنے والی لیڈیز سیٹ پراُس کی طرف پشت کرکے بیٹھی اپنے ٹچ موبائل سے کھیل رہی تھی۔ جب وہ دونوں پشاور میں فلائنگ کوچ سے اُترے تو یونیورسٹی کی مشترکہ بس پکڑ لی اور یونیورسٹی کے مین گیٹ سے ایک ساتھ اندر داخل ہوگئے۔اب اتنے اتفاقات کے بعد بات چیت میں پہل نہ کرنا فرحان کے لیے کفرانِ نعمت کے مترادف تھا، اس لیے آگے بڑھ کر بڑا سا سوٹ کیس حوالہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ گرلز ہاسٹل یونیورسٹی کے مین گیٹ سے کافی دور تھا۔ سامان کی زیادتی کے باعث نہ چاہتے ہوئے بھی ماہ نور نے اپنا سوٹ کیس اُسے پکڑا دیا۔۔۔ ماہ نور نے بھی راستے میں فرحان کو نوٹس کیا تھا کیونکہ چار گھنٹے سے ہمسفر تھے۔۔۔ اس لیے جھٹ سے سوال کیا، نیو ایڈمیشن ہو، نا؟۔۔۔ جی! فرحان نے معصومیت سے جواب دیا۔۔۔ماہ نور نے پھر سے سوال کیا۔۔۔کونسا ڈیپارٹمنٹ ہے؟۔۔۔جی، انگلش لٹریچر۔۔۔۔اچھا بہت اچھا۔۔۔۔اُس نے سرگوشی کے انداز میں چلتے چلتے الفاظ ادا کیے۔۔۔۔میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ سے ہوں اور میرے فائنل ایگزام شروع ہونے والے ہیں اس لیے مہینہ،بیس دن کی مہمان ہوں یونیورسٹی میں۔۔ اگر فیکلٹی میں کچھ کام ہو تو مجھے بتانا،میرے خاندان کے بہت سے لوگ یونیورسٹی کے ملازم ہیں۔۔۔لیکن غیر قانونی کام نہ ہو،ٹھیک!۔۔اُس نے اپنی بات ایک تبسم پر ختم کی اور اُس کی دیکھا دیکھی فرحان کے چہرے پر بھی مسکان دوڑنے لگی،ٹھیک ہے جی!۔۔۔لیکن فرحان کو اُس کی مسکراہٹ کچھ الگ محسوس ہوئی،باقی لوگوں سے دلکش اور خوبصورت۔
پھر جتنے دن ماہ نور یونیورسٹی میں رہی فرحان سے گاہے بگاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔۔۔ فرحان کی زبانی ماہ نور کے نین نقش سے زیادہ اُس کے تینتیسویں دانت کے چرچے سُنے، حالانکہ ہم نے کبھی اُس کو دیکھا نہیں تھا۔بقول فرحان کے،تینتیسواں دانت اُس کے ڈریکولا دانت کے اوپربے جا نکل آیا تھا،اور اُس کی مسکراہٹ کو جاذب ا ور اُسے جمیل بنا رہا تھا۔فرحان کو ماہ نور کے یونیورسٹی سے جانے کے بعد بہت سی سچی محبتیں لاحق ہوتی رہیں،لیکن وہ باتوں باتوں میں لاشعوری طور پر ماہ نور کی مسکراہٹ کا ذِکر چھیڑتا رہتا۔ ماہ نور اور فرحان کی دوستی،ماہ نور کے یونیورسٹی سے جانے کے بعد بھی موبائل فون او روٹس ایپ کی ویڈیو کا ل کے ذریعے جاری رہی۔۔۔ لیکن پھر کہانی میں ماہ نور کے بچپن کا منگیتر کود پڑا، اور فرحان سے تینتیسویں دانت کی مسکراہٹ چھین لی۔ ماہ نور بھی شاید ٹائم پاس کررہی تھی،کیونکہ اس رشتے پر وہ نہ روئی دھوئی،نہ سسکیاں بھریں اور نہ گھر والوں کو خودکُشی کی دھمکیاں دیں،بلکہ ہنستے مسکراتے اپنے بچپن کے منگیتر کی دُلہن بن گئی۔

فرحان کے مُنہ میں نسوار کا کنچامسلسل چار ہفتے تک اوپری ہونٹ کے نیچے دبا رہااوروہ کیپسٹن کے سستے سگریٹوں کا دھواں اپنے ٹیڑھے مُنہ سے ادھر اُدھرپھونکتا رہا۔ ہم دوست تواس مرتبہ اتنے ڈر گئے تھے کہ اُسے اکیلا چھوڑنے کے بھی روادار نہ تھے، کہ مبادا بجلی کی ننگی تاروں کو چُھو کر خود کو کوئلہ نہ کرلے۔۔۔ لیکن پھر وہ،ایم اے کے امتحانات کے سلسلے میں یونیورسٹی چلا گیا اور جب ریزلٹ آیا تو گولڈ میڈل کا حقدار ٹھہرا تھا۔۔۔اور ان امتحانات کے دوران،یونیورسٹی میں نوواردطالبہ سروش کے سِلکی بالوں کا اسیر ہو چکا تھا۔۔۔ اب یہ سلکی بال تینتیسویں دانت پر تقریباََ حاوی ہو چکے تھے،اور ہر دوسری بات میں ان کالے، لمبے، گھنے اورسِلکی بالوں کا ذِکر چِھڑتا رہتا۔

لیکن آج فرحان پھر سے غمگین اور شاعرانہ موڈ میں تھا۔ نسوار کا کنچا اُس کے اوپری ہونٹ میں صاف دِکھ رہا تھا۔میں اپنی چائے کی پیالی ختم کر چکا تھا، اور اُسے سُن رہا تھا۔۔ اُس کی گردن سے ہینڈ فری کی ٹونٹیاں لٹک رہی تھیں شاید حجرے میں آنے سے پہلے اپنے موبائل سے کوئی رومینٹک گانا قطرہ قطرہ اپنے دماغ میں سینکڑوں مرتبہ انڈیل چکا تھا۔۔۔ یار وسیم! مجھے کل ماہ نورپشاور صدر بازار کے شفیع مارکیت میں ملی تھی۔۔ اسکا شوہر شاید کہیں کار پارکنگ میں کھڑا تھا،لیکن وہ مجھ سے دوستوں کی طرح بڑی گرم جوشی سے ملی،بلاخوف و تردد۔۔۔ پانچ دس منٹ میں اس نے بہت ساری باتیں کیں اور میں خاموش کھڑا اُس کی مُسکان دیکھتا رہا۔ شوہر کی طرف سے موبائل فون کی ممانعت کی وجہ سے رابطہ نہ رکھنے پر بھی معذرت کی۔۔لیکن؟۔۔۔۔۔لیکن کیا؟میرے مُنہ سے اُس کے لیکن کہنے پر، غیر ارادی طور پر فوراََسوال نکل گیا۔۔۔ لیکن یہ،کہ اُس کا حُسن اور اُسکی مسکراہٹ شادی کے بعد مزید قاتل ہوچکے ہیں!۔۔۔میں نے کہا،یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔وہ مُنہ ٹیڑھا کرکے مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔ہاں!ہاں!۔۔۔ لیکن اِس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ، اُس کی چھوٹی سی بچی کا بھی ایک دانت ڈریکولا دانت کے اوپر نکلاہے،اور وہ بھی بالکل ماہ نور کی طرح مسکراتی ہے!۔۔۔۔
٭٭٭٭٭
وسیم خان عابدؔ
نوٹ: ۔ کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں،کسی قسم کی مطابقت محض اتفاقی ہوگی۔
۔ جملہ حقوقِ اشاعت بحقِ مصنف محفوظ ہیں۔

Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 35826 views I am a realistic and open minded person. .. View More