انسان خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک چیخ کے ساتھ اس دنیا میں
آتا ہے۔ نتیجتاً ساری زندگی ہنگامہ بازی میں گزاردیتا ہے۔ ہر وقت بے
اطمینانی، مسئلے، پریشانی، اضطراب لیکن موت کی خاموشی آتے ہی وہی پریشان حا
ل انسان کتنا شانت اور کتنا پرسکون ہوجاتا ہے۔ ہنگامہ اور شور زندگی کے
صحیح عکاس نہیں۔ اسی طرح سنّاٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں۔
ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سنّاٹے اور
خاموشی میں فرق نہیں کرپاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔ سنّاٹا بے
روح اور بے آواز ہوتا ہے جبکہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں، زندگی کو جنم
بھی دیتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ دل کی دھڑکن کا ہر
بار ایک وقفے کے ساتھ خاموشی اختیار کرنا اور پھر خاموشی کے اسی وقفے سے
اگلی دھڑکن کا جنم لینا زندگی کو جنم دینا نہیں تو اور کیا ہے! پھر خاموشی
سنّاٹے کی طرح بے آواز بھی نہیں بلکہ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب
مکمل خاموشی ہو، ہونٹ بھی خاموش ہوں تب دو دھڑکتے دلوں کی جو گفتگو ہوتی ہے
اسے اہلِ دل بخوبی جانتے ہیں۔
آواز کی دلکشی بھی خاموشی کے پس منظر کی محتاج ہے۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں
پوری آواز کے ساتھ نشر کئے جانے والے گیت سَر میں درد پیدا کردیتے ہیں جبکہ
وہی گیت آپ رات کو مکمل خاموشی کے پس منظر میں مدھم آواز سے سُنیں تو آپ
خود بھی ان گیتوں کے سُروں کے ساتھ جیسے بہتے چلے جائیں گے۔ سرگوشی اور
دھیمی گفتگو آواز کے خاموشی کی طرف جھکاؤ کے مظہر ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں
کہ آوازوں میں جو لطف سرگوشی اور دھیمی گفتگو میں ہے وہ بلند لہجے کی آواز
میں نہیں ہے۔
بعض لوگ خاموشی کو شکست کی آواز سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ اور مستقبل سے
بے خبر”حال مست“ ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خاموشی تو فتح کی پیش خبری
ہوتی ہے۔ جب سمندر خاموش ہو یا فضا میں ہوا خاموش ہو تب خاموشی طوفان اور
آندھی کی صورت اپنا جلالی روپ دکھاتی ہے۔ سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے
شہید ہو کر اور ابن منصور نے سولی قبول کرکے خاموشی سے صبر کے جو عظیم
نمونے دکھائے بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابرو ں کے سامنے شکست ہی
تھی۔ لیکن درحقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری
تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ
سے قائم ہے۔
|