ہمارے حکمرانوں نے ریمنڈ کو
گرفتار تو کر رکھا تھا ، مگر ان کی ٹانگیں بڑی شدت سے کانپ رہی تھیں، وہ
نعرے تو بڑی طاقت سے لگا رہے تھے مگر ان کی دیوارِ جاں پر لرزہ طاری تھا،
وہ استقامت دکھانے کے دعویدار تو تھے مگر ان کے قدموں کے نیچے ریت تھی۔ یہی
خدشہ تھا کہ امریکہ سے آنے والی ذرا سی ہوا بھی اس دیوار کا نشان تک مٹا دے
گی، ہمارے کھوکھلے دعوؤں اور نعروں کی باز گشت بھی سنائی نہ دے گی، ایسا ہی
ہوا کہ ایسا ہونا ہی تھا ، قوم دم بخود ہے ، غم سے سانسیں گھٹ رہی ہیں،
کلیجہ منہ کو آ رہا ہے ، غم ہے ، غصہ ہے ، سچ یہ ہے کہ شرم اور شکست خوردگی
کا ایسا احساس ہے کہ نہ سر اٹھانے کی ہمت ہے اور آنکھ ملانے کی۔
قتل کا قصاص ادا ہوجائے تو کوئی بات نہیں بچتی، اس کیس میں معاملات کیسے طے
ہوئے ، جبر کا کتنا استعمال ہوا، صبر کو کس قدر آزمایا گیا، رضامندی کی
کہانی کہاں تک سچی ہے ، یہ سب کچھ اب گئے زمانے کی کہانیاں ہیں، جو ہونا
تھا ہوچکا، سانپ گزر جائے تو لکیر کو پیٹنا دانشمندی نہیں۔ مگر یہ انصاف کی
کونسی قسم ہے کہ بغیر لائسنس کے اسلحہ رکھنے کے جرم کی سزا بھی فوراً دی
اور جرمانہ وصول کر لیا گیا، یہ تیس ہزار روپے تو ہماری جیلوں میں ناجائز
اسلحہ کے کیس میں ملوث لوگ پولیس اور چھوٹی عدالتوں کے ریڈروں وغیر ہ کو ہی
دے دیتے ہیں، ان کو اس سے کئی گنا خرچ کر کے بھی رہائی نصیب نہیں ہوتی ، اب
پاکستانی جیلوں میں پڑے ایسے ملزمان چندہ جمع کریں کہ عدالت نے گنگا بہا دی
ہے۔
تسلیم کہ لواحقین نے کروڑوں روپے لے کر ریمنڈ کو معاف کردیا ہے ، مگر کیا
ریمنڈ صرف قاتل تھا، کیا اسے جاسوسی کے الزام میں گرفتار نہیں کیا جانا
چاہیے تھا، کیا اس نے کسی دوسرے ملک میں جا کر دو افراد کو قتل کر کے دہشت
گردی کا ارتکاب نہیں کیا؟ کیا قانون کی نظر میں بھی کوئی وی وی آئی پی اور
کوئی بے آسرا ہوتا ہے، اگر قانون ہی بے سہارا مظلوموں کی داد رسی نہیں کرے
گا تو بے بس عوام کا حامی و مدد گار کون ہوگا۔کیا ہماری عدالتیں دیگر
ملزمان کے لئے بھی ایسے ہی فیصلے کرتی ہیں، یا کریں گی؟ ابھی تو عدلیہ کی
آزادی کے ابتدائی مراحل ہیں ، کہ وکلاء اور عوام ابھی تک اس عظیم آزادی کے
نشے میں چور ہیں،اس کے ثمرات عوام تک کب پہنچیں گے ، کسی کو نہیں معلوم۔
امریکہ نے پاکستان میں اپنے اہلکاروں کو ہدایت کردی ہے کہ وہ باہر نکلتے
ہوئے احتیاط کریں، بلٹ پروف جیکٹس اپنے ساتھ رکھیں۔ امریکی عہدیداروں کو
اپنے اہلکاروں کو یہ ہدایت بھی جاری کرنی چاہیے تھی کہ فلاں فلاں قسم کا
اسلحہ بھی اپنے ساتھ رکھیں ، تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے، (اور یہ بھی کہ اس
کے لائسنس وغیرہ کے بارے میں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ مسئلہ
صرف تیس ہزار کی مار ہے ) انہیں چاہیے کہ اپنے تمام عہدیداروں اور اہلکاروں
کو کمانڈو کی ٹریننگ بھی دلائیں، تاکہ جب وہ آئندہ کسی پاکستانی پر فائرنگ
کریں تو گاڑی کی سکرین میں سوراخ بھی نہ ہوں، اور ایسی تربیت دیں کہ گاڑی
چلاتے ہوئے پیچھے آنے والے بھی اس کے نشانے پر ہوں۔
امریکی قاتل آئندہ بھی فکر مند نہ ہو ں کہ ان کو قتل کے علاوہ کچھ نہیں
کرنا پڑے گا، بعد کے تمام معاملات حکومتوں کے نمٹانے کے ہیں، وکیل بھی وہ
کریں گے، مدعیوں سے رابطہ بھی ان کے ذمہ ہوگا ، رائے عامہ بھی وہی ہموار
کریں گے ۔ یہ تمام کام امریکیوں کے ہیں ، لیکن پاکستانی حکومت چونکہ میزبان
ہوتی ہے ، اس لئے ”معزز مہمانوں“ کی تکریم کا خاص خیال رکھتی ہے، انہیں کسی
کام کی تکلیف نہیں دیتی ، یہ تمام بندوبست خود کر کے دیتی ہے، اور حد یہ کہ
قصاص کی رقم بھی پاکستان کے قومی خزانے سے ہی دی جاتی ہے۔ اچھا میزبان وہی
ہوتا ہے جو مہمانوں کا بھرپور خیال رکھے۔ہمارا مشورہ ہے کہ آئندہ قصاص کے
حصے کے علاوہ خدمات کے حصے بھی دیئے جائیں ، اور اس کے حقدار وہ تمام لوگ
ہوں جو اس کہانی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ (یاد رہے کہ یہ تمام سہولتیں
صرف امریکی قاتلوں کے لئے مخصوص ہیں)۔ |