قومی مفاد یا ننگا پن

ریمنڈ ڈیوس کی آناً فاناً رہائی کے بعد ہر پاکستانی کے دل کی جو حالت تھی وہ بیان سے باہر ہے، ہر ذی شعور یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ امریکہ کے حواری اور غلام اب اس حد تک چلے گئے ہیں کہ کسی پاکستانی کی جان پوری دنیا میں محفوظ نہیں، اب جس امریکی کا جی چاہے کہ وہ انسانوں کو شکار کرے، پاکستان اس کے لئے ایک بہترین شکار گاہ ہے۔ بس چند کروڑ روپے جیب میں ڈالے اور ویزا یا بغیر ویزا پاکستان میں گھستا چلا آئے، جس پاکستانی کو بہتر شکار سمجھے اسے اپنے ریوالور سے بھون ڈالے، کچھ روز جیل میں وی آئی پی کی حیثیت سے مہمان نوازی کے مزے اٹھائے اور اپنی جیب سے نہیں بلکہ سرکاری فنڈ سے خون بہا دیکر باعزت طور پر ایک وی وی پی آئی کی طرح خصوصی جہاز پر واپس تشریف لے جائے....!

کہا جاتا ہے کہ مقتولین کے لواحقین نے ریمنڈ ڈیوس کو خون بہا لے کر معاف کردیا ہے، یہ سودا کیوں کر ہوا، کس کس نے اس ڈیل اور مفاہمت میں اپنا کردار ادا کیا، اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی۔اس کیس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پاکستان اور اس کے ریاستی ادارے اب ”قومی مفادات“ کو سمجھ چکے ہیں اور اسی قومی مفاد میں ہی سبھی اداروں، سبھی جماعتوں (اکا دکا سرپھری جماعتوں کو چھوڑ کر) نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ کسی بھی ریاست میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ جبکہ پاکستان میں فوج کو شامل کر کے چار ادارے ریاست کے ستون ہوتے ہیں اور قومی مفادات کے نگہبان بھی۔ پاکستان میں مقننہ اور انتظامیہ چونکہ آپس میں جڑے ہوتے ہیں اور مقننہ کے ارکان ہی انتظامیہ میں شامل ہوتے ہیں اس لئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں بھی تین ادارے، یعنی فوج، حکومت اور عدلیہ ریاست کے جملہ امور کو دیکھنے اور چیک اینڈ بیلنس کو قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔

اب دیکھتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کیس میں کس ادارے کا کردار کتنا ”قابل ستائش“ اور ”قابل تعریف“ ہے۔ اگر وفاقی حکومت کو دیکھیں تو اس کی شروع دن سے یہ خواہش تھی کہ قاتل کو سفارتی استثنیٰ دیکر فوری طور رہا کردیا جائے لیکن پنجاب حکومت کی جانب سے عوامی دباﺅ کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا اور قاتل کو مقدمہ قتل اور ناجائز اسلحہ کیس میں ”مہمان خصوصی“ بنانا پڑا۔ رحمان ملک، فوزیہ وہاب اور دیگر کے بیانات کا جائزہ لیں تو یہ امر ظاہر ہوجاتا ہے کہ وفاقی حکومت کسی بھی مرحلہ پر قاتل کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا دینے میں سنجیدہ نظر نہیں آئی، البتہ یہ ضرور ہوا کہ مقدمہ عدالت میں جانے کی بناء پر وفاقی حکومت کے زعماء نے بھی یہی غنیمت جانا کہ سارا ملبہ عدلیہ کی جھولی میں ڈال دیا جائے اور عدلیہ کے کندھوں پر رکھ گر عوام کی امیدوں اور آرزﺅں کو گولیوں سے بھون ڈالا جائے۔ وفاقی حکومت نے ہی سینیٹر جان کیری کو دیت یا خون بہا کی پٹی پڑھائی اور بالآخر ورثاء کو دھونس، دھاندلی، جبر، دباﺅ، لالچ، امریکی ویزوں اور نیشنلٹی کے خواب دکھا کر ”رام“ کر لیا گیا اور بہترین ”قومی مفاد“ اور ”خودداری“ کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیت کی رقم بھی سرکاری خزانے سے ادا کر دی گئی۔

پنجاب حکومت کا کردار بھی اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا۔ ورثاء کے ساتھ معاملات طے کرنے، جیل حکام کو آشیر باد دے کر سارے معاملے کو حل کرنے، جیل میں مقدمہ چلانے اور ایک ہی دن میں پہلے سے طے شدہ معاملات کے مطابق ساری کاروائی سرانجام دینے اور ایڈیشنل سیشن جج (جن کا نام بھی قومی مفاد کے تحت یقیناً سنہرے حروف میں لکھا جائے گا)کو راضی کرنے میں سارا کا سارا ”کریڈٹ“ پنجاب حکومت کو جاتا ہے۔ یہ امر اپنی جگہ معنی خیز ہے کہ رانا ثناء اللہ صبح چار بجے جیل میں کیوں گئے،وکلاء کو جیل کے اندر حبس بیجا میں کیوں رکھا گیا اور اتنی عجلت میں، ایک ہی دن میں، حکم لکھائے جانے سے بھی پہلے قاتل کو جہاز پر کیسے سوار کرا دیا گیا، لواحقین تک میڈیا کو رسائی کیوں نہ دی گئی نیز میاں برادران اس انتہائی اہم اور سنجیدہ موقع پر ملک میں موجود کیوں نہ تھے۔ انجیو پلاسٹی کوئی ایسا کام نہیں جو چند دن ٹالا نہیں جاسکتا تھا، نواز شریف جب یہاں سے گئے تھے تو میڈیا میں ان کی دل کی تکلیف کے حوالے سے کوئی بات سامنے نہ تھی لیکن کیا خوبصورت ”ٹائمنگ“ سے دونوں بھائی ملک سے چلے گئے حالانکہ ان کے جانے سے ان کی ذمہ داریاں نہ تو ختم ہوئیں نا کم لیکن اپنے ضمیر کو تھپکیاں دینے عوام کے احتجاج کو سامنے رکھ کر بہترین ”قومی مفاد“ میں بیرون ملک جانا بھی از حد ضروری تھا۔پنجاب حکومت جس طرح کے بھی بیانات دے، پرویز رشید ترجمانی کا کیسے بھی حق ادا کریں، اپنے ضمیر کے بر خلاف جتنی بھی تاویلیں دیں، ان کی باڈی لینگوج نہ تو ان کا ساتھ دے رہی تھی اور نہ ہی اس مسئلہ پر کبھی وہ خود کو مطمئن کرسکیں گے۔ اگر پنجاب حکومت کے بقول سارے معاملات فوج اور وفاقی حکومت کے ہاتھ میں تھے اور وہی دونوں اس کے ذمہ دار ہیں تو آپ نے قاتل کے خلاف شواہد ملنے کے باوجود جاسوسی کا مقدمہ کیوں درج نہ کیا؟ پراسیکیوشن نے جج کو کیوں نہ بتایا کہ یہ معاملہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے، اس نے ناجائز اسلحہ کیس میں بھی کوئی سرگرمی کیوں نہ دکھائی؟ وہ رقم کہاں سے آئی جو ورثاء کو بطور دیت ادا کی گئی کیونکہ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ رقم پنجاب حکومت نے ادا کی ہے۔ اگر ایک منٹ کے لئے مان لیا جائے کہ سارا معاملہ وفاق اور فوج نے مل کر کروایا ہے تو میاں برادران یہاں کیوں موجود نہ تھے، اگر آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا تو استعفیٰ کیوں نہیں دیدیا، کیا اب مسلم لیگ کے پاس پنجاب میں حکومت کا کوئی اخلاقی جواز رہ گیا ہے؟ پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے والے کو، دن دیہاڑے دو لوگوں کے قاتل کو اگر مقتولین کے ورثاء نے معاف کر بھی دیا تھا تو کیا پنجاب حکومت کا کردار یہی ہونا چاہئے تھا؟ کیا سب کچھ اسی بہترین ”قومی مفاد“ میں نہیں کیا گیا جس کے تحت وفاقی حکومت اور فوج نے ایسا کیا؟ آج نہیں تو کچھ عرصہ بعد یہ جواب مسلم لیگ کو دینے ہی ہوں گے، اب عوام اتنے بھلکڑ اور بیوقوف نہیں رہے جتنے پہلے کبھی ہوا کرتے تھے، پہلے بھی عوام کی اکثریت مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی مخالفت اور چھوٹی برائی کو طور پر ووٹ دیا کرتی تھی کیونکہ اس وقت کوئی تیسری سیاسی قوت موجود نہیں ہوا کرتی تھی، عوام کو کوئی نعم البدل میسر نہیں تھا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا، ہرگز نہیں....!

اگر بات کریں فوج کے کردار کی تو شائد کیانی صاحب ریمنڈ کی رہائی پر بھی کسی دن سخت مذمت کردیں کیونکہ امریکہ کی طرف سے ریمنڈ کی رہائی کے بدلے میں جو تحفہ پاکستان کو دیا گیا ہے وہ ڈرون حملے کی صورت میں ہے جس سے امریکہ نے جرگے میں شامل پینتالیس سے زائد عمائدین کو جنت میں جانے میں مدد کی ہے، کسی کا جنت میں جانا کیونکہ ”قومی مفاد“ کے خلاف ہے اس لئے سینے پر بیسویں تمغے سجانے والے فوجی کمانڈر انچیف کو اس کی مذمت کرنا پڑی۔ میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق آئی ایس آئی اور سی ائی اے کے مابین مفاہمت کی وجہ سے ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیا گیا ہے اور پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے نے اپنے لئے بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔ یقیناً، یقیناً یہ بھی بہترین ”قومی مفاد“ میں کیا گیا ہے، یہ اسی قومی مفاد کا تسلسل ہے جس کے تحت پاکستان نے امریکہ کو ڈرون حملے کرنے کے لئے اڈے فراہم کر رکھے ہیں، تین سے زائد ائر پورٹس امریکی افواج کے قبضہ میں ہیں جہاں سے وہ اڑانیں بھر کر کبھی مسجدوں، کبھی مدرسوں اور کبھی جرگوں کو نشانہ بناتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے جنت میں جانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ کرائے کی فوج سے کوئی اور توقع کی بھی کیا جاسکتی ہے، جو کرایہ دے گا، جو ان کا خیال رکھیں گے، کرائے کے گوریلے بھی اسی کا ساتھ دیں گے، لیکن سب کچھ ہوگا بہترین ”قومی مفاد“ میں....! کسی وقت قوم یہ سمجھتی تھی کہ فوج اس ملک کا بہترین ادارہ ہے، یہ ادارہ ملکی سلامتی اور تحفظ کو سب سے عزیز رکھتا ہے، اس ادارہ کی ترجیحات میں سب سے اوپر پاکستان کی سرزمین، یہاں کے عوام اور اس کا اسلامی تشخص ہے لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک دن آنے والا ہے جب قومی مفاد سب کچھ بہا لے جائے گا، جب اس طرح کے آرمی چیف ہوا کریں گے جو دنیا کی ساتویں بڑی فوج کے سربراہ ہوں گے، جو ایٹم بم بھی رکھتے ہوں گے اور اس کو استعمال کرنے کی استطاعت بھی، جن سے اس ملک کے سیاستدان بھی سہمے رہتے ہوں گے، جو سینے پر بے شمار تمغے سجائے ہوں گے، جن کے ایک اشارہ پر بڑے سے بڑا کام ہوجایا کرے گا لیکن ڈرون حملوں کو روکنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود وہ بے گناہ عوام کی شہادتوں پر مذمت اور احتجاج کیا کریں گے، جو امریکہ کے اڈے ختم کرانے اور واپس اپنے قبضے میں لینے کی بجائے اسے تمام تر سہولیات دیا کریں گے اور جو بھاڑے کے ٹٹو بن کر رہ جائیں گے، جو بار بار اپنی عوام کو فتح کرنے کے خواب دیکھا کریں گے، لیکن ہوگا سب کچھ بہترین قوم مفاد میں....!

پاکستان کی آج کی عدلیہ ، جسے عوام، وکلا، میڈیا اور سوسائٹی کے تمام حصوں نے قربانیوں، منتوں اور مرادوں کے بعد ایک لمبی تحریک کے بعد بحال کروایا تھا، اس لئے کہ وہ آزاد ہوجائے گی، اس لئے کہ اس کے نزدیک اگر کچھ محترم ہوگا تو وہ قوانین ہوں گے، ضابطے ہوں گے! لیکن اس کیس میں وہی عدلیہ جو اپنی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتی، اس کو بھی قومی مفاد کا چسکا دوبارہ سے لگا دیا گیا، نظریہ ضرورت دوبارہ سے زندہ و جاوید ہوگیا، کہاں گئے وہ ”ازخود نوٹس“ کہاں گئے وہ دعوے کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہوگا، کہاں گئے وہ شعلہ جوالا بیانات کہ عوام کو انصاف دیا جائے گا اور انصاف ہوتا نظر بھی آئے گا، کہاں گئے وہ چیف جسٹس جو پوری قوم کے لئے آزادی اور انصاف کا ایک استعارہ بن چکے تھے، کہاں گئے وکلاء تحریک کے سرخیل رہنماء جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے ”ریاست ہو گی ماں کے جیسی“ یہاں تک کہ کہاں گئی وہ ریاست؟ کیا عدلیہ کو ایسے ہی فیصلہ کرنا چاہئے تھا، کیا آئندہ بھی ایسے ہی ایک دن میں فیصلے ہوا کریں گے؟ کیا جج صاحبان کی جانب سے آرڈر لکھوائے جانے سے پہلے قتل، جاسوسی اور ناجائز اسلحے کے مقدمات میں ملوث لوگوں کو چھوڑ دیا جایا کرے گا؟کیا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی ایسے ہی فیصلے کر کے تکنیکی بنیادوں پر ملزموں کے نام ای سی ایل سے نکالا کریں گے تاکہ بعد میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور میڈیا اور عوام کے علم میں آنے سے پہلے فوجی طیاروں کو یہاں سے اڑا دیا جائے، کس کس بات کا ذکر کیا جائے، کس کس بات کو رویا جائے، کم از کم عدلیہ سے اس ”قومی مفاد“ کی توقع کسی کو بھی نہ تھی۔

قصہ مختصر یہ کہ یہ سب کچھ یقیناً ایک بہترین ”قومی مفاد“ میں کیا گیا ہے اور تمام اداروں بشمول فوج، حکومت، سیاستدانوں اور عدلیہ نے اسی ”قومی مفاد“ کے تحت سارے معاملات کو سمیٹا اور انجام تک پہنچایا ہے لیکن کم از کم پاکستان کے قومی مفاد میں ہرگز نہیں بلکہ امریکہ اور یہودیوں کے قومی مفاد میں اور اسی مفاد کے تحت پاکستان کے تمام اداروں نے امریکی حکم کی تابعداری میں جو کام کئے ہیں انہیں اپنا چہرہ آئینے میں ضرور دیکھنا چاہئے، انہیں صرف اپنے چہرے ہی نہیں بلکہ پورے جسم ننگے نظر آئیں گے، یہ ننگے پن کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207413 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.