وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے کل
یہ فرمایا ہے کہ ’’ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر کسی ایک ادارے کو قصور وار
ٹھہرانا درست نہیں ہے‘‘ ہمیں بڑی خوشی ہے کہ کم از کم وزیر اعظم صاحب نے تو
قوم سے سچ بولا ورنہ یہاں تو ہر لیڈر،ہر رہنما، ہر ادارہ اپنے آپ کو بچاتے
ہوئے دوسرے اداروں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ شکریہ وزیر اعظم صاحب بہت
شکریہ ۔ اب اگر وزیر اعظم صاحب کے اس بیان کو آسان اردو اور عوامی زبان میں
بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ ’’ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر کسی ادارے کو
کچھ نا کہا جائے بلکہ ہم سب بے غیرت ہیں اور سب نے ہی اپنی بے غیرتی کی
قیمت وصول کی ہے‘‘۔
اور حقیقت تو یہی ہے کہ سارے ہی بے غیرت اور بے حمیت ہیں۔ خواہ وہ مسلم لیگ
ن ہو یا پی پی پی ، ایم ایم کیو ایم ہو یا مسلم لیگ ق ، پاک آرمی ہو یا نام
نہاد ’’آزاد عدلیہ ‘‘ ہو وفاقی حکومت ہو یا پنجاب حکومت ، سب نے قومی وقار
کو بیچنے میں حصہ بقدرِ جثہ اپنی اپنی قیمت وصول کی ہے۔ وہ مسلم لیگ ن کے
میاں نواز شریف اور شہباز شریف جو جلا وطنی ختم کر کے پاکستان آنے کے بعد
درجنوں مرتبہ فرما چکے تھے کہ ’’ آمر کا ساتھ دینے والے کسی فرد کے ساتھ
کوئی بات نہیں کی جائے گی ‘‘اور یہ کہ ’’ لوٹوں کو کسی صورت میں واپس نہیں
لیا جائے گا ‘‘ لیکن پوری قوم نے دیکھا کہ اپنے وقت پڑنے پر انہی میاں
برادران نے سارے ’’ لوٹوں ‘‘ کو گلے لگایا اور فرمایا کہ ’’ یہ لوٹے کہاں
ہیں بلکہ یہ تو مسلم لیگ ن ہی کے افراد تھے جنہیں آمر نے اغوا کرلیا تھا
اور آج بازیاب ہوگئے ہیں‘‘ ۔ یہ حال ہے ان بے حمیت لوگوں کی زبان کا۔
کیا یہ عجیب اتفاق نہیں ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے چند دن قبل میاں صاحب
لندن روانہ ہوتے ہیں اس کے بعد میاں شہباز شریف بھی روانہ ہوجاتے ہیں اور
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے چند گھنٹوں بعد یہ خبر جاری کی جاتی ہے کہ میاں
نواز شریف صاحب کو دل کی تکلیف ہوگئی ہے اور شہباز شریف ان کی عیادت کے لئے
لندن گئے ہیں۔ واہ واہ قوم کو کس طرح بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ دل کی تکلیف
سولہ مارچ کو ہوتی ہے اور شہباز شریف صاحب پندرہ مارچ کو ہی عیادت کے لئے
روانہ ہوجاتے ہیں۔
پھر ایک اور بے غیرت صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ انتہائی ڈھٹائی کے
ساتھ قوم کو بتاتے ہیں کہ ’’ریمنڈ ڈیوس کو عدالت نے رہا کردیا ہے ۔ وہ کہیں
بھی جاسکتا ہے۔ اور اس کو مقتولین کے ورثا نے معاف کردیا ہے‘‘ اس کے ساتھ
ساتھ وہ انتہائی معصومیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’ اس معاملے میں ہمارا کوئی
ہاتھ نہیں ہے ،اس کو مقتولین کے ورثا نے دیت کے تحت معاف کردیا ہے ‘‘ لیکن
اگلے ہی دن قوم کو پتہ چلا کہ موصوف ہی نے سارے معاملات طے کرائے تھے۔ رات
تین بجے مقتولین کے ورثا کو گھروں سے اٹھا کر کوٹ لکھپت جیل لایا گیا تھا
اور انہوں نے ہی مقتولین کے ورثا کو مجبور کیا کہ ’’ جذباتی ہونے کی ضرورت
نہیں ہے عقل سے کام لو‘‘۔
اس کے بعد ہماری آئی ایس آئی ، اور ایجنسیاں جنہوں نے ویسے ہی اپنی ہی
شہریوں کو اغوا کر کے عالمگیر شہرت حاصل کی ہے، یہاں بھی انہوں نے حسبِ
معمول غیر ملکی آقاؤں کی مدد کی اور جب تک ان کے سی آئی اے سے اختلافات تھے
اس وقت تک انہوں نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے کو چھوڑا ہوا تھا اور جیسے ہی ان
کے معاملات سی آئی اے سے درست ہوگئے اسی وقت سے یہاں تبدیلی آنا شروع ہوگئی
۔آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا جن کی مدت ملازمت ختم ہورہی تھی ،
انکی مدت ملازمت میں توسیع کردی گئی ۔ اور اس سے اگلے ہی دن انہوں نے اپنے
مشہور زمانہ وکیل جو کہ گمشدہ افراد کے کیس میں بھی آئی ایس آئی کی وکالت
کر رہے تھے ۔ ان کو اسلام آباد سے طلب کر کے ان کو مقتولین کا وکیل مقرر
کردیا گیا۔ اور انہوں نے بھی اپنی غیرت کی قیمت وصول کی۔
اور آزاد عدلیہ کی تو کیا ہی بات کی جائے۔ ہم نے اس دن رات جدو جہد کر کے
عدالتوں کی بحالی میں اس لئے ان کا ساتھ دیا تھا کہ قوم کو بے حمیت
حکمرانوں پر اعتبار نہیں رہا تھا اور عدلیہ کی بحالی کے بعد یہ امید ہو چلی
تھی کہ اب کم از کم معاملات بہتر ہوجائیں گے لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا، اور
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر تا حال سپریم کورٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا حالانکہ
یہ وہی سپریم کورٹ ہے جو اپنے معاملات میں عدالت کا وقت ختم ہونے کے بعد
بھی کیسز کی سماعت کرتی تھی اور اپنے مفادات کے لئے انہی عدالتوں نے وقت
ختم ہونے کے بعد بھی کیسز کے فیصلے سنائے ہیں۔ لیکن افسوس کہ قومی سلامتی
کے ایک اہم معاملے پر سپریم کورٹ بھی خاموش ہے۔یہاں عدالت نے بھی دہرے
معیار کا ثبوت دیا کہ غیر ملکی آقا کو رہا کرنے کے لئے ’’معزز ‘‘ جج صاحب
کو صبح پانج بجے طلب کیا جاتا ہے اور وہ پانج بجے ہی سے ساری کاروائی کا
آغاز کردیتے ہیں۔سارے معاملات انتہائی پھرتی اور سرعت کے ساتھ طے کیے جاتے
ہیں ۔چند ہی گھنٹوں میں ملزم پر بنائے گئے سارے مقدمات نمٹا دئے جاتے ہیں ،
جبکہ عام افراد ایک معمولی سے کیس میں بھی سالوں تک عدالتوں کے چکر کاٹتے
رہتے ہیں اور انصاف نہیں مل پاتا ہے۔
اب یہ سارے غدار، بے غیرت اور بے حمیت لوگ ایک بار قوم کو بیوقوف بنارہے
ہیں ۔ دتہ خیل میں جرگے پر حملے میں اڑتالیس افراد کی شہادت کے بعد اب
امریکہ سے احتجاج کیا جارہا ہے۔ آرمی چیف فرماتے ہیں کہ ’’ ڈرون حملے
ناقابل برداشت ہیں۔امریکہ سے سخت احتجاج کریں گے ۔‘‘ ادھر دفتر خارجہ نے
بھی امریکہ سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا ہے اور اس نازک موقع پر بھی ہمارے
حکمرانوں کی حس مزاھ برقرار ہے اور وہ امریکی سفیر کو طلب کر کے لطیفہ
سناتے ہیں کہ ’’پاکستان کو طفیلی ریاست نہ سمجھا جائے ‘‘ یہ موجودہ صدی کا
سب سے بڑا لطیفہ ہے ۔ادھر پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلی میں اس کے خلاف
قراردیں منظور کی گئیں ہیں۔ اور اس طرح تاثر دیا جارہا ہے کہ گویا کہ
حکمران اور پاک فوج امریکہ کے سخت خلاف ہیں اور بس اب اگلا ڈرون حملہ ہوا
تو ان امریکیوں کی خیر نہیں ہے ۔لیکن قوم ساری بات جانتی ہے کہ یہ سارے بکے
ہوئے لوگ اب ایک نیا ڈرامہ کر کے قوم کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا
امریکہ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لے گا۔ ایک ایسا فرد جو کہ ڈرون حملوں کا
نیٹ ورک چلا رہا تھا، جس کے ’’نام نہاد طالبان ‘‘ سے رابطے تھے، جس کے پاس
سے حساس مقامات کی تصاویر،نقشے اور جاسوسی آلات برآمد ہوئے تھے، جس کو
ناپسندیدہ سرگرمیوں کی بنا سے پشاور بدر کیا گیا تھا، جس کی گرفتاری سے سی
آئی اے، پینٹاگون اور وہائٹ ہاؤس تک ہل گئے تھے۔ یہ موقع تھا کہ اس کو قرار
واقعی سزا دی جاتی تو امریکہ کو اندازہ ہوجاتا کہ معاملہ سنجیدہ ہے اور پھر
وہ یہاں سے اپنا نیٹ ورک وغیرہ سمیٹنے پر مجبور ہوتے لیکن ایسے فرد کو
چھوڑنے کے بعد اب امریکہ کو آنکھیں دکھانے کا ڈرامہ کیا جارہا ہے ۔
بند کرو یہ ڈرامے! اب قوم کے ساتھ مزید کوئی مذاق مت کرو۔ کہہ دو امریکہ سے
کہ ہاں ہم بکاؤ مال ہیں، لاؤ ساری قوم کی دیت ایک ہی دفعہ ادا کردو اور اس
ملک کو ایک شکار گاہ ، بنا دو جہاں امریکی خونخوار درندے ہمارے شہریوں کا
شکار کرتے رہیں ۔ کہ یہ سب امریکہ سے اور قوم کو بھی بتا دو کہ ہم نے یہ
وردی تمہاری حفاظت کے لئے بلکہ تمہیں ہی ڈرانے کے لئے پہن رکھی ہے۔ بتا دو
قوم کو کہ ہم تمہارے نمائندے نہیں ہیں بلکہ غیر ملکیوں کے نمائندے ہیں اس
لئے ہم سے کوئی امید نہ رکھو ، بتا دو قوم کو کہ یہ عدالتوں کی بحالی صرف
اس لیے ہیں کہ آئندہ کوئی بھی فرد چاہے کچھ بھی کرے ، چاہے قوم کو بیچ
کھائے لیکن ہماری جانب نہ دیکھے ۔ کہہ دو یہ ساری باتیں قوم سے تاکہ کم از
کم ہم کوئی امید نہ رکھیں تم لوگوں سے ۔
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے کل یہ فرمایا ہے کہ ’’ ریمند ڈیوس
کے معاملے پر کسی ایک ادارے کو قصور وار ٹھہرانا درست نہیں ہے‘‘ ہمیں بڑی
خوشی ہے کہ کم از کم وزیر اعظم صاحب نے تو قوم سے سچ بولا ورنہ یہاں تو ہر
لیڈر، ہر رہنما، ہر ادارہ اپنے آپ کو بچاتے ہوئے دوسرے اداروں کو موردِ
الزام ٹھہراتا ہے۔ شکریہ وزیر اعظم صاحب بہت شکریہ ۔اور حقیقت تو یہی ہے کہ
سارے ہی بے غیرت اور بے حمیت ہیں۔ خواہ وہ مسلم لیگ ن ہو یا پی پی پی ، ایم
ایم کیو ایم ہو یا مسلم لیگ ق ، پاک آرمی ہو یا نام نہاد ’’آزاد عدلیہ ‘‘
ہو وفاقی حکومت ہو یا پنجاب حکومت ، سب نے قومی وقار کو بیچنے میں حصہ
بقدرِ جثہ اپنی اپنی قیمت وصول کی ہے۔ |