بابری مسجد مقدمہ : آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے

بی جے پی کے سابق رہنما اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے معروف دانشور کے این گوونداچاریہ نے بابری مسجد کے مقدمہ کی روزآنہ سماعت کے شروع میں سپریم کورٹ سے کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کی گزارش کی تھی ۔ گوونداچاریہ کی دلیل تھی کہ “یہ معاملہ قومی اہمیت کا حامل ہے۔ درخواست گزار سمیت کروڑوں افراد ایسے ہیں ، جو عدالت کی کارروائی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں ، لیکن سپریم کورٹ کے موجودہ ضابطوں کے سبب نہیں دیکھ سکتے’’۔ بدقسمتی سے چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے اسے مسترد کرد یا ۔ گوونداچاریہ چونکہ گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اس لیے ممکن ہے قارئین ان کو بھول گئے ہوں۔ 16 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت سے متعلق تحقیق و تفتیش کے لیے حکومت ہند نے لبرہان کمیشن تشکیل دیاتھا۔ اس کی رپورٹ میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، پرمود مہاجن، اوما بھارتی، وجے راجے سندھیا ، گریراج کشور، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے سمیت گوند اچاریہ کو بھی بابری مسجد کے انہدام کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ گواہوں کی شہادتوں کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ان لوگوں اشتعال انگیز تقاریر کے سبب مسجد شہید ہوئی ۔ یہ چاہتے تو انہدام کو روک سکتے تھے۔

گووندا چاریہ کی دلچسپی اپنی جگہ لیکن عدالت کی ابتدائی سماعت میں نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کی وکالت کرنے والوں کے بحث کوپڑھ کر انہیں اپنی ناکامی پر خوشی ہورہی ہوگی اس لیے کہ اگر ساری دنیا ان بودے دلائل کو دیکھتی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہوتا۔ مسلمان عدالت کے فیصلے سے قبل مقدمہ جیت چکے ہوتے ۔عدالتِ عظمیٰ نے اپریل 2017 میں حکم دیا تھا کہ بابری مسجد کا فیصلہ دو سال کے اندر یعنی 19 اپریل 2019ء تک سنادیا جائے۔ مئی 2019 چونکہ قومی انتخاب ہونے تھے اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی اہمیت بہت بڑھ گئی تھی۔ اس مقدمہ کی راہ میں ایک روڑہ اسماعیل فاروقی کی پی آئی ایل تھی جو انہوں نے بابری مسجد اور اطراف کی زمین کے سرکاری تحویل میں لینے کے خلاف داخل کی تھی ۔ اس کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے الہ باد ہائی کورٹ نے یہ لکھ دیا تھا کہ ‘نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں ہے’۔ اسماعیل فاروقی سپریم کورٹ سے رجوع کرکے گہار لگائی کہ یہ جملہ درست نہیں ہے۔

اپنی سبکدوشی سے چند روز قبل 27 ستمبر ۲۰۱۸؁ کو سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے اپنا فیصلہ تو اسماعیل فاروقی کے خلاف سنایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ کہ نماز مسجد میں اداکرنا ضروری ہے یا نہیں سے اصل قضیہ کا کوئی سروکار نہیں ہے۔بابری مسجد معاملہ پر اس کا کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ یہ دراصل سپریم کورٹ کے پرانے موقف کا اعادہ تھا کہ بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ کا فیصلہ صرف اور صرف ملکیت کے مقدمہ کی طرح سنا جائے گا اور اس میں عقیدت اور مذہب کی دلیلوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس وضاحت کے باوجود جس طرح کے دلائل نرموہی اکھاڑے اور رام للا کے وکلاء کی جانب سے پیش کیے جارہے ہیں انہیں پڑھ کر بیک وقت ہنسی آتی ہے اور ان کی عقل پر رونا بھی آتا ہے۔

جسٹس دیپک مشرا نے سماعت کا راستہ کھول دیا تو سنگھ پریوار خوب جوش میں آگیا ۔ اس نے عدلیہ پر جلد از جلد فیصلہ سنانے کے لیے دباو بنانا شروع کیا لیکن نئے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے یہ کہہ کر انہیں ٹھنڈا کردیا کہ یہ مسئلہ ہماری ترجیحات میں نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ بی جے پی کوانتخابی مہم کے دوران اس کے سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہتے ہوں یا کوئی اور وجہ رہی ہو ۔ انہوں نے براہ راست سماعت سے قبل مارچ ۲۰۱۹؁ میں ثالثی کی تجویز پیش کی اور کہا اگر فریقین اس انتہائی حساس معاملے کو مصالحت کے ذريعے حل کرنے میں ناکام رہے، تو عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی ۔ اس سے کوئی خاص توقع نہیں تھی پھر بھی جملہ ۱۴ فریقین میں سے مسلمانوں نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثالثی کا خیر مقدم کیا جبکہ اتاولے ہندو فریقین نے مخالفت کی ۔ بينچ نے اس اڑیل رویہ پر حیرت کا جتاتے ہوئے کہا تھا ،‘‘ متبادل راستہ آزمائے بغیر ثالثی کی تجویز کیوں مسترد کیا جا رہا ہے’’۔

رام مندر کے فریق فی الحال جس طرح کے بودے دلائل پیش کررہے ہیں اسی طرح کی بات اس وقت بھی کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا ‘‘بفرضِ محال تمام فریقین میں معاہدہ ہو بھی گیا، تب بھی سماج اسے کیسے تسلیم کرے گا؟ ثالثی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوگا کیوں کہ ہندو اسے ایک جذباتی اور اعتقاد کا معاملہ سمجھتے ہیں‘‘۔ اس پر ایک فاضل جج ان سے مخاطب ہو کر بولے ،‘‘ آپ پہلے سے ہی کوئی فیصلہ کیوں کر رہے ہیں۔ ہم مصالحت کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ماضی کی بات نہیں کر سکتے۔ بابر نے کیا کیا تھا؟ وہاں مسجد تھی یا مندرتھا؟ ماضی پر ہمارا زور نہیں ہے لیکن ہم بہتر مستقل کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ہمیں اس تنازعے کی شدت کا احساس ہے اور مصالحت کے ذریعہ اسے حل کرنے کے نتائج سے بھی واقف ہیں۔یہ صرف زمین کا تنازعہ نہیں ہے۔ یہ جذبات سے وابستہ معاملہ ہے، یہ زخم بھرنے کا معاملہ بھی ہے۔ اس ليے عدالت چاہتی ہے کہ باہمی بات چیت سے اس کا حل نکلے‘‘۔ اس بیان میں عدالت کا اخلاص جھلکتا تھا جس کی قدر دانی کرتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ‘آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی’ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا تھا، ‘‘ہم ثالثی کے ذریعے مصالحت کی خاطر تیار ہیں لیکن عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں یہ عمل بند کمرے میں ہونا چاہیے‘‘۔

سپریم کورٹ نے ۸ مارچ ۲۰۱۹؁ کو جسٹس خلیف اللہ، وکیل شری رام پنچو اور شری شری روی شنکر پر مشتمل ثالثی کمیٹی تشکیل دے کر اسے مصالحت کے لیے آٹھ ہفتوں مدت دی گئی مگر13 مارچ سے شروع ہونے والی گفت و شنید کو 15 اگست تک کا بڑھا دیا گیا۔ پیش رفت سے مایوس ہوکر آئینی بینچ نے یکم اگست تک اپنی کارروائی کے نتائج سے عدالت کو مطلع کرنے کی تلقین کی توکمیٹی نے بند لفافے میں اپنی رپورٹ عدالت کو سونپ دی۔ اس میں اعتراف تھا کہ ہندو اور مسلم فریقین اس پیچیدہ تنازعہ کا معقول حل تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے ۶ اگست سے روزآنہ کی سماعت کا آغاز کیا ۔ چیف جسٹس کے علاوہ اس بنچ میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس دھننجےوائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کو شامل کیا گیا ۔ سماعت کی ابتداء میں چیف جسٹس آف انڈیا نے رام للا (سوٹ نمبر 5) اور نرموہی اکھاڑہ (سوٹ نمبر 3) کا اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دیا ۔ نرموہی اکھاڑہ کے وکیل نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ متنازعہ قطعہ اراضی پر چونکہ ان کا قبضہ ہے اس لیے عدالت کورٹ ریسیور کو فوراً ہٹا کر متذکرہ اراضی درجنوں مندروں اور اداروں کو چلا نے والے کو سونپ دی جائے۔

اکھاڑے کے وکیل سوشیل کمار جین نے ایک نقشے کے ساتھ یہ چونکا نے والا انکشاف بھی کیا کہ انہیں مسجد کے باہری صحن میں ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ رام جنم بھومی استھان اندرونی احاطہ میں ہے۔ اسی کے ساتھ اختلافات کو پنڈورا بکس کھل گیا ۔ اول تو نرموہی اکھاڑہ بلا شرکت غیرے مندر پر قبضہ کا دعویٰ دار ہے اور دیگر ہندو فریقین کی شراکت داری کا روادار نہیں ہے۔ دوسرا اختلاف یہ کہ وشوہندو پریشد وغیرہ توایودھیا کے اندر کسی مسجد کے قائل نہیں ہیں جبکہ اکھاڑے کو مندر کے صحن میں بھی مسجد قابلِ قبول ہے۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو شواہد بعینہِ اس کےالٹ ہیں ۔ مسجد پر غاصبانہ قبضہ اور تالہ بندی سے قبل سیتا کو رسوئی اور چبوترا صحن میں تھا او ر ایک طرف مسجد اور دوسری جانب مندر تھا ۔ انگریزوں نے تصادم کے خوف سے درمیان دیوار بنادی ۔ اب نرموہی اکھاڑہ خود اندر جاکر مسلمانوں کو صحن بھیج رہا ہے اس لیے کہ اگر وہ خود صحن میں چلا آئے تو رام بھکت اور دکشنا دونوں نہیں آئے گی لیکن وہ مسجد کی ہمسائیگی پر راضی ہے۔

دوسرے دن کی سماعت میں نرموہی اکھاڑے نرموہی اکھاڑے نے یہ جھوٹ کہا کہ سو سال سے مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھتے۔پولس کی نگرانی میں صرف جمعہ کی نماز ہوتی ہےحالانکہ جس رات چوری سے مورتیاں رکھی گئیں نمازِ عشاء پڑھی گئی تھی اوردوسرے دن صبح مسلمان فجر کی نماز پڑھنے کے لیے آئے تو انہیں دیکھا۔اکھاڑے کے وکیل کی ہوا اس وقت ا کھڑ گئی جب سپریم کورٹ نے دریافت کیا کہ کیا ان کے پاس رام جنم بھومی کی ملکیت سے متعلق کوئی ثبوت، کاغذ یا ریونیو ریکارڈ وغیرہ ہے۔ اس کے جواب میں وکیل سشیل کمار جین نے عدالت کو بتایا کہ ‘‘1982 میں ایک ڈکیتی ہوئی تھی جس میں سبھی ثبوت اور کاغذات چوری ہو گئے’’۔سوال یہ ہے کہ ان کاغذات سے چوروں کا کیا فائدہ ؟ اگر غلطی سے اسے لے بھی گئے تھے تو واپس دکشنا پیٹی میں ڈال جاتے اس لیے رام نگری کے ڈاکو راون کی اولاد کیسے ہوسکتے ہیں ؟اس جواب پر چیف جسٹس نے تعجب سے کہا کہ ‘‘ہم آئندہ دو گھنٹے میں دستاویزی یا زبانی ثبوت دیکھنا چاہتے ہیں’’۔ جسٹس دھننجے چندرچوڑ نے زبانی شواہد کو خارج کرتے ہوئے بولے ‘‘ہمیں اصلی کاغذات دکھائیے’’۔

عدالت کے اس رخ سے گھبرا کر وکیل سشیل کمار جین نے کہہ دیا کہ دستاویزات کی تفصیل الٰہ آباد (ہائی کورٹ) کے فیصلے میں ہے۔ سشیل کمار جین نے جب دعویٰ کیا کہ کئی برسوں سے کوئی مسلمان وہاں نہیں آیا اور ان کا موکل برابر پوجا ارچنا کرتاہے اس لیے وہی حقدار ہے تو جسٹس چندرچوڑنے انہیں چاروں خانےچت کرتے ہوئے کہا آپ مالکانہ حق کے بغیر پوجاارچناکرسکتے ہیں لیکن پوجاکرنا اور مالکانہ حق جتانا دوالگ الگ باتیں ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بغیر تیاری کے لوگ کس طرح عدالت میں رسوا ہوتے ہیں؟چہار جانب سے ناکام ہوکر وکیل نے کہہ دیا کہ نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے مقدمہ قائم کرنے کا مقصدصرف اندر کے احاطہ پر اپنا حق جتانا ہے۔ منصفِ اعظم نے جب دیکھا ان کے پاس نہ دلیل ہے اور نہ ثبوت تو بحث روک دی اور دستاویزات سے متعلق اورتیاری کرکے آ نے کی تلقین کرکے آگے بڑھ گئے۔

اس کے بعد مقدمہ نمبر 5کے میں رام للا کے وکیل پرسرن کو بحث کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ سے ملک کے ہندووں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں لوگ رام جنم بھومی کو بھگوان رام کی جائے پیدائش مانتے ہیں اور قدیم تاریخی دستاویزات میں اس بات کے ثبوت موجود ہے۔ برطانوی راج میں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانہ میں عدالت نے ایک فیصلہ میں وہاں بابرکی تعمیر کردہ مسجد اور جنم استھان مندرکا ذکر کیا تھا اور بٹوارہ کرتے ہوئے مسجد کی جگہ رام جنم استھان کو تسلیم کیا تھا ۔ اس دلیل کے ذریعہ وکیل پرسرن نے یہ تسلیم کرلیا کہ وہاں مسجد موجود تھی جس کو رام مندر سے الگ کیا گیا تھا۔رام للا کے وکیل پرسرن نے جب کہا کہ والمیکی رامائن میں تین جگہ ایودھیا کو بھگوان رام کی جائے پیدائش لکھا ہے۔اس پر جسٹس بوبڑے نے ایک دلچسپ سوال کیا کہ کیا عیسیٰ مسیح ؐ بیت الحم میں پیداہوئے تھے اور کیا کسی مذہبی جگہ کو لےکر اس طرح کاکوئی سوال یا تنازعہ دنیا کی کسی اورعدالت میں آیا ہے؟ اس استفسار کا جواب وکیل پرسرن کے پاس نہیں تھا اس لیے یہ کہہ کر کنی کاٹ گئے کہ دیکھ کر بتائیں گے؟

نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے وکلاء کا اختلاف دیکھ کر عدالت نے دونوں کومخاطب کرکے پوچھا نرموہی اکھاڑہ متعلقہ اراضی پر اپنا دعوی پیش کررہاہے مگر رام للا کے وکیل کا کہناہے کہ وہ رام جنم استھان ہے لہذا اس پر ان کا حق بنتا ہے چنانچہ دونوں فریق پہلے آپس میں طے کرلیں کہ کس کی بات مانی جائے۔ اس پر رام للاکے وکیل مسٹر پراسرن پھر غوطہ کھا گئے اور کہہ دیا کہ جنم استھان کو لے کر کسی مخصوص جگہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ آس پاس کے علاقہ سے بھی اس کا مطلب ہوسکتاہے۔ اس دلیل کی روشنی میں عدالت مسجد کے بغل کی غیر متنازع زمین پر رام مندر کی اجازت دے کر بہ آسانی مسئلہ سلجھا سکتی ہے۔ جب پراسرن نے اس معاملے کو ہلکا کرنے کے لیے کہہ دیا ہندوومسلمان دونوں فریق متنازعہ علاقہ کو جنم استھان کہتے ہیں اس لئے اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہےتو جسٹس بھوشن نے ایک بنیادی قسم کا سوال کردیا کہ کیا جنم استھان کو فرد تسلیم کیا جاسکتاہے جس طرح اتراکھنڈ کی ہائی کورٹ نے گنگاکوفردمانا تھا؟

رام للا کے وکیل پراسرن کی پریشانی اس سوال حد درجہ بڑھ گئی تو انہوں نے ایک حیران کن منطق پیش کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہاں رام جنم بھومی فردہوسکتاہے اور رام للا بھی کیونکہ وہ ایک مورتی نہیں بلکہ ایک دیوتاہیں اور ہم انہیں زندہ مانتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم مانتے ہیں تو مانتے ہیں یہ تو شردھا کا پرشن ہے اس لیے کوئی ثبوت یا دلیل کی ضرورت نہیں ۔ پراسرن نے یہ بھی کہا کہ دیوتا کی موجودگی ایک قانونی فرد ثابت کرنے کی واحد کسوٹی نہیں ہے کیونکہ ندیوں کی پوجاہوتی ہے رگویدکے مطابق سورج ایک دیوتا ہے سورج ایک مورتی نہیں ہے لیکن وہ ہر دورکا دیوتاہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سورج ایک قانونی فردہیں۔ اس مطلب تو یہ ہوا کہ اگر کوئی سورج کی گرمی اور لوُ لگنے سےمر جائے تو اس کے وارثین سورج کے خلاف مقدمہ دائر کردیں اور عدالت اس کو سزا سنا دے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت دیوتا کو سزا دے سکتی ہے؟

رام للا کو فریق بنانے کی بھی عجیب و غریب منطق سینئر وکیل پراسرن نے بتائی ۔ وہ بولے کہ متنازع زمین کوضبط کرتے وقت رام للا کو فریق نہیں مانا گیا تھا ۔ رام للاکو اس مقدمہ کا فریق تب بنایا گیا تھا جب مجسٹریٹ نے سی آرپی سی کی دفعہ 145کے تحت اس کی پراپرٹی ایٹیچ کردیا۔ اس کے بعد سول کورٹ نے وہاں کچھ نہ کرنے کی پابندی عائد کردی تھی۔ کورٹ نے رام جنم بھومی کو مدعی ماننے سے انکارکردیا اس لئے رام للا کو فریق بناناپڑا۔ رام للا چونکہ نابالغ ہے اس لئے ان کے دوست مقدمہ لڑرہے ہیں انہوں نے بتایا کہ پہلے دیوکی نندن اگروال مقدمہ لڑرہے تھے اور اب ترلوکی ناتھ مقدمہ لڑرہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رام للا ست یگ میں نابالغ تھے اور جب مقدمہ قائم کیا گیا اس وقت بھی نابالغ تھے اور ابھی تک نابالغ ہیں ۔ اپنے دلائل کی کمزوری کا پراسرن کو احساس ہوگیا تو انہوں نے عدالت سے بحث مؤخر کرنے کی گزارش کی کہ وہ اس موضوع پر بعد میں بحث کریں گےلیکن اس سے پہلے سنسکرت کا ایک شلوک سنانے سے نہیں چوکے جس میں کہا گیا ہے کہ جنم بھومی سورگ یعنی جنت سےعظیم ہے۔
اس مقدمہ میں کل ۲۰ ہزار صفحات پر پھیلا ہوا ہے اس لیے آگے چل چل کر کیا کیا گل کھلیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اتفاق سے ۲۰ جولائی ۲۰۱۹؁ سے بابری مسجد کوشہید کرنے کی سازش کا مجرمانہ معاملہ بھی نچلی عدالت میں چل پڑا ہے۔اس معاملے میں بی جے پی کے رہنما ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، کلیان سنگھ وغیرہ ملزم ہیں۔ عدالت عظمیٰ نےتاکید کی ہے کہ چھ ماہ کے اندر گواہوں کے بیانات درج کرکے نو ماہ میں فیصلہ سنا دیا جائے۔عدالت عظمیٰ نے یوپی حکومت کو سی بی آئی کے خصوصی جج ایس کے یادو کی میعاد میں توسیع حکم دیا ہے کیونکہ 30 ستمبر کووہ سبکدوش ہونے والے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والے ملزمین کو کس انجام تک پہنچاتے ہیں اور بی جے پی کی مرکزی و صوبائی سرکار انہیں بچانے میں کامیابی ہوتی ہے نہیں؟ اس میں شک نہیں کہ یہ دونوں معاملات ملک کی عدالتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1455171 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.