آدم خور درندے نریندرمودی کی باچھوں سے ٹپکتا لہو کسی
کو کیوں نظر نہیں آتا؟۔ کشمیر کی بیٹی کے سر سے ردا چھیننے والے وحشیوں کے
ہاتھ قلم کیوں نہیں کیے جاتے؟۔ ڈیڑھ لاکھ کشمیریوں کے خون سے رنگین لہو لہو
کشمیر اقوامِ عالم کے ضمیر کو کیوں نہیں جھنجھوڑتا؟۔ اپنی ہی گیارہ
قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں اقوامِ متحدہ بے بس کیوں ہے؟۔ گجرات کے
’’بُچر‘‘ کے گریبان تک اقوامِ عالم کا ہاتھ پہنچنے سے قاصر کیوں؟۔ اپنے
مفادات کی اسیر مسلم اُمہ خاموش کیوں ہے؟۔ حریت رَہنما سیّدعلی گیلانی کو
یہ کیوں کہنا پڑا کہ 54 اسلامی ممالک کا اتحاد خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا
ہے؟۔ایک بیٹی کی پکار پر ہندوستان پر حملہ آور ہونے والا محمد بِن قاسم
کہاں ہے؟۔ گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی کو بہتر کہنے
والا ٹیپو سلطان کدھر ہے؟۔ ۔۔۔ اِن سارے سوالوں کا جواب ایک، صرف ایک کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے دُرویش کو تاجِ سرِ دارا
جب کوئی قوم اپنی غیرتوں کو مصلحتوں کے گھور اندھیروں میں گُم کر دے تو پھر
مودی جیسے وحشی درندے آرٹیکل 370 اور 35-A ختم کر ہی دیا کرتے ہیں۔
وزیرِاعظم عمران خاں کہتے ہیں کہ مسلمان جارحیت نہیں کرتا لیکن اینٹ کا
جواب پتھر سے دیتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ بھارت تو جارحیت کر چکا، ہمارا
جوابی وار کہاں ہے؟۔ کیا 14 اگست کو یومِ آزادی کے ساتھ یومِ یکجہتی ٔ
کشمیر منانے سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟۔ کیا 15 اگست کو قومی پرچم سرنگوں
کرنے اوریومِ سیاہ منانے سے عالمی ضمیر جاگ اُٹھے گا؟۔ کیا جلسے کرنے اور
ریلیاں نکالنے سے ننگِ انسانیت اور مسلمہ دہشت گرد نریندرمودی پر ایک دفعہ
پھر امریکہ اور یورپ میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے گی؟۔ ۔۔۔۔ نہیں صاحب!
اُس آر ایس ایس کے جنونی نمائندے کا تو بزعمِ خویش مہذب دنیا آگے بڑھ بڑھ
کر استقبال کر رہی ہے۔ وجہ یہ کہ اقوامِ عالم کے معاشی مفادات بھارت سے
وابستہ ہیں اور وہ ننگِ انسانیت دو تہائی اکثریت کے ساتھ بھارت کا سربراہ ۔
کیا یہ اقوامِ متحدہ کے مُنہ پر زناٹے دار تھپڑ نہیں کہ اُس جنونی نے
اقوامِ متحدہ کی کشمیر کے بارے میں پاس کی گئی گیارہ قراردادوں کو جوتے کی
نوک پر رکھ کر کہہ دیا ’’وہ کام جو دیگر حکومتیں 70سال میں بھی نہ کر سکیں،
وہ میں نے 70 دنوں میں کر دکھایا۔ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کا فیصلہ
غیرمنصفانہ تھا اِسی لیے آرٹیکل 370 اور35-A کا خاتمہ کیا گیا‘‘۔ اگر لازمۂ
انسانیت سے تہی نریندر مودی کی بات درست ہے تو پھر لگ بھگ 2 ہفتوں سے
مقبوضہ کشمیر میں کرفیوکیوں، ساری حریت قیادت جیلوں میں کیوں اور گلی گلی
میں فوجی بوٹوں کی دھمک کیوں؟۔ حقیقت یہی کہ آزادی کی تحریکوں کو نہ پہلے
کبھی ظلم وجور سے دبایا جا سکا، نہ اب دبایا جا سکے گا۔ کشمیر ایک ایسا آتش
فشاں بن چکا ہے جس میں سارے ہندتوا کے پجاری جل کر بھسم ہو جائیں گے (انشاء
اﷲ)۔
وحشی مودی کے مکر کی چالیں اُلٹی پڑ رہی ہیں۔ آرٹیکل 370 اور 35-A کے خاتمے
کے بعدتحریکِ آزادیٔ کشمیر جو طویل عرصے سے عالمی بے حسی کا شکار تھی، ایک
دفعہ پھر عالمی توجہ کا باعث بن رہی ہے۔ بھارتی وزیرِدفاع راج ناتھ سنگھ کے
بقول کشمیر نیوکلیئرفلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 16 اگست کو
سلامتی کونسل کا اِن کیمرہ ہنگامی اجلاس ہواجس سے ثابت ہو گیا کہ کشمیر
بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔ اقوامِ متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے کہا
’’کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل
ہونا چاہیے۔ اِن آرٹیکلز کے خاتمے پر ہماری خودمختاری کو بھی چیلنج کیا گیا
ہے‘‘۔ داکٹر ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے اجلاس کو کشمیریوں کی پہلی فتح
قرار دیا۔ خود بھارت کی اپوزیشن اور دیگر مذہبی، ثقافتی اور ادبی شخصیات
نریندر مودی پر کڑی تنقید کر رہی ہیں۔ بظاہر تو نریندر مودی خوش کہ اُس کے
مذموم عزائم کی تکمیل ہو رہی ہے لیکن حالات کی گواہی یہی کہ مودی کی چال
اُلٹی پڑ چکی اور کشمیری ’’آزادی یا موت‘‘ کے جذبے کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے۔
مودی نے 8 لاکھ بھارتی فوجیوں کے علاوہ 30 ہزار سے زائد بی جے پی شیو سینا
اور بجرنگ دَل کے غنڈوں کو کشمیر میں بھیج کر گجرات کی تاریخ دہرانے کا
منصوبہ بنایا۔ اِن غنڈوں کو کشمیر میں لوٹ مار، قتلِ عام اور عصمت دری کا
بازار گرم کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ کشمیریوں کے حوصلے پست کیے جا سکیں
لیکن ’’جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے‘‘۔ نوجوانوں
کے ہاتھ میں آئی ہوئی تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں نئی روح پڑ چکی۔ اب ہر گھر
میں برہان مظفر وانی موجود۔ اسی لیے اکنامسٹ نے پیشین گوئی کر دی کہ مودی
حکومت کو مُنہ کی کھانی پڑے گی اور انڈیا جو چاہتا ہے، نتائج اِس کے برعکس
ہوں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ’’پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کے
ساتھ کھڑا رہا ہے۔ کشمیر کی حقیقت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ 1947ء میں کاغذ
کا ایک غیرقانونی ٹکڑا کشمیر کی حیثیت بدل سکا، نہ بدل سکے گا۔ نہ ہی کوئی
کشمیر کی حقیقت اب یا مستقبل میں تبدیل کر سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے
غاصبانہ عزائم کے خلاف کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور رہے گا۔ ہم کسی بھی
قیمت پر ظلم کے خلاف کھڑے رہیں گے‘‘۔ اُنہوں نے کہا ’’ہم کشمیری بہن
بھائیوں کے حق کے لیے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے
کیونکہ ہمارا دین امن کے ساتھ ساتھ ہمیں سچ کے ساتھ کھڑے ہونے اور قربانی
کا درس بھی دیتا ہے‘‘۔ 1989ء سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوئے
لیکن اقوامِ عالم سوئی رہیں۔ مودی کی حماقت سے اب تنازع کشمیر ایٹمی فلیش
پوائنٹ بن چکا۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل بھارت کے
سربراہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا
اظہار کرتے ہوئے ننگِ انسانیت نریندرمودی سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے
ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور کشمیری قیادت کو رہا کیا جائے۔ عالمی فلیش
پوائنٹ بننے کے بعد آزادیٔ کشمیر پر بھارت کی گرتی ہوئی دیوار کو محض ایک
دھکے کی ضرورت ہے اور وہ دھکا بہرحال پاکستان ہی کو دینا ہوگا تاکہ دینِ
مبیں کے عین مطابق یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
14 اگست کو وزیرِاعظم نے آزادکشمیر اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ
فرمایا، وہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔ اُنہوں نے کہا ’’ہماری فوج چوکس اور
قوم پوری طرح سے تیار ہے۔ بھارت کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ ہم اﷲ کے
سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ آپ جو آزاد کشمیر میں مہم جوئی کرنے اور سبق سکھانے
کا سوچ رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ آپ کو سبق سکھایا جائے۔ ممکنہ جنگ کی
ذمہ دار اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری ہو گی جس نے اپنا فرض نہیں نبھایا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال اقوامِ متحدہ کا امتحان ہے۔ کیا اقوامِ متحدہ تب
چلتی ہے جب طاقتور فیصلہ کرے؟۔ اپنا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف سمیت ہر فورم
پر لے کر جائیں گے۔ بھارتی وزیرِاعظم کو اُس کا تکبر لے ڈوبے گا۔ اُس نے
اپنا آخری کارڈ کھیل لیا۔ مگر یہ فائدہ بھی ہوا کہ مسٔلہ کشمیر عالمی سطح
پر اجاگر ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کی انفرادی حیثیت ختم کرکے
مودی نے تاریخی غلطی کر دی جس کا خمیازہ اُسے بھگتنا پڑے گا‘‘۔ وزیرِاعظم
عمران خاں نے جو کچھ کہا، وہ بجا لیکن صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا، کچھ
عملی اقدام بھی اٹھانے ہوں گے۔ پاکستان کو پوری استقامت کے ساتھ کشمیری
عوام کی پشت پر کھڑا ہونا ہوگا جس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم کشمیر کے
معاملے پر کامل قومی اتفاق پیدا کیا جائے اور ایک دوسرے پر نفرتوں کی یلغار
کی بجائے اخوت ومحبت کو عام کیا جائے۔ اگر پکڑ دھکڑ اور نفرتوں کا یہ سلسلہ
جاری رہا تو اخوت ومحبت میں پڑنے والی دراڑیں تباہیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں
گی۔ ہمیں اپنے سیاسی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ایک صفحے پر آنا ہو گا کہ
اِسی میں فلاح کی راہ ہے۔ 1965ء کی 17 روزہ جنگ جسے ہم یومِ دفاع کے طور پر
بھرپور طریقے سے مناتے چلے آرہے ہیں، اُس جنگ میں پوری قوم ایک صفحے پر
تھی۔ ان 17 دنوں میں پورے ملک میں کوئی چوری ہوئی، ڈاکہ نہ قتل۔پوری قوم
اپنے بدترین دشمن کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور
ربّ ِ کائینات کی مہربانی سے دشمن کے مکروہ عزائم خاک میں مل گئے۔ اب حالات
ستمبر 65 سے کہیں زیادہ خطرناک لیکن قومی وملّی یکجہتی مفقود۔ نَیب عجیب
وغریب اور نامعقول طریقے سے اپوزیشن رَہنماؤں کی گرفتاریوں میں مصروف۔
بدترین دشمن سے نپٹنے کے لیے حکمرانوں کوپہلے افہام وتفہیم کی فضاء پیدا
کرنا ہوگی ، سیاست بعد میں ہوتی رہے گی۔
|