یوم آزادی :لال قلعہ سے لال چوک تک

انسان خوابوں کے سہارے زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ ہر سیاستداں کا ایک خواب ہوتا ہے کہ وہ ایک لال قلعہ سے ترنگا پرچم لہرائے۔ اسی لیے بہت سارے لوگ اپنی پارٹی سے بغاوت بھی کردیتے ہیں مثلاً چرن سنگھ کو پندرہ اگست ۱۹۷۹؁ میں اس کا موقع ملا مگر ۲۶ جنوری ۱۹۸۰؁ سے پہلے ان کی سرکار گرگئی جبکہ چندر شیکھرکو ۱۹۹۰؁ میں وزیراعظم کی حیثیت سے یوم جمہوریہ منانے کا موقع ملا لیکن یوم آزادی سے قبل جون میں وہ اقتدار سے بے دخل ہوگئے ۔ اسی اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں ۔ بی جے پی کا یہ خواب بیس سال قبل شرمندۂ تعبیر ہوا جب سابق وزیر اعظم اٹل بہاری نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے قومی پرچم لہرایا۔ اس کے بعد ۲۰۱۴؁ وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ موقع ملا اورانہوں نے اس سال اٹل بہاری واجپائی کی برابری کرتے ہوئے چھٹی بار یہ اعزاز حاصل کیا ۔

بی جے پی کا ایک پرانا خواب سرینگر کے لال چوک پر پرچم لہرانے کا بھی ہے۔ اس کے لیے جن سنگھ کے بانی ڈاکٹر شیاما پرشاد مکرجی نے سرینگر کا دورہ کیا اور وہیں ان کا ان کا انتقال ہوا۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے ایکتا یاترا نکالی لیکن لال چوک کے بجائے ایک فوجی چھاونی میں جھنڈا لہرا کر لوٹ آئے۔ دفع ۳۷۰ کی منسوخی کے۱۰ دن بعدجب یوم آزادی سے دون قبل یہ خبر پھیلائی گئی کہ وزیر داخلہ امیت شاہ اس بار وہ دوسرا سپنا بھی ساکار کردیں گے ۔ اسی دوران رجنی کانت نے نیا بھارت میں مودی اور شاہ کی جوڑی کو کرشن اور ارجن کے خطاب سے نوازہ تو یہ امکان بڑھ گیا کہ جس وقت مودی لال قلعہ پر جھنڈا لہرا رہے ہوں گے تو شاہ لال چوک پر پرچم کشائی فرمائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ شاہ جی نے سرینگر تو دور اپنی پارٹی کے دفتر میں بھی جھنڈا لہرانے کے لیے جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ اپنی رہائش گاہ پر ہی اس ذمہ داری سے فارغ ہوگئے۔ شاہ جی شاید اس بات کو بھول گئے ہیں کہ پارٹی کی اصلی کمان انہیں کے ہاتھوں میں ہے۔ جے پی نڈاّ تو محض کارگذار صدر ہیں ۔ اپنی پارٹی کے کارکنان کی حوصلہ افزائی کے لیےجس طرح سونیا گاندھی نے کانگریس کے دفتر میں جاکر پرچم لہرایا اسی طرح انہیں بھی جانا چاہیے تھا ۔ گورنر ستیہ پال ملک کو شیرِ کشمیر اسٹیڈیم میں پر پرچم کشائی کرنی پڑی اور دفع ۳۷۰ کی منسوخی کے باوجود لال چوک پر حسب معمول سناٹا چھایا رہا۔

بی جے پی کو یہ توقع تھی کہ دس دن کے اندر کشمیر میں حالات معمول پر آجائیں گے اور وہ لوگ بڑی شان و شوکت کے ساتھ لال قلعہ کے ساتھ لال چوک پر جھنڈا لہرا کر اپنی پیٹھ تھپتھپائیں گےلیکن اتنی کثیر تعداد میں فوج اور اس قدر پابندیوں کے باوجود یہ ممکن نہیں ہوسکا ۔ مودی جی نے لال قلعہ پر بہت زور دے کر کہا کہ ہم نہ تو مسائل کو پالتے ہیں اور ٹالتے ہیں ۔ ۷۰ سالوں میں جو کام نہیں ہوسکا وہ ہم نے ۷۰ دن میں کردیا ۔ سچ تو یہ ہے ۷۰ سال قبل آئین ہند کی تدوین کا کام بھی مکمل نہیں ہوا تھا اس لیے دفع ۳۷۰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہندوستان میں دفع ۳۷۰ کا نفاذ ۱۷ نومبر ۱۹۵۶؁ سے ہوا ۔ اس نے اپنی عمر کے ترسٹھ سال بھی مکمل نہیں کیے کہ اچانک شب خون مار کر اس کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ وزیر اعظم نے اپنی جملہ بندی کی سہولت کے لیے اس کی عمر میں ۷ سال کا اضافہ فرما دیا لیکن چونکہ جاہل بھکتوں کے لیے ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف حق ہے اس لیے وہ حقائق کو جانچنا ضروری نہیں سمجھتے اور لال قلعہ سے بھی قوم کو خطاب کرتے ہوئے جو من میں آئے کہہ دیتے ہیں ۔
کشمیری عوام کے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ جب پورا ملک آزادی کا جشن منارہا ہوتا ہے تو ان کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے۔ کشمیر میں یاتو علٰحیدگی پسندوں کی جانب سے بند کا اعلان کردیا جاتا تھا یا حکومت کی جانب سے احتیاط کے بہانے پابندیاں لگا دی جاتی تھیں ۔ یہ سب چونکہ خاموشی کے ساتھ بغیر کسی سیاسی فائدے کی خاطر کیا جاتا تھا اس لیے عالمی تو دور قومی ذرائع ابلاغ کی توجہ اس جانب مبذول نہیں ہوتی تھی لیکن اس بار کی کیفیت مختلف ہے۔ وزیر اعظم بار بار اپنے خطاب میں دفع ۳۷۰ کے خاتمہ پر خوشی کاا ظہار کررہے ہیں جبکہ کشمیر کے لوگ اس پر سوگوار ہیں ۔ وزیر اعظم نے ایک ہفتہ قبل یہ اعلان کیا تھا کہ عید تک حالات معمول پر آجائیں گے اور لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ تہوار مناسکیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔ عام لوگ تو دور عوامی رہنما بھی نظر بندی یا جیل سے رہا نہیں کیے گئے۔ اس سال ۱۵ اگست سے ایک دن پہلے گاڑیوں کی آمدو رفت کے لیے جو معمولی سی چھوٹ دی گئی تھی اس کو دوبارہ نہایت سختی کے ساتھ پھر سے نافذکردیا گیا۔

۱۹۴۷؁ کے بعد سے ۷۲ سالوں میں پہلی بار وادیٔ کشمیر کو اس طرح ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ۔ ذرائع ابلاغ پر اس قدر طویل عرصہ تک ایسی غیر معمولی پابندی کی کوئی مثال اس سے قبل نہیں ملتی ۔ وزیر اعظم کی تقریر کو ویسے تو ساری دنیا کے لوگوں نے سنا لیکن اس میں جن کشمیریوں کی آزادی کا نام نہاد پیغام پوشیدہ تھا اس کو کشمیر کے لوگ نہ ہی دیکھ سکے اور نہ سن سکے ۔ عید کی مانند اس کے تین بعد آنے والا جشن آزادی نہایت بے رنگ رہا۔ یوم آزادی جے دن موبائل فون کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ بند ہونے کے سبب وہاں موجود لاکھوں فوجیوں اور حفاظتی دستوں کو بھی ان کے اہل خانہ مبارکباد نہیں دے سکے اور نہ وہ اس کا جواب دینے پر قادر تھے۔جس خطے میں فوج اس قدر بےیاروموددگار ہو وہاں عوام کی بے بسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ وزیراعظم تو لال قلعہ سے یہ اعلان کررہے تھے کہ کشمیریوں کو جن حقوق سے محروم کردیا گیا تھا وہ اب بحال ہوچکے ہیں مگر ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ جس طرح ملک بھر میں آزادی کا جشن منایا جارہا ہے اس کا وادی میں نام و نشان تک نہیں ہے۔ یوم آزادی کی تقریب نے اس حقیقت کو بے نقاب کردیا ہندوستان بھر کے حالات اور کشمیر کی کیفیت میں ۳۷۰ کے ہٹ جانے کے بعد بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔

کشمیر کے لوگوں کو قابو میں کرنے کے لیے اس بار غیر معمولی سختی سے کام لیا گیا ۔ تمام سیاسی رہنماوں کو گرفتار کرکے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا۔ اس سے انتظامیہ کو یہ توقع تھی کہ لوگ ڈر جائیں گے لیکن جیسے ہی جمعہ کی نماز کے لیے ذرا سی چھوٹ ملی تو مظاہرے شروع ہوگئے۔ پہلے تو وزارت داخلہ نے اس کا انکار کردیا اور بی بی سی و الجزیرہ کوغلط خبر پھیلانے کے لیے دھمکایا لیکن جب ان لوگوں نے سختی سے تردید کی تو سورا کے مقام پر ہونے والے احتجاج کا اقرار کرلیا گیا ۔ سرکاری ذرائع نےاعتراف کیا کہ۹ اگست کو سرینگر کے باہر سکیورٹی اہلکاروں پر پتھرا وہوا لیکن اس کے جواب میں گولیاں نہیں چلائی گئیں۔ یہ بات اگر درست ہے تو کیا اسپتال میں بھرتی ہونے والے زخمی خود اپنے چہرے پر چھرےبرسا کر وہاں داخل ہوگئے؟ عالمی ذرائع ابلاغ مثلاً رائٹرس، بی بی سی، دی واشنگٹن پوسٹ اور الجزیرہ وغیرہ مظاہرین کی تعداد دس ہزار بتاتے ہیں جبکہ حکومت کے مطابق یہ تعداد بیس سے کم تھی ۔ تعداد سے قطع نظرسورہ کے مظاہرے نے ڈرانے والوں کو خوفزدہ کرکےسخت انتظامات پر مجبورکردیا۔یوم آزادی پر لگنے والی پابندیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے چیف سکریٹری روہت کانسل نے عوام سے گزارش کی کہ کوئی مشتبہ شئے نظر آئے تو اس سے انتظامیہ کو مطلع کریں ۔ انہوں نے خبردار کیا کہ لوگ اپنے ساتھ اسلحہ ، بیگ ، ریڈیو یا کوئی اشتعال انگیز مادہ لے کر گھر سے نہ نکلیں اور تفتیش میں تعاون کریں ۔ اے ڈی جی پی نے منیر خان نے اعتراف کیا کہ کچھ چھٹ پٹ واقعات ہوئے جنہیں مقامی سطح پر نمٹ لیا گیا اور اس کے لیےپیلیٹ گن کا استعمال بھی ہوا۔

لال چوک پر جھنڈا لہرانا بی جے پی کے خواب و خیال کی بات ضرور ہے لیکن اس کارنامہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ۷۱ سال قبل ۱۵ اگست ۱۹۴۸؁ انجام دے چکے ہیں ۔ اس پرچم کشائی سے قبل ۲ نومبر ۱۹۴۷؁ کوپنڈت جی نے یہ عہد کرکے کشمیری عوام کا دل جیت لیا تھا کہ ‘‘کشمیر کی قسمت کا فیصلہ بالآخر عوام کریں گے ۔ ہم نے وعدہ کیا ہے اور مہاراجہ(ہری سنگھ) نے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ عہد نہ صرف کشمیر کی عوام سے بلکہ ساری دنیا سے کیا گیا ہے۔ہم اس کی روگردانی نہیں کرسکتے اور نہ کریں گے’’۔ اس غیر معمولی حکمت عملی کو چونکہ فی الحال بزدلی قرار دیا جارہا ہے اس لیے اپنے آپ کو مہاویر کہنے والے دلیر رہنما لال چوک جانے کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ہی لوگوں سے دشمنی مول لے رکھی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے عوام کو خوفزدہ کرکے ان کے گھروں میں بند کردیا گیا ہے اور وہ خود اپنے علاقوں اور گھروں میں محصور ہوگئے ہیں ۔ جواہر لال نہرو جب لال چوک پر ترنگا لہرانے کے لیے گئے تھے تو ان کے یارِ غار شیخ عبداللہ نے محبت و عقیدت کا اظہارکرتے ہوئے امیر خسرو کامندرجہ شعر پنڈت نہرو کی نذر کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ۱۹۵۳؁ میں شیخ صاحب کو اس کے باوجود جیل کی ہوا کھانی پڑی ؎
من تو شدم ، تو من شدی ، من تن شدم ، تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں ، من دیگرم تو دیگری
(میں تو ہوں اور تو میں ہوں ، میں تمہارا جسم اور تم میری روح ہو۔ اس لیے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم جدا جدا ہیں )

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452253 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.