سوشل میڈیا کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں،مگرسوشل میڈیا
نے ہماری ذہنی زندگی میں جوخرابیاں پیدا کی ہیں ان سے بھی فرارممکن نہیں۔جن
میں سے ایک خرابی یہ ہے ، کہ ہمارے معاشرہ اورخاص کرنئی نسل میں خارجی
حقائق سے لاتعلق ہوکرخوش فہمی میں مبتلاہونے کا رجحان بڑھتا جارہاہے
اورحقیقت پسندانہ انداز فکرسے ہم دور ہوتے جارہے ہیں۔لگتا ہے اب شادی بیاہ
،خوشی غمی ،کامیابی ناکامی سمیت تمام معاملات کا تعین سوشل میڈیا پر ہی ہوا
کرے گا،یہاں تک کہ جنگیں اور ملکی فتوحات بھی میدان جنگ کی بجائے سوشل
میڈیا پرہوں گی۔
کشمیر کے معاملہ ہی کو لے لیں،خارجی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر بھارت کاناحق
قبضہ اورمتنازعہ مسئلہ جسے بھارت خود اقوام متحدہ میں لے کرگیا تھا۔مگراس
سارے عرصہ کے دوران بھارت میں کوئی بھی دورحکومت یا کسی بھی سیاسی پارٹی کی
حکومت رہی ، بھارت نے اپنا الگ اورمختلف موقف اپنا یاکہ کشمیر خالصتاََ
علاقائی یازیادہ سے زیادہ دوممالک کا درمیانی مسئلہ ہے ۔عالمی برادری کواس
معاملہ میں کسی قسم کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔بھارت کبھی بھی مقبوضہ کشمیرکے
معاملہ میں کسی قسم کے بیرونی دباؤ کوخاطرمیں نہیں لایا،نہ ہی کبھی اپنے
موقف میں لچک پیداکی۔بھارت نے اپنے اس موقف کوتقویت پہنچانے اورعالمی
برادری کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھرپورسفارت کاری جاری رکھی اورمسلسل
کشمیرکے مسئلہ کودبانے اورنظراندازکرنے میں کامیاب رہا۔یہی وجہ ہے کہ آج
بیشتراسلامی ممالک کشمیرکو علاقائی یا دوممالک کا آپسی مسئلہ سمجھنے لگے
ہیں۔اب بھارت نے اپنی آخری چال چل دی ،جس کے تحت بھارت عالمی قوانین
اورکشمیرسے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں تک کی پرواہ کئے بغیر اپنے ہی
آئین سے روگردانی اوراس میں تبدیلی کے بعدکشمیرپر ناجائزتسلط کو اپنے ملک
کا اندرونی مسئلہ قراردے کر سفارت کاری کرے گا۔ہمارے فوجی اپنی جانیں قربان
کرتے رہیں گے،لائن آف کنڑول کے قریب بسنے والے شہریوں اورکشمیریوں کے ناحق
قتل کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا ۔ انتہا پسند مودی پورے بھارت میں احیاء
ہندو،ہندوستان صرف ہندؤوں کا ملک ہے، کاخواب پوراکرنے کے لئے کھل کر
اقدامات کرے گا اور پورے ہندوستان میں ساری اقلیتوں خاص کر مسلمانوں
کاجینامشکل کردے گا۔ہم صرف مکاراورچالاک دُشمن کہہ کراپنے دل کوتسلی دیتے
رہیں گے کہ ہم نے حق ادا کر دیا ۔
بھارت کا حاضرسروس افسرجوپاکستان کے اندرایک عرصہ سے دہشت گردی کا وسیع
نیٹورک چلا رہاتھا،پکڑا گیالیکن بھارت ماننے کوتیار نہیں بلکہ اُس کا کہنا
ہے کہ یہ محض اتفاق ہے کہ ہمارے افسر کوکسی تیسرے ملک سے گرفتارکرکے
پاکستان لایا گیا۔ اسی بات کو لے کراپنے ایک شخص کوبچانے کے لئے عالمی
عدالت انصاف میں گیا۔جب کہ ہم کشمیرکاز اورپاکستان سے کتنے مخلص
اوروفادارہیں،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،مسلسل اورعرصہ درازتک کشمیرکمیٹی
کے چیئرمین رہنے والے کاذکرکرنا وقت کے ضیاع کے سواکچھ نہیں،ہماری حالت یہ
ہے کہ درجہ اول کی سیاسی شخصیات پر مجاہدین کی فہرستیں مہیا کرنے کاالزام
ہے توکوئی کہتا ہے ماضی میں انڈیا میں ہونی والی دہشت گردی(ممبئی حملوں )
میں پاکستانیوں کا ہاتھ ہے،دورنہ جائیں موجودہ صورت حال پر کشمیرسے متعلق
بلائے جانے والے اجلاس کی کارروائی ہی دیکھ لیں اورکشمیرکی موجودہ حالت
پرسوالات اُٹھنے،شدید عوامی ردعمل اورتنقیدپرکہ بھارت کی طرف سے کشمیرکا
خصوصی سٹیٹس ختم کرنے سے متعلق کئے جانے والے اقدامات کسی سے مخفی تونہیں
تھے،بھارت اس حوالہ سے بیرونی دُنیا سے بھی مسلسل رابطے میں تھا ،
پھرپاکستان نے اس حوالہ سے کیوں کچھ نہیں کیا؟توجواب میں ہمارا وزیر خارجہ
کہتا ہے کہ مجھے توسرے سے اس وزارت سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ۔
آزادی کشمیر کی تحریک کیوں سراسربے نتیجہ رہی ،اس کا سبب سادہ طور پریہ ہے
کہ ہمارے سیاسی لیڈروں نے کشمیرکے مسئلہ کو نظراندازکئے رکھا،وقتاََ
فوقتاََاورحالات کے مطابق بیرونی دباؤکے تحت اپنے موقف میں نرمی اورلچک
دکھائی۔ اسی طرح کے دیگر حقائق کو نظراندازکرنے کی وجہ سے ہم منزل پرنہیں
پہنچ پائے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ منزل سے دور ہوتے گئے۔مگرآج ہم اپنے
الیکڑانک اورخوش فہم سوشل میڈ یا کودیکھیں تو لگتا ہے کہ بھارت مقبوضہ
کشمیرکے حوالہ سے اپنے حالیہ اقدام سے دُنیا بھرمیں ذلیل ورسوا ہوکررہ گیا
ہے اوریہ کہ بھارت بیرونی ممالک کا دباؤبرداشت نہیں کرسکے گا۔کل صبح نہیں
تو شام تک ضرورگھٹنے ٹیک دے گا۔نہ صرف یہ کہ کشمیریوں کے حق ِ خودارادیت کو
تسلیم کرے گا بلکہ یہاں تک مجبور ہوجائے گا کہ یہ پاکستان کا حصہ ہے اگر
کشمیری پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں توبھارت کواس پرکیا اعتراض
ہوسکتاہے۔
جبکہ حقیقت ہم سب کے سامنے ہے ،توعرض یہ کرنا تھا اگرجنگوں کے باوجودکشمیر
کامسئلہ حل نہیں ہوپایاتو ہمیں کم ازکم یہ توکرنا چاہیے تھا کہ پہلے اپنے
آپ کومعاشی اعتبارسے مضبوط کرتے ۔پاکستان کومالی طورپرمستحکم اورمضبوط کرنے
کے لئے جہاں ہمارے پاس محنت کے مواقع تھے،جیسے زراعت او رزرعی اجناس میں
خود کفیل ہونے کی کوشش کرتے،خوب صورت مناظر سے بھرے خطہ ء کو سیاحت کے لئے
فروغ دیتے، ملک کے اندر امن وامان قائم کیا جاتا،عوام کی صحت کے لئے
اقدامات اُٹھائے جاتے۔تعلیم کے شعبہ پرصحیح معنوں میں توجہ دی جاتی، عوام
کو بے شعوری کے اندھیرے سے نکال کرشعورکے اجالے میں لایا جاتا،عوام کوخوش
فہمی میں مبتلاکرنے کی بجائے سائنسی وزمینی حقائق سمجھنے والا بنایا جاتا
،اگرپاکستان مالی طورپر مضبوط اورمستحکم ہوتاتوآج حالات کچھ اورہوتے،
ہمارابیرونی دُنیا پرانحصارکم سے کم ہوتا،ہماری اقوام عالم میں کوئی حیثیت
ہوتی اور کشمیر سمیت ہمارے کسی بھی موقف کی وقعت واہمیت ہوتی ۔
مگرافسوس تواس بات کاہے کہ ہم ادھرکے رہے نہ ہی اُدھرکے ۔قدرتی وسائل سے
مالامال اس ملک کے عوام کامعیار ِ زندگی انتہائی پسماندہ ممالک سے بھی
کم۔بات کوجتنا بڑھائیں گے بڑھتی جائے گی،کہیں کی بات کہیں جاپہنچے گی۔قصہ
مختصر " کامیابی کارازیہ ہے کہ انسان اپنی ناکامی کے رازکوسمجھ لے"ہم نے
کتنا ظلم کیا،کشمیرکازکے ساتھ، اپنے آپ کے ساتھ ، اپنے ملک کے ساتھ،اپنی
آنے والی نسلوں کے ساتھ اس سے بھی بڑاظلم یہ ہے کہ ہم اپنی ناکامی کے
رازکونہیں سمجھ سکے،خوش فہمی کی رہی سہی کسرسوشل میڈیا نے پوری کردی۔ ہمارے
حکمران طبقہ سے لے کر عوام تک سب خوش فہم سوشل میڈیا کی اپنی الگ دُنیا میں
مست ہیں۔ہم سمجھتے ہیں ناکامی ، فکر اورغم کا سایہ ہماری ٹویئٹس ،ہماری
پوسٹس ،ہمارے طنزاورہمارے بلند قہقوں کے سامنے ٹھہرنہیں سکتا ۔مگردنیا
صلاحیت کی بنیاد پرکوئی مقام حاصل کرنے کی جگہ ہے۔محض خوش فہمی سے بلند
مقام ومرتبہ اورمقاصدمیں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
|