جموں کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا
بند کمرے میں اجلاس جمعہ ۱۶ اگست کو منعقد ہوا۔ اس سے قبل وزیراعظم پاکستان
عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ٹیلی فون پر بات کی تھی ۔ اس وقت صدر ٹرمپ نے
عمران خان سے کہا تھا کہ وہ ہندوستانی وزیر اعظم مودی سے بات کریں گے۔
چنانچہ۱۹ اگست کو انہوں نے وزیراعظم مودی سے گفتگو کی ۔اس ٹیلی فونک رابطے
پر وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے کشمیر سمیت دو طرفہ علاقائی
معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس بات چیت میں دہشت گردی اور تشدد سے پاک
ماحول تشکیل دینے پر غور کیا گیانیز امریکہ اور بھارت کے معاشی تعلقات اور
تجارت کو وسعت دینے کے مواقع پر بھی گفتگو ہوئی۔امریکی ترجمان کے مطابق
وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغانستان کے لیے تعاون
کی یقین دہانی بھی کرائی۔ہند وپاک کے درمیان کشیدگی سے دنیا کے اکثر ممالک
میں تشویش پائی جاتی ہے۔ سلامتی کونسل کے حالیہ بند کمرے کے اجلاس میں بھی
تمام ارکان ممالک نے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دیا۔
سلامتی کونسل کےمستقل رُکن چین کی درخواست پریہ ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا
تھا ۔ اس اجلاس کے انعقاد کو پاکستان نے اپنی سفارتی کامیابی قراردے دیا
جبکہ اس میں کسی قرار داد کے منظور نہ ہونے کو ہندوستان نے اپنی کامیابی
بتایا ۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ میچ ڈرا ہوگیا۔ کانگریس نے اسے بی جے
پی کی ناکامی قرار دیا کیونکہ ۴۸ سال بعد مودی سرکار کشمیر مسئلہ کواقوام
متحدہ میں آنے سے روک نہیں پائی۔ اس بار مستقل ارکان کی رائے منقسم تھی۔
چین اور برطانیہ پاکستان کے ساتھ تھے اور امریکہ و فرانس نے ہندوستان کا
ساتھ دیا ۔ روس نے دونوں کو خوش کرنے کے لیے بیک وقت یہ کہا باہمی گفت و
شنید کے ذریعہ (جو ہندوستان کا موقف ہے) اور اقوام متحدہ کی سابقہ قرار
دادوں کی روشنی میں (جو پاکستان کا موقف ہے) اس مسئلہ کو حل کیا جانا چاہیے۔
اس سے قبل روس اس طرح کی تجویز کو روکنے کے لیے ویٹو کا استعمال کرتا تھا۔
ویسےعام طور پر بند کمرے کے اجلاس میں کوئی قرارداد منظور نہیں ہوتی اس لیے
ویٹو کی نوبت نہیں آئی وگرنہ ممکن ہے پانچ مستقل ارکان میں سے کوئی ایک اس
کو ویٹو کردیتا۔
برطانیہ کو راضی کرنے کے لیے عمران خان نے خود اپنے ہم منصب بورس جانسن سے
گفتگو کی تھی۔ امریکہ اور فرانس کی حمایت کے لیے ہندوستانی بازار اور
تجارتی فائدے کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔ عالمی سیاست کی بساط پر ہر چال قومی
اور ذاتی مفاد میں چلی جاتی ہے اس لیے کوئی ملک یا رہنما کسی کا مستقل دوست
یا دشمن نہیں ہوتا ۔ افغانستان کے اندر امریکہ نے بغضِ سوویت یونین میں
دلچسپی لی۔ اس زمانے میں ہندوستان اور یو ایس ایس آر گہرے دوست تھے ۔
سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد امریکہ کی نیت بدل گئی اور اس نے افغانستان
پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنا شروع کردیا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب یک قطبی
دنیا میں وزیراعظم نرسمھا راو نے امریکہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کو چھپانے کے لیے جارج ڈبلیو بش کو ایک بلی کے
بکرے کی ضرورت تھی اس لیے اس نے افغانستان پر پنجہ مارا لیکن طالبان نے شیر
کی مانند اس کامقابلہ کیا۔
جارج ڈبلیوبش نے بہت جلد اندازہ لگا لیا کہ یہاں اپنی دال نہیں گلے گی اس
لیے عراق میں صدام حسین کا تختہ پلٹ کر اپنی قوم کو بیوقوف بنایا اور
دوبارہ الیکشن جیت لیا۔ یعنی جو کام اس کا سمجھدار باپ نہیں کرسکا وہ احمق
بیٹے نے کردکھایا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے بالا کوٹ کی ہوا بنا کر
انتخاب جیتنا کس قدر آزمودہ اور آسان نسخہ تھا۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی۲۰
سال قبل کارگل کا اسی طرح استعمال کیا تھا اور اس وقت صدر بل کلنٹن نے
پاکستان کے خلاف ہندوستان کی پشت پناہی کی تھی۔ اس طرح ہند امریکی تعلقات
میں ایک نیا موڑ آگیا تھا اور ۲۰ سال بعد کسی امریکی صدر نے ہندوستان کا
دورہ کیا تھا ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا۔ ریپبلکن بش کے زمانے میں سرد
مہری رہی لیکن ڈیموکریٹ اوبامہ کے آتے ہی پہلے والی گرمجوشی لوٹ آئی۔
اوبامہ نے پہلے تو عراق سے انخلاء کیا اور اس کے بعد افغانستان سے جان
چھڑانے کی خاطر منموہن سنگھ کو وہاں دلچسپی لینے پر اکسیا۔ چین کی
گھیرابندی کے لیے اوبامہ نے ہندوستان کو اہمیت دے کر افغانستان کے بکھیڑے
میں شریک کرکےاپنی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کردیا ۔
براک اوبامہ کو یہ غلط فہمی تھی کہ ہندوستان کی مدد سے اگر افغانستان
کےمعاملے کو طول دیا جائے تو کبھی نہ کبھی طالبان تھک کر بیٹھ جائیں گے ۔
اس حکمتِ عملی پر کام جاری تھا کہ مودی جی کے ہاتھوں میں زمامِ کار
آگئی۔براک اوبامہ نے نریندر مودی کو غیر معمولی اہمیت دی اور کئی مرتبہ
انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی نیز خود بھی ایک سے زیادہ مرتبہ ہندوستان کا
دورہ کیا ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑ رہا تھا
اور وہ روس کےساتھ پینگیں بڑھانے پرمجبور ہوگیا تھا ۔ اس دوران یمن میں فوج
کشی سے انکار کرکے نواز شریف نے سعودی عرب اور متحدہ امارات کو ناراض
کردیا۔ مودی سرکار نے اس کا بھرپور سفارتی فائدہ اٹھایا اور یہ حالت ہوگئی
کہ بالا کوٹ حملے کے بعد جب ہندوستان کی شرکت کے خلاف پاکستان نے بائیکاٹ
کی دھمکی دی تو اس کو نظر انداز کرکے سشما سوراج کو اجلاس میں شریک کیا گیا
۔یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستانی اثرو رسوخ کے زوال کا انتہاتھی ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مسلمانوں کی مخالفت نے ہندو احیاء پرستوں
کو باغ باغ کردیا ۔ ان لوگوں نے نہ صرف اس کی حمایت زور شور سے کی بلکہ جیت
کا جشن مناتے ہوئے آرتی تک اتاری۔ یہ کم ظرف لوگ بھول گئے تھے کہ ٹرمپ
مسلمانوں کی مخالفت کیوں کررہا ہے ؟ ٹرمپ کا نعرہ ‘سب سے پہلے امریکہ’ تھا
۔ اس نعرے کے ذریعہ وہ سفید فام لوگوں کے دلوں میں مہاجرین کے خلاف نفرت
پیدا کرکے ان کی خوشنودی حاصل کررہا تھا ۔ مسلمانوں کی مانند ہندو مہاجر
بھی اس کی مہم کے زد میں آتے تھے۔ الیکشن جیتنے کے بعد سعودی عرب کو اسلحہ
بیچنے کی خاطر ٹرمپ نے مسلمانوں کی مخالفت کم کردی لیکن ہندوستانی مہاجرین
کے خلاف اس کے اقدامات جاری رہے۔ آگے چل کر اس نے حکومت ہند کو حاصل خصوصی
تجارتی درجہ سے بھی محروم کردیا اور یہاں کی درآمدات پر ٹیکس عائد کردیا۔
ہوا کا رخ بدلنے لگا تھا اور امریکہ کی نظرکرم ہندوستان سے ہٹ کر پاکستان
کی جانب مبذول ہورہی تھی ۔ اس تبدیلی کی مندرجہ ذیل دو وجوہات ہوسکتی ہیں ۔
اول تو ‘امریکہ سب سے پہلے’ کے تحت افغانستان سے پوری طرح نکل جانا چاہتا
ہے ۔ اپنی پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ ‘‘امریکہ رفتہ رفتہ
افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلوا رہا ہے۔ گذشتہ 19 برسوں کے دوران امریکہ
افغانستان میں لڑائی نہیں بلکہ ایک پولیس مین کا کردار ادا کیا ہے’’۔ اس کی
دوسری وجہ یہ اعتراف ہے کہ طالبان ناقابلِ تسخیر ہیں ان کی فتح کو ٹال مٹول
سے شکست میں نہیں بدلا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان سے گفتگو کا جو سلسلہ
شروع کیا گیا تھا اسے سنجیدگی سے آگے بڑھایا گیا اور اب تک اس کے سات
راونڈ ہوچکے ہیں۔ طالبان سے سمجھوتے کے بارے میں صدر ٹرمپ نےاعلان کیا ہے
کہ ’’پاکستان کی کوششوں سے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر خاصی پیش رفت ہوئی
ہے‘‘۔عمران خان نے اس کی تائید میں کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ
1500 کلومیٹر طویل سرحد ہے، اور ہمسایہ ملک میں بدامنی کا براہ راست
پاکستان پر اثر پڑتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے امن اور استحکام میں
پاکستان کو سب سے زیادہ دلچسپی ہے’’۔
عمران کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ ‘‘پاکستان اور
امریکہ کے تعلقات ایک سال پہلے کے مقابلے میں بہت اچھے ہیں اور عمران خان
کی وجہ سےمزید بہتر ہوں گے’’۔ افغانستان کے حوالے سےامریکی صدر کا سب سے
اہم اعلان یہ تھا کہ ‘‘پاکستان افغان امن کے لیے بہت اہم کردار ادا کر رہا
ہے اوروہ افغانستان میں لاکھوں جانیں بچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں
انھیں وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں بہتر نتائج کے حصول کا ‘‘پورا
اعتماد ہے’’۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے معاملے کو اپنے منطقی انجام تک
پہنچانے کے لیے امریکہ کے نزدیک ہندوستان کے بجائے پاکستان زیادہ اہم ہوگیا
ہے۔ اسی لیے عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور ڈونالڈ ٹرمپ پاکستان آنے
کے لیے پر تول رہے ہیں کیونکہ امریکی اورپاکستانی قومی مفاد ات ایک دوسرے
سے ہم آہنگ ہوگئےہیں نیز اس میں ٹرمپ اور عمران کا سیاسی فائدہ بھی ہے ۔
چین چونکہ پاکستان کا سردو گرم کا ساتھی ہے اس لیے اس کو قابو میں رکھنے کے
لیے امریکہ کے نزدیک ہندوستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی
انتظامیہ فی الحال ہندوستان و پاکستان کے درمیان توازن قائم رکھنے کی پل
صراط پر رواں دواں ہے۔ |