مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ،مقبوضہ
وادی میں گزشتہ 17روز سے کرفیو ہے،اب خوراک اور اودیات ختم ہو چکی ہے ،لاکھوں
کشمیری زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ
سمیت بات چیت کرنے کے تمام ذرائع منقطع ہیں ۔یہ باتیں سب کی زبان پر ہیں،
لیکن مقبوضہ کشمیر کی وادی کی اصل صورتحال کا تاحال کسی کو کچھ معلوم نہیں
ہے ،مقبوضہ کشمیر میں پریس رپورٹرزکو جانے پر مکمل پابندی عائد ہے، جس کی
وجہ سے اصل حقائق کی جانکاری حاصل کرنا ناممکن ہے۔حقیقی صورتحال یہ ہے کہ
مقبوضہ کشمیر کی پوری وادی ایک جیل بن چکی ہے ،شاید دنیا کی یہ واحد جیل ہے
جہاں کے قیدی لاکھوں میں ہیں ،اور ان قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے
جو سلوک امریکہ نے گوانتانا موبے میں افغان طالبان کے ساتھ کیا تھا ،اور آج
وہ ہی امریکہ ان افغان طالبان سے امن کی بھیک مانگ رہا ہے ،اب مجھے پورا
یقین ہے کہ بھارت کی حکومت بھی جلد ہی ان مجاہدین سے امن کی بھیک مانگ رہی
ہو گی۔
مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوں کشمیری بیٹیوں کو اغواء کرنے کی مصدقہ اطلاعات
ہیں ،5ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کو مقبوضہ وادی سے گرفتار کرنے کے بعد
انڈیا کی مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے ،گزشتہ کئی صدیوں بعد یہ
پہلا موقع ہے کہ جب مساجد میں آذان اور نماز کی ادائیگی نہیں ہو رہی ہے ،مساجد
ویران ہیں ۔ہزاروں بچے سکولوں میں جانے سے محرو م ہیں ،صرف سرینگر شہر میں
200سے زائد پرائمری سکولز ہیں جن کی بندش پر بچے اپنے والدین سے سوال کر
رہے ہیں کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ،بچے اپنی خوراک اور چیزوں کے
بارے میں والدین سے بار بار اصرار کر رہے ہیں کہ بتائیں ہمیں دوکانوں پر
چیزیں لینے کے لیے کیوں نہیں جانے دیا جا رہا ہے ۔بچوں سمیت خواتین اور
نوجوانوں پرجسمانی اور ذہنی تشدد کیا جا رہا ہے ،امت مسلمہ کی بیٹیوں کی
عزتیں پامال کی جا رہی ہے ہیں ۔ایسے میں امت مسلمہ سو رہی ہے ،امت مسلمہ کا
ضمیر مردہ ہو چکا ہے ،مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم نے اب تک بیان بازی ہی
کی ہے ،بہت افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ الفاظ لکھ رہا ہوں کہ،سعودیہ عرب سمیت
کسی بھی ملک نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر آواز نہیں اٹھائی ۔اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم ممالک نے انڈیا کے ظلم اور مسلم ریاست پر
قبضہ کرنے کے بعد اپنی آواز کیوں نہیں بلند کی ۔تو اس کا سادہ سا جواب ہے
کہ عرب ممالک کے تیل کا ایک بڑا خریدار انڈیا ہے ،عرب ممالک کے لیے انڈیا
ایک بڑی منڈی ہے ۔جس کی وجہ سے ابھی تک عرب ممالک کی جانب سے مذمتی بیان
بھی نہیں آیا۔گزشتہ دنوں مجھے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمنار
میں جانے کا اتفاق ہوا ،سمینار کا انعقاد انسٹیوٹ آف ڈائیلاگ ،ڈویلپمنٹ
اینڈ ڈپلومیٹک سٹڈیز کے زیر اہتمام کیا گیا تھا ،وہاں پر ڈاکٹر ولید رسول
سے ملاقات ہوئی ،ڈاکٹر ولید رسول نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر کا حل بغیر جنگ
کے بھی ممکن ہے ۔مسلم ممالک اگر تین دن پٹرول بند کر دیں انڈیا کا، تو
مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے ۔
تو میں سوچ رہا تھا ہمارے حکمرانوں نے گزشتہ ستر سالوں سے مسئلہ کشمیر کے
لیے کونسی لابنگ کی ہے ،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہماری پالیسیاں کہاں سے بن
کر آتی ہیں ،اگر پاکستان گزشتہ ستر سالوں سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے
سنجیدہ اقدامات اٹھاتا تو شاید یہ مسئلہ آج مسئلہ نہ ہوتا۔دوسری بات یہ ہے
کہ مسلم ممالک سے خیر کی توقع کسی بھی معاملہ میں نہیں رکھنی چاہیے ،عرب
ممالک ان ہی ممالک کا ساتھ دیتے ہیں جہاں پر ان کے مفادات ہوتے ہیں ۔موجودہ
دور مفادات کا دور ہے ۔56لگ بگ مسلم ممالک نہ جی ایٹ میں نہ جی فور میں
ہیں۔لیبیا،عراق،شام،یمن سمیت مسلم ممالک کا کردار واضح ہے ۔مسلم ممالک خود
اندرونی و بیرونی انتشار کا شکار ہیں تو وہ دوسروں کی کیا خاک مدد کریں گے
۔مسلم ممالک کو آب چھوڑیں ،آپ دیکھیں یورپی ممالک اور اقوام متحدہ بھی اس
وقت مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر خاموش ہے ۔انسانی حقوق کی بین
الاقوامی تنظیموں نے ابھی تک مذمتی بیان بھی جاری نہیں کیا ہے ۔یہاں
پاکستان میں کسی خاتون کے ساتھ کوئی معمولی بھی واقعہ ہوگیا تو عورت مارچ
ہوتا ہے ،لیکن مقبوضہ کشمیر کی خواتین کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں ،لیکن
کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم کو ٹس سے مس نہیں ،یہ سب سو رہی ہیں ان کا
حال بھی مسلم ممالک کی طرح ہے ۔اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے ابھی تک
مقبوضہ کشمیر کے اندر ہونے والے مظالم پر کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی
ہے ۔کیا یہ دوٖغلی پالیسی نہیں ہے ۔کیا اقوام عالم کا یہ دوہرا معیار نہیں
ہے۔مسلمانوں کے خلاف اقوام متحدہ کا دوہرا معیار کب ختم ہو گا ۔دوسری جانب
مسلم این جی اوز سمیت کسی بھی امدادی ادارے کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت
نہیں دی جا رہے جو کہ انسانی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہے اس کے لیے حکومت
پاکستان کو موئثر لابنگ کرنی چاہیے ۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں آزاد حکومت کا کیا
کردار ہے ۔تو بات یہ ہے کہ آزاد حکومت کا کردار اس وقت مقبوضہ وادی میں
جاری ظلم کو اجاگر کرنے میں کافی بہتر دیکھائی دیا جا رہا ہے ۔فرنٹ لائن پر
آزاد حکومت کو رکھنا چاہیے اور رہنا چاہیے کیوں کہ مسئلہ کشمیر کے اصل فریق
کشمیری ہیں ،کشمیریوں کی خواہشات کے عین مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے
اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس وقت جو فیصلہ حکومت پاکستان نے کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق
کی خلاف ورزیوں کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے کر جائیں گے یہ انتہائی
قابل تحسین ہے ،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے کیے جانے والے
اقدامات بھی لائق تحسین ہیں ۔
|