کیا بیت گئی ۔ قطرہ پہ گُہر ہونے تک آپ بیتی ۔ ۔ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری پی

کیا بیت گئی ۔ قطرہ پہ گُہر ہونے تک
آپ بیتی ۔ ۔ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری
پیش لفظ : ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ابتدا میں انسان نے اپنے بزرگوں کی اچھی صفات ، اعلیٰ اخلاق، کردار اور واقعات کو محفوظ کیا جس کا مقصد اپنے اجداد کی عزت و تکریم اور ان کے شخصی پہلووَں ، کردار و اعمال سے اپنی آنے والی نسل کو روشناس کرانا تھا تاکہ صالح معاشرہ قائم ہوسکے ۔ آسمانی کتابوں توریت، زبور انجیل اور قرآن مجید نے بھی پیغمبروں اور ولیوں کے قصص بیان کیے ۔ انسان نے واقعہ نگاری انہی مقدس کتابوں سے سیکھی ۔ ادب کی اس صنف نے رفتہ رفتہ ایک فن کی حیثیت اختیار کر لی ۔ سوانح یا سرگزشت دوطرح کی بیا ن کی گئیں ہیں ایک وہ جن میں سوانح نگار کسی دوسرے شخص کی زندگی کے حالات اور واقعات کو ادب کی مختلف پابندیوں اور فنی نزاکتوں کے ساتھ قلم بند کرتا ہے ۔ دوسری سوانح وہ ہے جو لکھنے والا از خود اپنی زندگی کے حالات اور واقعات ، اتار چڑھاوَ، خوبیون اور خامیوں ، گناہ ثواب کو ایمانداری کے ساتھ قلم بند کرتا ہے ، یہ سوانح ’’خود نوشت‘‘ یا ’’آپ بیتی‘‘ کہلاتی ہے ۔ آل احمد سرور کے بقول ’’خود نوشت سوانح عمری کا فن محض نظارے نہیں نظر کا فن بھی ہے‘‘ ۔

آپ بیتی قلم بند کرنا ایک مشکل کام ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لکھنے والا جب یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے اب اپنی گزری زندگی کے بارے میں لکھنا ہے تو وہ عام طور پر اپنی طبعی عمر کے اس حصے میں ہوتا ہے جب وہ جسمانی اور ذہنی طور پو کمزور ہوچکا ہوتا ہے، اس کا حافظہ اس کا مکمل ساتھ نہیں دے رہا ہوتا ، بے شمار واقعات ، حادثات ، نرم گرم ، تلخ و شیریں باتیں ، ادھوری ادھوری سی اور نامکمل سے یاد رہ جاتی ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ماضی میں گزرے ماہ و سال کو وہ کچھ سے کچھ بنادیتا ہے ۔ بسا اوقات وہ کسی بھی واقعہ کو جس میں اس کی سبکی ہوئی تھی اپنی بہادری یا شان کے طور پر پیش کردیتا ہے ۔ بقول آلِ احمد سرور’’ماضی کے واقعا گزرجانے کے بعد، وہ بعد میں یاتو کچھ بڑے اور پھیلے ہوئے یا کچھ چھوٹے اور سکڑے ہوئے نظر آتے ہیں ‘‘ ۔ خود نوشت نام ہے اپنی کہانی سچائی ، غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ بیان کر نے کا ۔

اردو نثر کے بانی سرسید احمد خان نے اپنے نانا کے بارے میں ’سیرت فرید، آثار السنادید‘ لکھا کر اردو سوانح نگاری کے لیے ہموار کی جسے بعد میں الطاف حسین حالی نے باقاعدہ ایک صنف کی حیثیت دی اور نظریاتی اور اصولی طور پر سونح نگاری کو متعارف کرایا ۔ ’ حیاتِ سعدی۶۸۸۱ء ، یادگار غالب ۶۹۸۱ء اور حیات ِ جاوید۱۰۹۱ء ، حالی’ کی معرکتہ الا راء سوانح عمریاں ہیں جو اردو میں گرانقدر اضافہ ہے ۔ شبلی نعمانی نے بھی سوانحی ادب میں قابل قدر اضافہ کیا ۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کے خیال میں خود نوشت سوانح عمری کی روایت کا ّغاز انیسویں صدی کے آخری عشروں میں ہوا ۔ ۶۸۸۱ء سے قبل یہ نہیں لکھی گئی ۔ عبد الغفور نستاخ اور جعفری تھانیسری کی خود نوشت۶۸۸۱ء میں لکھی گئیں ، پتمبر سنگھ اور منشی ربگ علی خان کی خود نوشت کے علاوہ شہر بانوں بیگم کی خود نوشت بعنوان ’’بیتی کہانی‘‘ مئی ۵۸۸۱ء میں لکھی گئی، یہ اردو کی اولین خود نوشت سوانح عمریوں میں سے ایک ہے، اسے اردو کی اولین نسوانی خود نوشت کی حیثیت بھی حاصل ہے ۔ شہر بانو ریاست پاٹودی کے حکمراں خاندان سے تھیں اور رئیس ریاست نواب اکبر علی خان (۳۱۸۱ء ۔ ۲۶۸۱ء )کی دختر تھیں ‘‘ ۔ بے شمار احباب نے ادب کی اس صنف میں طبع آزمائی کی ، یہ سلسلہ اسی طرھ جاری بھی رہے گا ۔ اردو کے معروف ادیب مشفق خواجہ کے مطابق ’’اردو اگر کوئی آپ بیتی کہلانے کی مستحق ہے تو وہ خواجہ حسن نظامی کی آپ بیتی ہے‘‘ ۔ لیکن بعض دیگر شخصیات نے بھی خوبصورت آپ بیتیاں لکھی ہیں ۔ ان میں سر سید، شبلی، راش الخیری، ملا واحدی، ابولحسن ندوی، کے علاوہ دور حاضر میں مختار مسعود، احسان دانش، ممتاز مفتی، حسین احمد مدنی، عبد المجید سالک، شاد عظیم آبادی، چودھری خلیق الزماں ، نواب صدیق علی خان، فیروز خان نون، جوش ملیح آبادی، عبدالماجد دریا آبادی، مشتاق احمد یوسفی، مہندر سنگھ بیدی، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، مرزا ادیب، حاذق الخیری ، قدرت اللہ شہاب ، صہبا ساقی کے نام بڑی آسانی سے لیے جاسکتے ہیں ۔ سررضا علی کی آپ بیتی ’اعمال نامہ‘، بہترین خود نوشت ہے ۔ زہراداوَدی کی ‘گرداب کی شناوری‘ ، آلِ احمد سرور کی ’خواب باقی ہیں ‘ (۱۹۹۱ء میں علی گڑھ سے شاءع ہوئی)، یونس احمر کی ’ماضی کے تعاقب میں ‘، ڈاکٹر تصدق حسین راجا کی ’ داستان میری‘، مرزا محمد عسکری کی ’من کیستم‘، الحاج محمد زبیر کی ’کتاب زیست‘ میری رائے میں اچھی آپ بیتیاں ہیں ۔ سوانح نگاری کے موضوع پر اولین تحقیق پروفیسر ڈاکٹر شاہ علی کی ہے جنہوں نے ’اردو میں سوانح نگاری‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ۵۵۹۱ء میں لکھنوَ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔ ۵۸۹۱ء میں پروفیسر ڈاکٹر خورشید خاور امروہوی نے ’ اردو شعر کی آپ بیتیاں ‘ پر مقالہ لکھ کر جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی ۔ پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل کی پی ایچ ڈی تحقیق کا موضوع تھا ’اردو سوانح نگاری آزادی کے بعد‘، یہ مقالہ کتابی صورت میں ۷۹۹۱ء میں شاءع ہوا ۔

ڈاکٹر سبزواری کا وطن ہندوستان کا ضلع مظفر نگر (یوپی) ہے جسے اہل دانش ’مردم خیز خطہ‘ قرار دیتے ہیں ۔ اس سرزمین نے علماء ، حکما، شعرا، ادبا، سیاست داں اور اہل دانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی جن کے خیالات اور تصانیفات سے ہمارے کتب خانے مالا مال ہیں ۔ ان کی خدمات کو عالمی سطح پر معتبر حیثیت بھی حاسل ہے ۔ ان نامور ہستیوں میں مولانا اشرف علی صاحب تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، جناب محمد احمد سراوے والے، حاجی شاہ ولی اللہ صاحب، جناب زاہد حسین ، اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے گورنر، زاہد حسین کے صاحبزادے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد، جناب محمد ابصار حسین قرنی، مفتی و محدث مولانا عبد المالک صاحب، مولانا عبد الخالق صاحب کاندھلہ ، پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان، شیخ محمد ابرہیم آزاد;207; سابق چیف جسٹس، بیکانیر چیف کورٹ اور نعت گو صاحب دیوان شاعر (رئیس احمد صمدانی کے پردادا)، ڈاکٹر اسرار احمد(معروف عالم دین)، ڈاکٹر الطاف حسین قریشی (اردو ڈاءجسٹ)، جناب مبشر احمد واحدی، معروف شاعر احسان دانش جو شاعر مزدور بھی کہلاتے ہیں ۴۱۹۱ء میں کاندھلہ ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے، تابش صمدانی معروف نعت گو شاعر، کئی نعتیہ مجموعوں اور کتب کے خالق (رئیس احمد صمدانی کے چچا)، معروف ادیب ، افسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا وطن تھانہ بھون مظفر نگر تھا ۔ ڈاکٹر سبزواری میں جن کا مولد ایسی علم پرور سرزمین تھی ، علمی وادبی خصوصیات کا پایا جانا یقینی تھا ۔ آپ نے لائبریرین شپ کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ایک بڑا طبقہ اُن کا حلقہ بگوش ہے جواُن کے امتیازات اور شخصی صفات کی تکریم و تحسین میں بچھابچھا جاتا ہے ۔ ان کا تعلیمی ، تدریسی ، تصنیفی، تالیفی دور بہت شاندار اور قابل قدر ہے ۔ آپ نے سخت جدوجہد ، محنت، لگن اور جانفشانی سے علم حاصل کیا اور اتنی ہی محنت اور مستقل مزاجی سے تدوین و ترسیل علم میں مصروف ہیں ۔

ڈاکٹر سبزواری سے میرا امتیاز یہ ہے کہ مَیں جب شیرخوار تھا تو انہوں نے مجھے اپنی بانہوں میں جھولایا، کھلای، کدایا، کبھی ہنسایا اور کبھی رلایا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے خاندن نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی اور کراچی کی ایک کچی بستی بہار کالونی کو اپنا مسکن بنایا تھا، مختصر سے گھر میں کئی کئی خاندانوں نے پیار و محبت سے اچھا وقت گزارا، اُس وقت گھر مختصر لیکن لوگوں کے دل کشادہ تھے آج گھر وسیع اور عالی شان ہیں لیکن دلوں میں گنجائش ناپیدا ہوچکی ہے ۔ ان کی گود کی خوشبو آج بھی میرے وجود کا خوشگوار حصہ ہے ۔ مجھے کچھ سمجھ آئی تو اپنے خاندان کے بزرگوں کوان کی تعریف کرتے سنا، اکثر احباب اپنے بچوں کو ان کی نیک سیرت ، محبت و لگن سے حصول علم کی مثال دیا کرتے تھے ۔ میں نے گریجویشن کرنے کے بعد جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تو آپ نے میری رہنمائی اس طرح کی کہ میں باقاعدہ ان کا شاگرد بن گیا اور ان کا ہم پیشہ بھی ۔ اب میری عملی زندگی کا آغاز ہوا تو آپ نے ہی مجھے تصنیف و تالیف کی جانب مائل کیا اور میں ان کی ڈگر پر چل پڑا ۔ ۳۰۰۲ء میں قدرت نے میرے لیے پی ایچ ڈی کرنے کی راہ ہموار کی تو یہ مرحلہ بھی انہی کی زیر نگرانی پائے تکمیل کو پہنچا ۔ مَیں تقریباً ۰۵ سال سے (اب میری عمر ۰۶سال ہے) انہیں دیکھتا، سوچتا ، پڑھتا ، رہنمائی لیتا اور ان سے مسحور و متاچر ہوتا چلا آرہا ہوں ۔ ان کا مقام ہر اعتبار سے مجھ سے بلند و بالا ہے ۔ رشتہ میں وہ میرے چچا ہیں طبعی عمر میں وہ مجھ سے کہیں بڑے ہیں ، مَیں شاگرد وی استاد، تصانیف و تایفات اور ادبی عمر میں مجھ سے کہیں آگے ہیں ۔ ان سب باتوں کے باوجود ان کی اعلیٰ ظرفی تو دیکھئے کہ اپنی آپ بیتی پر مجھ جیسے ادنیٰ شخص سے اظہار خیال کے لیے اصرار کیا، مَیں نے لاکھ کہا کہ یہ میرا مرتبہ ہر ز نہیں کہ اپنے استاد کی کتاب پر پیش لفظ لکھوں لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے، آخر کار میں نے اسے اپنے استاد کا حکم تصور کیا ۔

ایک اچھا سوانح نگار وہ ہوتا ہے جو واقعات کو تاریخی ترتیب سے مرتب کرے ۔ ان کی صحت اور واقعیت کو منطق کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے انہیں سچائی، ایمانداری اور غیر جانبداری سے ادبی تحریر کے طور پر پیش کرے ۔ سبزواری صاحب نے اپنی آپ بیتی ’’کیا بیت گئی ;238; قطرہ پہ گُہر ہونے تک(تلخ و شیریں حادثات اور واقعات پر مبنی آپ بیتی) میں ایک ایسے ہی سوانح نگار ہونے کا ثبوت دیا ہے انہوں نے اپنی زندگی کے من جملہ پہلووَں کو منطق کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے سچائی، ایمانداری اور غیر جانبداری کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ آپ نے اپنی شخصیت کے حوالے سے ان واقعات اور حادثات کا ہی انتخاب کیا جو متاثر کرنے والے تھے ا ور پڑھنے والے پر مثبت اثرات رونما ہوسکتے تھے ۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ایک اچھی آپ بیتی وہ ہے جس میں لکھنے والا اپنی زندگی میں رونما ہونے والے اچھے بُرے واقعات کو جون کا تو لکھ دے ۔ اس منطق کو بنیاد بنا کر بعض سوانح نگارون نے اپنی آپ بیتی میں ایسی ایسی باتیں بھی کھلم کھلا لکھ دیں جن کو پڑھ کر انسان پانی پانی ہوجاتا ہے ۔ کتاب چھپ جانے کے بعد لکھنے والے کی گرفت سے آزاد ہوجاتی ہے اور ہر خاص و عام کی پہنچ میں آجاتی ہے ۔ ہر انسان زندگی میں کسی ہ کسی موڑ پر بعض ایسے واقعات، حادثات اورغیر اخلاقی رویوں سے دوچار ہی جاتا ہے ۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے ۔ ا’س دور میں صنف نازک کے حوالے سے کسی حادثہ سے دوچار ہوجانا عام سی بات ہوتی ہے ۔ بسا اوقات بات اس سے بھی کہیں آگے نکل جاتی ہے ۔ اس قسم کے قصے کہانیوں کا ذکر کھلے الفاظ میں کرنا، لکھنے والے کی سچائی کو تو ظاہر کرے گا لیکن نہ معلوم کتنے ہی معصوم لوگوں ، بچوں اور بچیوں پر کس قدر منفی اثرات مرتب کرے گا ۔ سبزواری صاحب نے اپنی آپ بیتی میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے ۔ غیر اخلاقی اور معیوب باتوں اور واقعات سے گریز کیا ہے ۔ یہی آپ کی آپ بیتی کا حسن ہے ۔ اگر کوئی بات لکھنا ضروری بھی سمجھا تو انہوں نے اس کے لیے شعر کا سہارا لے کراپنا مدعابیان کردیا جو ایک خوبصورت اور شائستہ طریقہ معلوم ہوتا ہے ۔

آپ بیتی لکھنے والا اپنا معیار از خود بناتا ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس کی تحریر کو اسی کی سوچ و فکر ، منطق اور فلسفہ کے آئینہ میں دیکھیں اور اس کے مطابق اسے جانچیں ۔ ڈاکٹر سبزواری مخصوس ، مذہبی سوچ اور فلسفہ رکھتے ہیں انہوں نے اپنی آپ بیتی اپنی سوچ اور فلسفہ کو بنیاد بنا کر تحریر کی ہے جس کے وہ برسون کے امین ہیں ۔ انہوں نے مبالغہ آمیزی سے کام نہیں لیا، غیر اہم باتوں سے اجتناب کرتے ہوئے راست گوئی اور سچائی کے دامن کو تھامے رکھا ۔ یہی نہیں بلکہ اپنی علمیت اور قابلیت کا رعب مشکل الفاظ استعمال کر کے نہیں ڈالا ۔ آپ کے طرز تحریر سے شخصیت کی دین داری، خیر اور فلاح کا اندازہ بھی ہوتا ہے ساتھ ہی ایک اعلیٰ درجہ کے معلم و محقق کا پیغام بمایاں ہے ۔ ڈاکٹر سبزواری کے عزیز رشتہ دار، دوست احباب اور شاگردوں کے علاوہ جو لوگ ان سے ملے ہیں ، انہیں دیکھا ،پڑھایا ان کے بارے میں سنا ہے وہ جب اس آپ بیتی کا مطالعہ کریں گے تو ان کی آپ بیتی کو ان کے نظریے اور مثبت انداز فکر کے عین مطابق پائیں گے ۔ آپ نے اپنی جفا کش زندگی، صبر ، برداشت ، ایثار، اعلیٰ اخلاق اور مثالی میزبان ہونے کا نقشہ دل نشیں انداز سے کھینچا ہے کہ کتاب پڑھنے والا داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنے عہد کے علمی وادبی ، ثقافتی ، تمدنی ، سیاسی اور تہذیبی ماحول کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا ہے ۔

ایسی نثر جس میں اشعار کی چاشنی ہو، عام نثر کے مقابلے میں پسند کی جاتی ہے ، پڑھنے میں لطف دیتی ہے، اکثر نثر نگار اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے اپنے قاری کو گدگدانے ، ہنسانے اور مزاح پیدا کرنے کے لیے اشعار کا تڑکا لگاتے ہیں ۔ اردو ادب میں محمد حسین آزاد، ابو الاکلام آزاد، نیاز فتح پوری ، مہدی افادی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی اور دیگر کئی مصنفین کی نثر شعر کی چاشن لیے ہوئے ہے ۔ اسی وجہ سے پسند کی جاتی ہے ۔ شاعری کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’شاعری کا سب سے بڑافائدہ یہ ہے کہ جو باتیں عا م حالات میں چھپانے کے قابل ہوتی ہیں شاعری میں وہ چھپنے کے قابل ہوتی ہیں ‘ ۔ آپ نے اپنی تحریر کو اشعار کے ذریعہ سنوارنے ، خوبصورت ار جاذب نظر بنانے ، زور پیدا کرنے اور قاری کے منہ کا ذائقہ خوشبو دار بنانے کی پوری کاشش کی ہے ۔ موقع محل کی مناسبت سے یا جس جگہ کوئی بات نثر می بیان کرنا مناسب نہ سمجھا شعر کا سہارا لیا ، البتہ کہیں کہیں اشعار موقع کی مناسبت سے فٹ نہیں بیٹھ رہے، اگر اس کام میں زیادہ عرق ریزی اور تلاش و جستجو سے کا م لیا جاتا تو زیادہ اچھے اشعار شامل ہوسکتے تھے ۔ آپ بیتی میں زیادہ تر اشعار معروف شعرا کے ہیں کہیں کہیں تضمین بھی کی گئی ہے یہی نہیں بلکہ انن کے اپنے اشعاربھی ملتے ہیں گویا وہ صرف نثر نگارہی نہیں بلکہ ان کے اندر ایک شاعر بھی دَبکے بیٹھا ہے جسے ان کی نثر تخلیقات نے باہر آنے سے روکا ہوا ہے ۔ ممکن ہے موقع ملنے پر وہ اپنے جوہر بھی دکھاڈالے ۔

آپ بیتی ۹۱ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب ’آغاز دواں ِ زندگی ‘ ہے جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی دور کے واقعات قلم بند کیے ہیں ۔ خاندان اور اپنے اہل خانہ کا ذکر علیحدہ علیحدہ کیا ہے ۔ آپ اپنی والدہ ماجدہ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں جنہوں نے آپ کی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے ۔ ابتدائی دور کی ملازمتوں کا مختصر ذکر ’رزق حلاو غمِ روزگار‘ کے عنوان سے کیا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون مل جانا آپ کی زندگی کا ایک اہم موڑتھا جس نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ امریکن سینٹر جولائبریری پروفیشن میں آپ کی شمولیت کا باعث بنا کے حوالہ سے اہم اور دلچسپ واقعات قلم بن کیے گئے ۔ یونیورسٹی آف مشیگن، امریکہ میں آپ نے تعلیم نحاسل کی وہاں کی کہانی تفصیل سے بیان کی ہے ۔ امریکہ میں اپنے۶ میزبانوں کا ذکر معلوماتی ہے ۔ جامعہ کراچی سے منسلک ہونا، استاد کی حیثیت سے گیارہ سال درس و تدریس کے فراءض انجام دینا اور پھر ارضِ مقدس میں ۷۲برس گزارنا، مہمانوں کی مہان نوازی کی تفصیل ، رفقاء و احباب، اساتذہ، ہم جماعت اور شاگردون کا ذکر پیشہ ورانہ انجمنوں میں اہم کردار ادا کرنے کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ جن ملکوں ، شہروں کی سیر وسیاحت و زیارت کی ان کی تفصیل دلچسپ اندز سے بیان کی گئی ہے ۔

لکھنا آپ کا محبوب مشغلہ رہا ہے بے شمار مضامین کے علاوہ تقریباً ۸۱ کتابیں تصنیف و تالیف کیں ۔ ان کی تفصیل ایک علیحدہ باب میں بیان کی ہے ۔ ۵۰۰۲ء میں آپ نے ایک کتاب ’احتساب قبل یو م الحساب ‘ تحریر کی، آپ بیتی کا آخری باب اسی موضوع سے بحث کرتا ہے ۔ سبزواری صاحب نے اپنی شریک سفر کی دینی اور علمی کاوشوں کو کتابی شکل میں ’ہماری کہانی ،میری زبانی‘ کے عنوان سے تحریر کی جو ۷۰۰۲ء میں شاءع ہوئی ۔ مکہ المکرمہ سے واپس آنے کے بعد آپ کل وقتی تصنیف و تالیف اور اشاعتی کاموں میں مشغول ہیں ، پڑھنا ، لکھنا اور چھپنا آپ کے کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ کمپیوٹر میں اس قدر مہارت حاسل کر لی ہے کہ اپنی اردو اور انگریزی کی کتابیں اور مضامین از خود کمپوز کرتے ہیں ، پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل جس کے وہ بانی چیف ایڈیٹر ہیں کی ترتیب ، تنظیم و اشاعت میں مستعدی کے ساتھ مصروف رہتے ہیں ، ملنساری و سماجی تعلقات کو برقرار رکھنے کے ماہر القادری ہیں ، امریکہ میں ہوں یا کنیڈا میں یا پاکستان میں ، مقامی احباب سے از خود میل ملاقات کا معمول روا رکھتے ہیں ، دور رہنے والوں سے ای میل کے ذریعہ پیغامات کی ترسیل میں سبک رفتاری سے کام لیتے ہیں ۔ کبھی کبھی دن میں دوبار بھی پیغامات تبادلہ ہوجاتا ہے ۔

یہ آپ بیتی ڈاکٹر سبزواری کی ۳۷سالہ زندگی کی یادوں ، ذاتی تاثرات و مشاھدات اور تجربات کی ایک حسین، دلچسپ ، تاریخی و سماجی واقعاقت کی دستاویزہے ۔ اس میں مصنف کے حوالے سے واقعات بھی ہیں تاثرات بھی، تجربات بھی ہیں مشاھدات بھی، شخصیات بھی ہیں ادارے بھی ، والدین بھی بہن بھائی بھی، شریک سفر بھی ہے بچے بھی، دوست بھی ہیں رشتہ دار بھی، استاد بھی ہیں شاگرد بھی، محبوب بھی ہیں محبان بھی ، الغرض اس آپ بیتی ’کیا بیت گئی;238; قطرہ پہ گہر ہونے تک‘ کی صورت میں ڈاکٹر سبزواری کی یادوں کی بارات چھم چھم کرتی چلی آئی ہے ۔ مکمل و اکمل ذات پروردگار عالم کی ہے ۔ انسان کی ہر تخلیق میں بہتری کی گنجائش بہر صورت موجودرہتی ہے ۔ ابھی بہت سے باتیں ، بہت سے پہلو ایسے ہیں کہ جن پر شاید والت کے باعث قلم نہیں اٹھا یا، اسی طرح ان کی شخصیت کے بعض پہلو ایسے بھی تھے کہ جن پر تفصیل سے لکھاجانا چاہیے تھا لیکن انہوں نے اختصار سے کام لیاجس کے باعث تشنگی کا احساس ہوتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی آپ بیتی کے اس سلسلے کو مزید جاری رکھتے ہوئے دوسری اور تیسری جلد مکمل کریں ۔ میری دعا ہے کہ ڈاکٹر سبزواری اسی تن دہی اور انہماک سے تصنیف و تالیف ، تحقیق و جستجو ، تدوین و اشاعت میں ورگرم ِ عمل رہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کوروان دواں رکھے اور پاکستان لائبریرین شپ کی تصنیفی و تایفی ترقی کے افق پر یوں ہی جگ مگاتے رہیں ۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
۰۳ اپریل ۹۰۰۲ء

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437944 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More