ـ"مکاتیب چاہیے ذاتی ہوں یا خواص و عوام کے، خوشی، غم
اور تلخ و شیریں یادوں کے مجموعے کا درجہ رکھتے ہیں۔بالخصوص اہل قلم کے
خطوط نہایت اہمیت کے حامل ہو تے ہیں۔ اہل قلم کے ادبی کارنامے تو سب کے
سامنے ہوتے ہیں مگر ان کی ذاتی زندگی، کوائف اور اپنے ہم عصروں سے معاملات،
ادبی روئیوں اور قدروں کے حوالے سے تاثرات، معاصرانہ چشمک،نقد و نظر،
اختلافات اور تائیدو حمایت، دستاویز او ر ادبی تاریخ بن جاتے ہیں جس سے
آگاہی ادب کے قاری کے لیے باعث طمانیت بن جاتی ہے"۔
مکاتیب اہل قلم بنام سید نصرت بخاری اٹک شہر کے اُبھرتے ہوئے نوجوان تخلیق
کار" احمد" نے مرتب کی ہے جو ممتاز صحافی و ادیب ارشاد علی صاحب کے فرزند
ارجمند ہیں ۔ احمد نادرن یورنیورسٹی سے ایم فل اُردو کے طالب علم ہیں۔اس سے
پہلے احمدگورنمنٹ کالج اٹک کے مجلے مشعل میں بھی گاہے بگائے چھپتے رہتے ہیں۔
احمد کی ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور ان کے لیے مشعل کا کام ان کے والد
نے سرانجام یوں دیا کہ جب احمد نے اپنے شعور کی آنکھ کھولی تو اُسے اپنے
گھر میں ہی اُردو ادب کی ڈھیروں کتابوں اور رسائل کی ایک لائیبریری میسر
آئی جو اُن کے والد کا علمی و ادبی اثاثہ ہے۔ احمد کو اپنی نوجوانی میں ہی
برصغیر پاک و ہند کے نامور شعراء اور ادیبوں کی تخلیقات کو پڑھنے کا موقع
گھر میں ہی میسر آیا جنکے نام ادب کے نووارد طلباء نے شاید سن بھی نہ رکھے
تھے۔ایک بار ارشاد علی کے گھر میں اور میرے دوست اقبال زرقاش بُراجمان تھے
کہ ارشاد علی صاحب اپنی لائیبریری لے گئے اور کتابیں دیکھانی شروع کیں۔
کہتے ہیں کہ یہ کتابیں میں نے احمد کو ایم اے اُردو کرنے کے لیے پڑھنے کے
لیے دیں اور دوسری طرف اشارے سے کہا کہ یہ کتابیں ایم فل اور اسکے بعد پی
ایچ ڈی کے لیے مختص کر رکھی ہیں۔
مکاتیب اہل قلم بنام سیدنصرت بخاری بحیثیت مرتب احمد کی پہلی کاوش ہے۔ایک
سو پچھہتر صفہات پرمشتمل اس کتاب کا سن اشاعت 2019ء ہے۔ جسے ناشرشاعر و
ادیب حسین امجد اور پبلشر ذوق پبلی کیشن ، اٹک شہر نے چھاپہ ہے۔اعلیٰ
پرنٹنگ اور خوبصوت طباعت کے ساتھ فلیپ کی حامل اس کتاب کی قیمت 550 روپے
رکھی گئی ہے جو نہایت مناسب ہے۔ کتاب کے ٹائیٹل پر ماہنامہ صریر کے ایڈیٹر
فہیم اعظمی کا سید نصرت بخاری صاحب کے نام ایک مکتوب چھاپا گیا ہے جسکی وجہ
سے قاری کتاب کو دیکھتے ہی بھانپ جاتا ہے کہ اس کتاب کا تعلق ادب کی کس صنف
یا قبیل سے ہے۔ جبکہ کتاب کے بیک ٹائٹل پر اسلام آباد کے معروف ادیب ، مصنف
، صحافی وکالم نگار جبار مرزا کی آراء کچھ ان الفاظ میں چھپی ہے۔ "یہ ادب
پارہ گزرے دنوں کی یاد بھی ہے ، ادب دوستی بھی اور گزرے دنوں کی تاریخ بھی۔۔۔۔زیر
نظر مجموعہ مکتوبات انتہائی اہم ادبی اور تاریخی دستاویز ہے۔ اس میں علم و
ادب اور صحافت کی نابغہ روزگار شخصیات کے خطوط قاری کے فردوس نظر بنیں گے۔۔
تاریخ پر نگاہ رکھنے والوں کے لیے اس مجموعہء خطوط میں بہت کچھ ہے"۔
کتاب کا انتسابِ اول رفتگان کے نام ہے جن میں خلد آشیاں دادا محمد یوسف،
فردوس منزلت، دادی رخمت جاں اور فردوس مکانی پھوپھی زبیدہ خاتون(جنہوں نے
مرتب کی نگہداشت اور نشوونما کے لیے لازوال ایثار سے کام لیا اور جن کی
دُعائیں زندگی کی کڑی دھوپ میں ان کے لیے سر پر مہربان بادلوں کی طرح سایہ
فگن ہیں)۔ انتساب ثانی محمد صدیق طارق جوئیہ، ڈاکٹر ٖضیاء القیوم، ڈاکٹر
سید الطاف حسیناور ڈاکٹر وحید احمد کے نام کیا گیا ہے۔
عرض مرتب میں کتاب ہذا کے مرتب کرنے سے متعلق احمد لکھتے ہیں کہ کیسے انہیں
تحقیق کا لپکا پڑا اور انہیں مکاتیب جیسے کھٹن کام کو کرنے کا خیال آیا؟
لکھتے ہیں کہ "قدیم و جدید مکاتیب مشاہیر کے مطالعہ بل خصوص والد گرامی
(ارشادعلی) کے ہم دم دیرینہ سید نصرت بخاری کی تحقیق مکاتیب مشاہیر بنام حق
نواز خان اور کپتان عبداﷲ خان کی مکاتیب عزیز کے مطالعہ سے ان کے من میں
تحقیق کی جستجو پیدا ہوئی جسکا نتیجہ مکاتیب اہل قلم بنام سید نصرت بخاری
مرتب ہو کر سامنے آیا یہ وہ پہلی ادبی و تحقیقی سیڑھی ہے"۔
کتاب کا مقدمہ معروف صحافی ، ادیب و کالم نگار جبار مرزا نے تحریر کیا ہے
جس میں وہ لکھتے ہیں کہ "یہ مکاتیب گزرے دنوں کی یاد، ادب دوستی اور تاریخ
بھی ہیں۔ بعض خطوط 1857"ء کی جنگ آذادی کی یاد بھی تازہ کر دیتے ہیں۔جیسے
غالب نے اپنے ایک فارسی خط میں جو انہوں نے 16 فروری 1862ء کو نواب علاؤ
الدین علائی کے نام لکھا جس میں وہ اپنے عزیز خاص معین الدین نواب ذولفقار
الدین حید ر خان المعروف حسین مرزا کی کسمپرسی کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ
"ناظر حسین مرزا جس کا بڑا بھائی مقتولوں میں آیا، اُس کے پاس ایک پیسہ
نہیں، ٹکے کی آمدن نہیں،مکان اگرچہ رہنے کو مل گیامگر دیکھئے چھٹا رہے یا
ضبط ہو جائے"۔ اسی طرح معروف ادیب وقار بن الہی جن پر کئی یورنیورسٹیوں کے
طالب علموں نے تحقیقی مقالے لکھے ، ان کے چند خطوط جو اس کتاب میں شامل
ہیں،اُن میں سے ایک خط جو لال مسجد آپریشن کے متعلق تھا کہ جس کی وجہ سے جی
6 کے مکینوں کی زندگی عذاب ہوگئی تھی، کا تذکرہ بھی بطور خاص کتاب کے مقدمے
میں بطور خاص کیا ہے۔
کتاب میں نصرت بخاری ۔احوال و آثار کے عنوان تلے نصرت بخاری کی علمی و ادبی
آب بیتی لکھی گئی ہے ۔مکاتیب اہل قلم بنام سیدنصرت بخاری میں مکاتیب سے
پہلے 31 مکتوب نگاروں کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔ جن میں احمد رضا،
احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد،اقبال سحرانبالوی، انیس شاہ
جیلانی، پروفیسر بشیر احمد سوز، پروین ملک، مرزا حامد بیگ، حق نواز خان،
حیدر قریشی، خالد قیوم تنولی، خاور چوہدری، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر
روئف امیر، شاکر کنڈان، ڈاکٹر شبیہ الحسن،صابر حسین شاہ بخاری ، عارف
نوشاہی، عذرا اصغر، ڈاکٹر غلام شبیر رانا، فتح محمد ملک، ڈاکٹر فہیم اعظمی،
لطیف الزماں خان،حامد سراج، محمد حمید شاہد، محمد صادق قصوری، محمد ظہیر
بدر، سید مصطفٰی علی بریلوی،ڈاکٹر نجیبہ عارف،وقار احمد آس اور وقار بن
الہیٰ شامل ہیں۔
کتاب میں صفحہ 53 سے162 میں مندرجہ بالامشاہیر کے خطوط شامل اشاعت کیے گئے
ہیں جو اُنہوں نے پروفیسر سید نصرت بخاری کے نام لکھے تھے۔جبکہ صفحہ
نمبر163 سے 175تک اُن تمام لکھے گئے خطوط کے عکس شامل اشاعت کئے گئے ہیں۔ان
تمام خطوط کے مطالعہ سے قاری کو اپنی علمی استعداد بڑھانے کا موقع بھی میسر
آتا ہے۔ کئی خطوط معلومات سے بھرپورہیں، ڈاکٹر فتح محمد ملک کے خط میں
پاکستان بننے سے قبل انتخابی نشانات کے حوالے سے بہت عمدہ معلومات دی گئی
ہے۔وقار بن الہی ، لطیف الزماں خان، محمد ظہیر بدر اور ڈاکٹر رفیع الدین
ہاشمی کے خطوط پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔کتاب مکاتیب اہل قلم بنام سید نصرت
ہاشمی مجموعی طور پر اُردو ادب اور اٹک کے ادبی حلقوں میں ایک شاندار اضافہ
ہے جونوجوان احمد کی علمی و فنی جہتوں کو نہ صرف جلا بخشے گا بلکہ اُن کے
ادبی ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کے لیے ادب میں ایک نئی راہ مرتب کرے گا۔
|