کشمیر جنت نظیر وادی بھارت کے غاصبانہ تسلط کی منہ بولتی
تصویر ہے۔ ویسے توکئی قراردادیں ،یاداشتیں کئی بار مختلف اوقات میں کئی
فورمز پر منظوری کے لیے پیش کی جا تی رہیں لیکن بدقسمتی سے ہر بار یہ ردی
کا ایک کاغذ ثابت ہوئیں۔ ایک مخصوص دن تمام انسانی حقوق کی تنظیموں میں
کشمیر کا درد جاگتا ہے پھر کروٹ لے کر کہیں گہری نیند جا سوتا ہے۔ اور پھر
وہی روایتی جملہ کانوں کی سماعتوں سے ٹکراتا ہے کہ کشمیر ایک تصفیہ طلب
مسئلہ ہے اور اس کا حل سلامتی کونسل کی قرادادوں کی روشنی میں پنہاں ہے۔
اصل میں دنیا کو کیا دوش دینا یہاں تو اپنے ہی منہ پھیر کے بیٹھے ہیں۔ مسلم
ممالک کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہویا پھر تجارتی معاہدے بھارت سے راس آگئے
ہیں۔ غرض ہر ایک کی آنکھ پر مفادات کی سیاہ پٹی جیسے باندھ دی گئی ہو۔
امن کی آشا رکھتے ہو کیوں اوروں سے تم
یہاں تو اپنوں کا حال پوچھیں تو جرم ہوتا ہے
ایسے میں مودی اور اس کے درندوں کو دور کی سوجھی اور چلے کشمیر پر قبضہ کرے
اور آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵ A کا ظالمانہ نفاذ کردیا اور ڈرپوک اتنے کہ سپریم
کورٹ کا سہارا لے کر نشانہ باندھا لیکن کشمیر کی جس نسل نے ہندؤں سے اس
آرٹیکل کو ختم کروایا تھا آج ان کی اگلی نسل کو اپنے فیصلے پر نہ صرف
پچھتاوا ہے بلکہ وہ نام نہاد جمہوریت میں آمریت کو پروان چڑھتے دیکھ رہے
ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ وہی سوچ ہے جس نے گجرات کی گلیوں کو لہو لہان
کیا، فلسطین میں یہودی آباد کاری ہو یا تازہ ہندتوا سوچ اس کی عکاس ہے۔
ایسے میں پاکستان نے سلامتی کونسل سے رجوع کیا اور ہندوستان سے تمام روابط
منقطع کرلیے ۔ کشمیر کی وادی میں خون کی ہولناک ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔
عالمی طاقتوں کی نظر میں بلا آخر قرار پایا کہ یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ
نہیں بلکہ اس سے خطے کا امن وابسطہ ہے۔
انگریز نے بھی تجارت کا بہانہ تلاش کیا تھااور ہندوستان میں ہی قیام کر لیا
اور ایسے میں بھارت کے وزیردفاع کا ایٹمی منصوبوں پر غور اور ہریانہ کے
وزیر اعلی کا یہ کہنا کہ ہندو اپنی مرضی سے کشمیر کی لڑکیوں سے بیاہ رچا
سکتے ہیں تو کی کہیں یہ وہ انگریز کی سوچ تو نہیں یا پھر مذہب کا کارڈ کھلا
کر ہندؤوں سے یہودی اپنا کام پورا کروانا چاہتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو
غوروخوض کرنا ہو گا اور اگر جلد ہی اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا تو دنیا
بھول جائے پھر امن سے تباہی کی مسافت صرف ۴ منٹ کی دوری پر موجود ہے۔ اور
پھر اتنا خون بہے گا کہ دریائے فرات کو بھر دے گا ۔کشمیر کی صورتحال کا
بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق افغانستان سے جڑتا ہے اور اسی چیز کا ہندوستان
فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن اب مسلم امہ کو ایک ہو کر کشمیر کے مسئلے کو دنیا
میں لے کر جانا ہے اور دنیا کو ثابت کرنا ہے کہ کشمیر مسلمانوں کا اٹوٹ انگ
ہے ۔
اور آخر کب تک وہ کہتے ہیں نہ کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اگر
اس کا حل جلد یا بدیر تلاش نہ کیا گیا تو خطہ ارض اس تنازعے کا تر نوالہ
ثابت ہو سکتی ہے ۔ضرورت اب اس امر کی ہے کہ تحمل اور ٹھنڈے مزاج سے اس
مسئلے کا کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے ۔اﷲ اس روئے زمین کو جنگ کی
ہولناکی سے محفوظ رکھے آمین !
|