(پروفیسرمظہر)
چارعشرے گزرنے کے باوجود ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کا دکھ سلامت، زخم ہرے اور شہیدوں
کے لہو کی خوشبو نَس نس میں سمائی ہوئی۔ وہ 16 دسمبر 1971ء کادرد میں گندھا
دن تھا جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتوں کی دھجیاں اُڑیں اور ایک
بازو کٹ کر بھارت کی جھولی میں جا گرا۔ تب یحییٰ خاں نے کہا ’’کسی محاذ سے
وقتی طور پر پیچھے ہٹ جانے کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ختم ہو چکی۔ جنگ ابھی
جاری ہے‘‘۔ لیکن اہلِ بصارت وبصیرت اور صاحبانِ فکر ونظر جانتے تھے کہ جنگ
تو ختم ہو چکی، نوے ہزار پاکستانی پابندِ سلاسل ہوچکے۔دکھوں کے جلو میں
شاعر نے کہا
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا، بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آ رہی تھی صدا، یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
مشرقی پاکستان تو ہمارا ایک بازو تھا لیکن بقول بابائے قوم کشمیر ہماری شہ
رَگ ہے۔ ایک بازو کے بغیر زندہ رہا جا سکتا ہے، شہ رگ کے بغیر نہیں۔ آج
اُسی مکار دشمن نے ہماری شہ رگ پر وار کرکے سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخ دہرانے کی
کوشش کی ہے۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے یوں تو کہہ دیا کہ ہم بہادرشاہ ظفر
نہیں، ٹیپو سلطان کی تاریخ دہرائیں گے لیکن دخترِ کشمیر سراپا سوال کہ ۔۔۔۔
کب؟۔ جب کشمیر کی ماں اپنی کوکھ کے جَنے کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر نعرہ
زَن ہوتی ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان تب دل سے ہوک اُٹھتی ہے کہ اے کشتۂ
ستم تیری غیرت کو کیا ہوا۔ جب کشمیر کی بیٹی کے سر سے ردا چھیننے والے کہتے
ہیں ’’کشمیر کی خوبصورت لڑکیوں سے بیاہ رچائیں گے‘‘ تب ابنِ قاسم یاد آجاتا
ہے جو ایک عفت مآب بیٹی کی پکار پر لبّیک کہتا ہوا ہندوستان پر حملہ آور
ہوگیا۔ جب کوئی سہاگن بیوگی کی دہلیز پر نوحہ خواں ہوتی ہے تو اُس کے نوحے
دل میں ترازو ہو جاتے ہیں۔ جب کسی بوڑھے کشمیری کی لاٹھی ٹوٹتی ہے تو اُس
کی آہ حاکمانِ وقت کو سنائی نہیں دیتی کہ وہ تو اپنے اپنے مفادات کے اسیر
ہیں۔
تحقیق کہ ذاتی اغراض فکری افلاس کو جنم دیتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی
آتا ہے جب قحط الرجال کے گھور اندھیرے قوموں کو نگل لیتے ہیں۔ وقت کی دھول
نے ہمیں بھی اُسی دَور میں پہنچا دیا ہے۔ اہلِ دل عالمِ یاس میں کہ اہلِ
سیاست کی اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ۔ نئے پاکستان میں سنہرے سپنوں کی
تعبیر معکوس۔ معیشت تباہی کے دہانے پر اور سیاسی جماعتیں باہم دست وگریباں۔
نفرتوں اور قدورتوں کے اِس موسم میں کشمیر کی بیٹی کے سر پر بھلا دستِ شفقت
کون رکھ پائے گا؟۔ پاکستان کی شہ رگ کو کو بچا پائے گا؟۔ مایوسی کفر اِس
لیے ہمیں یہ یقیں کہ آتشِ چنار سے آتش فشاں میں ڈھل جانے والا کشمیر ایک دن
ضرور آزاد ہوگا کیونکہ لاٹھی گولی اور ظلم وجور سے آزادی کی تحریکوں کو
کبھی دبایا جا سکا ،نہ دبایا جا سکے گا۔
ہمارے بزرجمہروں نے اب تک جتنے آپشنز آزمائے، وہ سب عبث، بیکار کہ آزمودہ
را آزمودن جہل است۔ اِن منصوبہ سازوں کو کون سمجھائے کہ اِس دورِ جدید میں
عالمی صداقتوں اور ابدی حقیقتوں کے اصول ناپید ہوچکے، حکمت ودانائی کو
مصلحتوں کا گُھن چاٹ چکا اور عادلوں کے افکار کی متاعِ گراں مایہ نایاب
ہوچکی۔ ہم نے اقوامِ عالم کا ضمیر جھنجوڑنے کی کوشش کی لیکن سوائے چین اور
ترکی کے کسی نے کھل کر بات نہیں کی۔ سلامتی کونسل کے اِن کیمرہ اجلاس کا
کوئی اعلامیہ جاری ہوا نہ قرارداد۔ اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر سابقہ گیارہ
قراردادوں کا حشر سب کے سامنے۔ مسلم اُمہ خاموش تماشائی، کوئی بھارت کو
ناراض کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسیرانِ مفادات کشمیر کو بھارت کا اندرونی
معاملہ قرار دیتے ہوئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرِاعظم عمران خاں سے
ملاقات سے پہلے شوشہ چھوڑا کہ اُنہیں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے
کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا ہے جس پر ہم نے شادیانے بجائے اور وزیرِاعظم کے
استقبال کے لیے ہار لے کر ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔ خود وزیرِاعظم نے کہا کہ
اُنہیں یوں محسوس ہوتا کہ جیسے وہ بانوے کا ورلڈ کپ جیت کر آئے ہوں لیکن
سارے خواب اُس وقت بکھر گئے جب نریندر مودی نے آرٹیکل 370 اور 35-A کا
خاتمہ کرکے عملی طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا۔ اب بھارت کا
وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ کہتا ہے ’’مذاکرات ہوں گے تو صرف آزادکشمیر پر‘‘
(اُس کا خیال ہے کہ مقبوضہ کشمیر تو بھارت کا حصہ بن چکا)۔ وزیرِاعظم عمران
خاں نے بھی مذاکرات کے دَر بند کر دیئے ہیں۔ اب ہمارے پاس دو ہی آپشن بچے
ہیں، ۔۔۔۔ بے غیرتی کی ’’بُکل‘‘ یا جنگ۔
تسلیم کہ جنگ کوئی آپشن نہیں، وہ تو صرف تباہیوں اور بربادیوں کی داستانیں
رقم کرتی ہے لیکن جب ساری راہیں مسدود ہو جاتی ہیں تو ایک بے مایہ چیونٹی
بھی کاٹ لیتی ہے۔ ہم تو پھر بھی انسان ہیں اور ایٹمی قوت بھی۔ کیا ہم نے
گھاس کھا کر، اپنی معیشت کو داؤ پر لگا کر، اپنے اوپرمعاشی پابندیاں لگوا
کر اور عالمی دہشت گرد امریکہ کی ناراضی مول لے کر ایٹم بم اِس لیے بنایا
تھا کہ بقول چودھری شجاعت حسین اِسے شب برات پر پھلجھڑیوں کی جگہ استعمال
کریں گے؟۔ ایٹمی قوت اور میزائل ٹیکنالوجی میں ہم بھارت سے کہیں آگے ہیں۔
بھارت کے پاس ایک سو چالیس اور پاکستان کے پاس ایک سو اسی ایٹم بم ہیں۔
ہماری میزائل ٹیکنالوجی کی پوری دنیا معترف اور عسکری قوت جذبۂ شوقِ شہادت
سے سرشار۔ افواجِ پاکستان کو رَبّ ِ لَم یَزل کا یہ فرمان اَزبَر ’’شہید کو
مردہ مت کہا، وہ زندہ ہے اور اپنے رب کے ہاں سے خوراک حاصل کرتا ہے
(مفہوم)‘‘۔ ہمارے سربکف مجاہدوں کو حضورِاکرمؐ کا یہ فرمان بھی یاد کہ وقتِ
شہادت شہید کو اُتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی ایک چیونٹی کے کاٹنے سے۔ پوری
قوم افواجِ پاکستان کی پُشت پر کھڑی کٹ مرنے کو تیار۔ وزیرِاعظم آزادکشمیر
راجہ فاروق حیدرسیز فائر لائن عبور کرنے کا اشارہ بھی دے چکے، بس حاکمانِ
وقت کے اشارۂ ابرو کا انتظار لیکن وہ عالمی عدالتِ انصاف جانے کی تیاریوں
میں مصروف۔ اگر عالمی عدالتِ انصاف نے کشمیر کے مقدمے کی سماعت میں ڈیڑھ دو
سال گزار دیئے تو پھر فیصلہ پاکستان کے حق میں آنے کے باوجود بہت دیر ہو
چکی ہوگی کیونکہ تب تک بھارت آبادیات کا تناسب تبدیل کرکے مقبوضہ کشمیر میں
استصواب رائے کے لیے تیار ہو چکا ہوگا۔ اِس لیے آپشن تو بس ایک اور
کشمیریوں کے لہو کی پکار بھی ۔۔۔۔ جنگ، صرف جنگ۔
لازمۂ انسانیت سے تہی وحشی درندہ نریندر مودی یہ سمجھتا ہے کہ اقتصادی
وسیاسی بحران کا شکار پاکستان جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اِسی لیے وہ
بڑھکیں مارتا ہوا کہتا ہے ’’جو کام دوسرے لیڈر ستّر سالوں میں نہ کر سکے،
میں نے ستّر دنوں میں کر دکھایا‘‘۔ ہمیں گجرات کے اِس ’’بُچر‘‘ کو بہرحال
غلط ثابت کرنا ہوگا۔ تحقیق کہ ظالم بزدل ہوتا ہے اور مودی سے بڑھ کر کوئی
ظالم ہے نہ بزدل۔ اُسے یاد دلانا ہوگا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے بھارتی
وزیرِاعظم راجیوگاندھی کے کان میں یہ کہا کہ پاکستان ایٹم بم بنا چکا ہے
اور کسی بھی بھارتی جارحیت کی صورت میں پاکستان ایٹم بم چلانے میں ایک لحظہ
بھی تاخیر نہیں کرے گاتو وہاں موجود ہر شخص نے راجیو گاندھی کی لرزتی
ٹانگوں کا مشاہدہ کیا۔ بزدل مودی کو جب یہ یقین ہو جائے گا کہ برِصغیر
ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے تو وہ شانتی شانتی پکارنے لگے گا۔ بس اُسے یہ
یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر پر ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے اور اگر یہ جنگ
چھڑ گئی تو پھر بھارت کی داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
بھارتی عام انتخابات کے دوران وزیرِاعظم عمران خاں نے کہا تھا کہ نریندر
مودی انتخابات جیت گیا تو کشمیر کا مسٔلہ حل ہو جائے گا۔ کیا وزیرِاعظم
صاحب کو نریندر مودی کے عزائم کا واقعی پتہ نہیں تھا؟۔ وزیرِخارجہ شاہ
محمود قریشی تو کہتے ہیں کہ اُنہیں بھارتی عزائم کی بھنک پڑ چکی تھی اور وہ
اقوامِ عالم کو اِس سے اآگاہ بھی کر چکے تھے۔ ا گر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے
وزیرِاعظم صاحب نریندرمودی کے انتخاب جیتنے کی صورت میں کشمیر کے اِسی حل
کی طرف اشارہ کر رہے تھے؟۔ اگر مطلوب ومقصود یہی تھا (ہمیں یقین کہ ایسا ہر
گز نہیں) تو پھر ہمیں بے غیرتی کی چادر تان کر سو جانا چاہیے۔
|