یورپ پرکئی صدیاں ایسی گزری ہیں جب ،،وہی قاتل ہیں، وہی
منصف وہی مخبرٹھہرے،،کاتاریک دورتھا۔ہرملک میں جا بجاایسی عدالتیں قائم
تھیں جنہیں احتساب عدالتیں کہاجاتاتھا۔ حکومتوں کے کارندے گلیوں گلیوں
دندناتے پھرتے اورجس کی گفتگو،چال ڈھال یاحرکات وسکنات سے انہیں ذراسابھی
شک ہوتاکہ یہ حکومت وقت کے مفادات کے خلاف کام کررہاہے ، اس کالہجہ بادشاہ
کیلئے توہین آمیزہے،یہ احتساب عدالت کے ججوں کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتاہے
تواسے اٹھالے جاتے اوروہ ایک طویل عرصے تک منظرسے غائب ہوجاتا۔نہ اس کے
رشتے داروں کواس کاکچھ علم ہوتانہ دوستوں کو۔اس سارے عرصے میں اسے خفیہ طور
پرایک بھیانک تفتیش کے عمل سے گزرناپڑتا۔
قیدمیں لوگوں سے دوراس شخص کومخصوص جلادوں کے حوالے کیاجاتاجواقبال جرم
کروانے کے ماہرتھے۔ان کے ظلم،تشدد کے طریقے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں تہہ
خانوں میں قیدیہ شہری دنوں روشنی کوترستے اورتہہ خانے کی بدبوانہیں بدحواس
کردیتی۔ مسلسل کیڑے مکوڑے اوربڑے بڑے چوہے ان پرحملہ آورہوتے۔اکثراوقات
انہیں دیوارکے ساتھ باندھ کرکھڑا رکھا جاتایاپھرسینے پربھاری پتھر رکھ
کربوجھ تلے لٹادیاجاتا۔جلاد باری باری ان افرادکواقبال جرم کروانے
کیلئےاپنی زورآزمائی کرتے ۔1631ءمیں ایک عورت کواقبال جرم کے دوران صرف ایک
دن کیلئےجس تشددسے گزناپڑااس کی تفصیل اس قدرخوفناک ہے کہ پڑھتے پڑھتے دل
دہلنے لگتاہے اورآنکھوں کےسامنےاندھیراچھاجاتاہےاورآنسوؤں پرقابورکھنامشکل
ہوجاتاہے۔
یہ عورت حاملہ تھی۔ سب سے پہلے اسے شکنجے میں کس دیاگیا۔کسنے پربھی اس نے
اقبال جرم نہ کیاتواسے دوبارہ کساگیا۔ اس دوران اس کے ہاتھ باندھے گئے، بال
کاٹ دئیے گئے اورسرپر برانڈی ڈال کرآگ لگادی گئی۔پھرجلادنے اس کی بغلوں میں
سلفرڈالی اورآگ لگادی۔اس کے ہاتھ پیچھے باندھ دئیے گئے،اسے چھت تک بلند
کردھڑام سے نیچے پھینکاگیا۔یہ عمل کئی گھنٹوں تک کیاگیاپھرجلاداوراس کے
ساتھی کھاناکھانے چلےگئے۔واپس آنے پرتازہ دم جلادنے پھراس کے ہاتھ پشت
پرباندھے، اس کی کمرپربرانڈی چھڑک کرآگ لگائی،زخمی پیٹھ پردیرتک بھاری بوجھ
لادا گیا،پھردوبارہ شکنجے میں کساگیا،اسے ایک کیلوں والےتختے پر لٹاکرچھت
تک اوپراٹھاکرپٹخاگیا۔اس کے پائوں باندھے گئے اوران کے ساتھ پچاس پا
ؤنڈکاوزن لٹکادیاگیا۔ جلادکا مقصد پورانہ ہواتواس کے پائوں شکنجے میں اتنے
زورسے کسے گئے کہ ناخنوں سے خون نکلنے لگا۔پھراس کے جسم کو مختلف سمتوں میں
کھینچااورلوہے کے اوزاروں سے نوچاگیا۔اس سب کے بعداسے ہاتھوں سے باندھ
کرچھت سے لٹکادیا گیا اورایک آدمی کومسلسل چابک سے مارنے
پرمامورکیاگیا۔آخری چھ گھنٹوں میں اسے مسلسل شکنجے میں کس دیاگیاتاکہ وہ
اقبال جرم کرے۔یہ صرف ایک عورت کے ایک دن کی رودادہے جواب تاریخ کاحصہ ہے۔
اگرآپ ان آلات کودیکھیں جوان تفتیشی جلادوں کے زیراستعمال تھےاورآج عجائب
گھروں کی زینت ہیں توتشدداوربربریت کی کتنی داستانیں آپ کی آنکھوں کے
سامنےعیاں ہونے لگیں گی۔انگوٹھے کسنے والا آلہ،ناخن کھینچنے کازنبور،سرخ
گرم سلاخیں، کیلوں والے تختے،زنجیریں،شکنجے،تابوت جن کے اندرچاروں طرف
چاقولگے ہوتے اوران میں مجرم کوپھینک کربندکر دیا جاتاتاکہ اس کاپوراجسم
چھلنی ہوجائے۔
اس سب کے بعداقبال جرم کرنے والے مجرموں کواپنی مرضی کی عدالتوں میں پیش
کیاجاتا۔یہ جج حکمرانوں کی مرضی اور منشاکے مطابق ان کرسیوں پر سرفرازہوئے
تھےاس لیے وہ سزا دینے کیلئے صرف اقبال جرم کودیکھتے،نہ دلیل نہ گواہ، سزا
سنا دی جاتی اورمجرم کوملک وقوم کا غدار قرار دیکرکیفرکردارتک
پہنچادیاجاتا۔یہ جج کبھی مجرم سے یہ سوال نہ کرتے کہ تمہیں تشددکا نشانہ
تونہیں بنایاگیا۔لوگ مہینوں بلکہ سالوں غائب رہتےمگرکوئی یہ نہ پوچھتاکہ
انہیں کیوں پکڑاگیا،کیسے پکڑا گیا،کب پکڑاگیا،ان کاجرم کیاتھا۔ایسے ہی جج
اورایسی ہی عدالتیں حکمرانوں کواچھی لگتی تھیں کہ اس سے ان کارعب قائم
ہوتاتھا،مخالف قابو میں آتے تھے اورجس کوجب چاہاغداری،شیطانیت اورملک دشمنی
کا الزام لگاکرپکڑا،غائب کیا، اس پرتشددکیاجومان گئے انہیں عدالت سے
سزادلوادی اورجونہ مانے وہ منظرسے ایسے غائب ہوئے کہ کسی کوان کی خبر تک نہ
ہوسکی۔
جلاد،تفتیشی اورعدالتوں کایہ گٹھ جوڑآپ کوتاریخ میں ہراس ظالم حکمران کے
دورمیں ملے گا جس کے خلاف لوگ ایسے اٹھے کہ ان کے عبرتناک انجام کومثال
بنادیاگیا۔یورپ کے جس ملک کی کہانی میں نے بیان کی ہے وہ فرانس تھاجس کے
انقلاب کی داستان آج بھی ظالموں کے سامنے سنادی جائے توان کی ٹانگیں کانپنے
لگتی ہیں۔بادشاہ،جلاد،جج یابادشاہ کے وفادار فوجی سب کی گردنیں لوگ ایسے
کاٹ رہے تھے جیسے پکی ہوئی فصل درانتی سے کاٹی جاتی ہے یاقصائی اپنے بغدے
سے کسی بکری کے بچے کی گردن کوتن سے جداکردیتاہے۔
ایسے ہی جلاد،ایسے ہی تفتیشی اورایسی ہی عدالتیں زارِروس اورشاہ ایران کے
زمانے میں بھی موجود تھیں بلکہ ظلم وزیادتی اورتشددکے نئے طریقے ایجادہو
چکے تھے۔بڑے بڑے اونچی دیواروں والے قیدخانے بن گئے تھے۔تشددکے
جدیدہتھیارآگئے تھے ۔ٹارچرکے نئے طریقے دریافت ہوگئے تھے مگربادشاہ
یاحکمران وفاداری کاحلف اٹھانے والے جج ایسے ہی تھے،روسی عدالت ہویاایرانی
دادگاہ سب ایک ڈھنگ میں آنکھوں پرپٹیاں باندھ کر فیصلے سناتی تھیں۔دنیا میں
ان تینوں انقلابوں کی کہانیاں زبان زدعام ہیں اورظلم وتشدداوربربریت کی
تاریخ میں ایک بات مشترک ہے کہ ان سب نے اپنے تشددکوروااوراپنے ظلم کو جائز
بنانے کیلئے اپنی مرضی کی عدالتیں قائم کیں اورمرضی کے جج مقررکیےپھربادشاہ،
فوج اور عدالت کاایک ایساگٹھ جوڑبناکہ لوگوں کوسانس لینامشکل ہوگیا۔
ایسے حالات میں ان طوفانوں نے جنم لیاجسے کبھی فرانس کے بادشاہ نے،روس کے
زارنے اورایران کے شاہ نے سوچاتک نہ تھا۔ یہ سب توفقط ایک دن پہلے تک خوش
گپیوں میں مصروف تھے،کاسہ لیسوں کے تبصرے سن رہے تھے کہ سب ہمارے کنٹرول
میں ہے،رٹ قائم ہے،لوگ خوفزدہ ہیں فوج ساتھ ہے،عدالتیں قابو میں ہیں۔تاریخ
بتاتی ہے کہ یہ تبصرے کرنے والے رنگین ماحول میں روشنیوں کے جلومیں تبصرے
کررہے تھے اورباہرکھولتے ہوئے ہجوم کی صورت موت ان کاانتظارکررہی تھی۔نہ
فوج انہیں بچاسکی،نہ جلاداورنہ ہی عدالتیں،سب اس سیلاب میں خس وخاشاک کی
طرح بہہ گئے۔
سفاک مودی کی حالیہ حماقت کے بعدوقت بڑی تیزی کے ساتھ کشمیرمیں ایسے ہی
چوتھے انقلاب کی طرف بگٹٹ بھاگ رہاہے جہاں مظالم کی کہانیاں پہلے تینوں
انقلاب سے کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ایک لاکھ سے زائدجانوں کی قربانی،ہزاروں
بیٹیوں اوربہنوں کی عصمت دری،سینکڑوں افرادکی اجتماعی قبریں اورہزاروں کی
تعدادمیں نوجوان جنہوں نے زندان کوآباد رکھاہوا ہے،کشمیرمیں آزادی کے
انقلاب کی تاریخ رقم کررہاہے۔پچھلے مودی دورمیں شہید کئے گئے افرادکی چیخ
وپکار اب عالمی ایوانوں میں بھی سنائی دینے لگی ہیں۔مزیدقابض فورسز کی
آمدبھی کشمیر کے ابترحالات کوکنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اورصہیونی
پروگرام پرعملدرآمدکروانے کیلئے بے تحاشہ ظلم وستم توڑ رہی ہے۔بھارتی فوج
بلاناغہ کشمیریوں کو شہیداورشدید زخمی اور سینکڑوں کونامعلوم مقامات
پرعقوبت خانوں میں تشددکررہی ہےلیکن کشمیری نوجوان پھربھی آزادی کی شمع
کوروشن رکھنے کیلئے اپنےلہوکانذرانہ پیش کررہے ہیں۔
اس تحریک کوسبوتاژکرنے کیلئے بھارت ایک دفعہ پھرچھتی سنگھ پورہ یاپلوامہ
جیساکوئی خطرناک واقعہ سرزدکرکے کشمیریوں کی اس تحریک کوبدنام کرسکتا ہے۔اس
لئے بہت ضروری ہے کہ عالمی برادری کونہ صرف خبردارکریں بلکہ کشمیریوں
پرہونے والے مظالم کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ فوری طورپرایک کمیٹی تشکیل
دیکر اس جنت نظیرجس کو بھارت نے اپنے مظالم سے جہنم بنادیاہے،کشمیرروانہ کی
جائے۔
تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہو نے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لو گوں کے مقا بل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا |