شرعی کرنسی یا لیگل ٹینڈر =معاشی ترقی؟؟

اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں " کرنسی" یا " زر" ہمیشہ سونے یا چاندی کے سکے ہوا کرتے تھے۔اللہ تعالے نے جب کرنسی کا ذکر قرآن میں کیا ہےتو سونے سے بنے دینار اور چاندی سے بنے دراہم کا ذکر کیا ہے۔اس کرنسی کو شرعی زر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شریعت نے اس کے ساتھ لین دین کے کئی معاملات کا تعلق جوڑ دیا ہے مثلاً زکوت، مہر ، حدود وغیرہ۔

جدید معاشی نظام سے پہلے جب لوگ آپس میں تجارت کرتے تھے تو وہ جغرافیہ کی حدود سے آزاد تھے۔ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے سونے اور چاندی کے سکے وہاں وزن کے حساب سے قبول کیے جاتے تھے۔لوگوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا تھا۔۔ ایسا ممکن نا تھا کہ امریکہ میں بیٹھا کوئی بینکر ہندوستان کی پوری قوم کو غلام بنا لے۔اس کے علاوہ یہ بھی ممکن نا تھا کہ افغانستان میں بیٹھا کوئی شخص اگر تجارت کرے تو یورپ میں بیٹھا کوئی شخص اپنا حصہ نکال لے۔

۔یعنی تجارت حقیقی دولت میں کی جاتی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ لوگ حکومتی دھوکوں سے سے بھی آزاد تھے اگر کوئی حکومت یا بادشاہ منڈی میں دولت لانا چاہتا تھا تو اسے سونا یا چاندی کہیں سے ڈھونڈ کر لانا پڑتا تھا ایسا نا تھا کہ بےدریغ کرنسی اٹھا کر مارکیٹ میں ڈال دی جاتی جس سے روپے یا ڈالر وغیرہ کی قیمتیں ایکدم متاثر ہوجاتیں جس کی سزا عوام کو بھگتنی پڑتی۔۔

۔اسلامی نظام معیشیت میں "زر" کی قدر اس کے اندر ہونی چاہیے چاہے وہ کوئی بھی جنس ہو سونا، چاندی، گندم، کھجور وغیرہ۔موجودہ دولت یعنی کاغذی کرنسی کا اسلام کے نکتہ نظر میں رسیدوں سے زیادہ کا درجہ نہیں اور رسیدوں کو بطور زر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

کیونکہ اس کے استعمال سے غرر (دھوکہ یا گھپلا) لازمی ہوتا ہے۔ جس کی اسلام میں ممانعت کی گئی ہے۔رسید اگر دو بندوں کے درمیان نجی معاملہ ہو وہاں تک تو ٹھیک ہےلیکن اس رسید کو تیسرے یا چوتھے بندے کے ہاتھ بیچ نہیں سکتےجب تک اس مال پر قبضہ نا کرلیا جاے جس کی یہ رسید نمایندگی کرتی ہے۔

اس دور میں کرنسی کو دشمن ملک کی معیشیت تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔دشمن ملک آپ کی کرنسی کو چھاپ کر منڈی میں لے آتا ہےتو آپ کے ملک میں کرنسی زیادہ ہوجاتی ہے جسکی وجہ سے اسکی قدر میں کمی ہوجاتی ہے ملک کا پیسہ الگ تباہ ہوتا ہے۔
لیکن اس نظام میں یہ ممکن نہیں جہاں کرنسی سونے اور چاندی سے بنی ہو کیونکہ دشمن کو آپ کی کرنسی بنانے کے لیے بھی سونا اور چاندی ضرورت ہوگی۔لہذا دنیا کا طاقت ور معاشی نظام ایک ایسا نظام ہوسکتا ہے جس میں کرنسی کہ قدر میں کمی نا ہو یعنی کرنسی کی اصل قدر اسی کے اندر ہو۔۔

۔جبکہ مغربی نظام معیشیت میں حکومت کو یہ کھلا اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی شے کو "زر" قرار دے سکتی ہےلہذا دنیا کہ تمام ممالک کے آئین میں یہ دستور درج ہے کہ کاغذی نوٹ زر ہے اور اس کو چھاپنے والے صرف مرکزی بینک ہونگیں۔۔اگر کوئی شخص اپنے ملک کی کرنسی لینے سے انکار کرے تو حکومت اس کو مجرم قرار دے کر سزا دے سکتی ہے اس کے برعکس اسلام میں کوئی زر قانونی نہیں ہے ۔ناہی اسلامی حکومت زبردستی مجبور کرسکتی ۔

۔بغیر محنت کرنسی تخلیق کرنے کا حق صرف بینکوں کے پاس ہے جبکہ محنت مشقت کرکے قرض اد اکرنے کی زمےداری عوام کے کندھوں پر آجاتی ہے۔ اگر عوام قرض نا لیں تب بھی حکومت کا لیا گیا قرض عوام کو اتارنا ہوتا ہے کیونکہ حکومتی قرض واحد قرض ہے جسے لینے والا کوئی اور بھرنے والا کوئی اور ہوتا۔

کہا جاتا ہے کاغذی کرنسی دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ ہے ۔مشہور ماہر معاشیات " جان مینارڈ کینز کے مطابق مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی سے عوام کی ایک بڑی دولت قبضے میں لے لیتی ہے۔یہ طریقہ اکثریت کو غریب کردیتا ہے لیکن چند لوگ امیر ہوجاتے ہیں۔۔

۔1927ء میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ سٹیمپ ( جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔.. اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو۔

بنجمن ڈی اسرائیلی نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کے عوام بینکاری اور مالیاتی نظام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔

روتھسچائلڈ نے 1838 میں کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔ پھر مجھے پروا نہیں کہ قانون کون بناتا ہے۔۔
گوکہ فی الوقت یہ ایک ناقابل عمل کام لگتا ہے۔۔لیکن کیا یہ درست نہیں کہ گرتی معیشیت کو سنبھالنے کا اس سے بہتر کوئی زریعہ نہیں کہ شرعی زر واپس بحال کیا جاے مگر کیسے؟؟؟
 

Kiran Khan
About the Author: Kiran Khan Read More Articles by Kiran Khan: 16 Articles with 20514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.