یہاں بات زرا مختلف تھی اور حامد کے لیے نئ بھی تھی کہ
اُس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اُس نےصرف دوستی رکھنی ہے اور شادی کا کوئ ارادہ
نہیں مگر خاتون بضد تھی کہ حامد کے شادی شدہ ہونے کے باوجود وہ اُسے پسند
کرتی ہے اور اُسے ایک دو دفع دیکھ بھی چکی ہے اور اچھی طرح جانتی ہے جبکہ
حامد نے نہ دیکھا نہ کبھی آواز سُنی اور پھر بھی وہ آہستہ آہستہ نہ نہ کرتے
بھی اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا
اب یہ تصور کا جادو تھا یا تجسس کی کارستانی تھی کہ بنتا جارہا تھا محبت کا
افسانہ یا ایک ادھوری کہانی تھی
چلتے چلتے یونہی کوی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے
کہ فسانہ بن گئ ہے میری بات چلتے چلتے
یا دونوں کا اپنے اطراف کی پابندیوں کے اُصولوں سے روگردانی یا یوں ہی محبت
کی باتوں کی روانی میں آیا تلاطم اور طغیانی بہرحال ایک برقی رشتہ وجود میں
آچکا تھا جو قریبی رشتوں کی دوری کا سبب بن رہا تھا اور اُن دونوں کو اور
زیادہ قریب کر رہا تھا اور جیسے اُنہیں ایسی محبت کبھی نہ ملی ہو
دیکھا جاۓ تو نہ یہ کوئ بچپن ساتھ گُزارنے کی کوئ یاد نہ پڑوس نہ رشتہ بس
ایک موبائل کی key سے پیدا ہوتی ایک برقی لہر رات کے دوسرے پہر دل میں
اُٹھتی خیالات کی نہر اور اُس کا سحر
لیکن ایک مضبوط رشتے کی ڈور میں بندھ جانا جس کو برقی رشتہ کا نام دیا
جاسکتا ہے
عورت کا حُسن تو کشش رکھتا ہے مگر کیا عورت کا تصور اور خیال بھی اتنا
طاقتور ہوسکتا ہے کہ کسی کے وجود کو مسحور کر دے بلکہ ایک خاص سوچ میں
محصور کر دے اور وقتی طور پر مسرور کر دے اور پھر وصل نہ پا کر مغموم کر دے
اور دیکھنے والوں کی نظروں میں مزموم کر دے
ایسے گرداب میں پھنستے لوگوں کو وہ دیکھ چُکا تھا اور اُن کی دیوانگی کا دل
ہی دل میں تمسخر اُڑاتا تھا اور اب وہ خود اس بھنور میں پھنس کر بے بس گھوم
رہا تھا اور تصور میں اُن ہاتھوں کو چوم رہا تھا جو نظر بھی نہ آیں نہ آواز
نہ تصویر بس ایک محبت بھرا پیغام اور وہ بھی بے نام اور ایک عشق ناکام مگر
برقی رشتہ نہ صبح دیکھے نہ شام اور بظاہر رشتے میں دوام اور نہ کوئ منطق نہ
انجام
حامد نے یہ بھی محسوس کیا کہ جمیلہ اپنے گھر والوں کو بھی اعتماد میں لے
چکی ہے اور اس سے اس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوتا جبکہ وہ تو اہنے خاندان
میں نام تک نہیں لے سکتا تھا
اسی طرح موبائل میسیج کا سلسلہ جاری رہا اور عقل سے عاری رہا اور عشق دونوں
پر طاری رہا اور برسوں کے رشتوں پر ہاوی رہا کہ ایک دن حامد کو کاروباری
سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑا جو وہ اکثر جایا کرتا تھا اور ایک صاحب کے
پاس جا کر ٹھیرتا تھا جن سے کاروباری لین دین تھا
اس بار جیسے ہی وہ اُن کے گھر میں داخل ہوا تو موبائل پر اُس نے اُسے لڑکی
کا پیغام پڑھا
آخر آہی گۓ آپ ہمارے گھر !!!
جاری ہے |