یوم قرارداد پاکستان کے حوالے سے
خصوصی مضمون
انیس سو اکتالیس کی بات ہے جب قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کے سالانہ
اجلاس منعقدہ مدراس میں شرکت کر کے واپس جاتے ہوئے ایک قصبے سے گزر رہے
تھے،قصبے کے لوگ اپنے ہر دل عزیز قائد کے استقبال میں سڑک کی دونوں جانب
جمع تھے اور والہانہ انداز میں”پاکستان زندہ باد،قائد اعظم زندہ باد “ کے
نعرے لگا رہے تھے اِس استقبالی ہجوم میں ایک آٹھ نو برس کا بچہ بھی شامل
تھا جس نے اپنے جسم پر صرف ایک لنگی پہن رکھی تھی،فرط مسرت اور جوش سے اُس
کا چہرہ تمتا رہا تھا اور وہ بھی لوگوں کے ساتھ زور زور سے ”پاکستان زندہ
باد،پاکستان زندہ باد “ کے نعرے لگا رہا تھا،قائد اعظم محمد علی جناح نے
بچے کے جوش و جذبے کو محسوس کرتے ہوئے گاڑی روکنے کا حکم دیا اور بچے کو
اپنے پاس بلوایا،یہ صورتحال دیکھ کر بچہ گھبرا گیا قائد اعظم نے بچے کو
پیار کیا اور اسے حوصلہ دیا جس سے بچے کی گھبراہٹ میں کمی واقع ہوئی،آپ نے
بچے سے پوچھا ”تم پاکستان کا مطلب کیا سمجھتے ہو؟ لڑکے نے قائد اعظم کو
جواب دیا ”پاکستان کا مطلب تو آپ بہتر جانتے ہیں ہم تو صرف اتنا سمجھتے ہیں
کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ ”پاکستان“ اور جہاں ہندوؤں کی حکومت وہ ”ہندوستان۔“
اُس وقت قائد اعظم کے ساتھ صحافیوں کا قافلہ بھی سفر کر رہا تھا آپ نے فوراً
صحافیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ”جاؤ مسڑ گاندھی (جو 23مارچ 1940ءکو لاہور
میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد سے مسلسل کہہ رہے تھے کہ وہ پاکستان
کا مطلب نہیں سمجھ سکے )کو بتا دو کہ مسلمانوں کا آٹھ برس کا بچہ بھی
پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے اگر وہ اب بھی نہیں سمجھے تو اِس کا مطلب یہ ہے
کہ وہ سمجھتے خوب ہیں لیکن اعتراف کرنا نہیں چاہتے“ قرارداد پاکستان نے بچے
بچے کے دل و دماغ میں ایک ہی بات نقش کردی تھی کہ ہم ایک الگ قوم ہیں،ایک
ایسی قوم جس کا رہن سہن،تہذیب و تمدن،معاشی اور معاشرتی ضروریات عبادات اور
عبادت گاہیں غرضیکہ زندگی کے تمام معاملات نہ صرف ہندوؤں سے الگ ہیں بلکہ
اُن کے رسم و رواج اور روایات کے بھی یکسر خلاف ہیں ۔
تیئس مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک(مینار پاکستان) میں آل انڈیا مسلم
لیگ کے 27ویں سالانہ اجلاس جس میں لاکھوں کی تعدا د میں مسلماناں ہند شریک
تھے،شیر بنگال مولوی فضل حق نے قرار داد لاہور(جو بعد میں قرار داد پاکستان
کے نام سے موسوم ہوئی) پیش کی تھی اور جسے تمام حاضرین جلسہ نے اتفاق رائے
سے منظور کیا تھا اِس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ”ہندوستان کے مسلمان صرف
اُس دستوری ڈھانچے کو اِس ملک میں قابل عمل سمجھیں گے جسے مرتب کرتے ہوئے
ذیل کے اصول اور اُمور کو پیش نظر رکھا جائے گا،جغرافیائی طور پر متصّلہ
وحدتوں کے صوبے اِس طرح وضع کئے جائیں کہ جو ضروری علاقائی ردّو بدل کے
ساتھ جن میں بلحاظ تعداد زیادہ ہیں جیسے کہ شمال مغربی زون ہیں انہیں باہم
ملاکر ہندوستان کے اندر خود مختار آزاد مملکتیں بنادی جائیں،جن میں یہ
بنائے گئے یونٹ آزاد اور خودمختار ہوں۔“
اِس اجلاس میں قرار داد لاہور کی منظوری کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر
اور مسلمانان برصغیر کے متفقہ قائد قائد اعظم محمد علی جناح نے تاریخ ساز
خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ”لفظ قوم کی تعریف کی رو سے
مسلمان ایک قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحد ہ وطن،اپنا علاقہ اور
اپنی مملکت ہونی چاہئے......میں کہتا ہوں کہ جب تک آپ اپنے نصب العین کو
اپنے خون میں رچا بسا نہیں لیتے جب تک اپنی تمام آسائشات ترک کرنے کیلئے
تیار نہ ہوں گے،جب تک اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے آمادہ نہ ہوں گے،جب تک
اپنے لوگوں کیلئے بے غرضانہ،مخلصانہ اور صدق دلانہ کام کرنے کیلئے مستعد نہ
ہوں گے اُس وقت تک آپ کو کبھی احساس نہ ہوگا،نہ آپ اپنے نصب العین کو پہچان
سکیں گے،دوستوں ! اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ پہلے آپ قطعی طور پر ارادہ
کرلیجئے پھر تدبیریں سوچئے،اپنے لوگ بیدار ہوچکے ہیں انہیں صرف آپ کی
رہنمائی کی ضرورت ہے، اسلام کے جانثاروں کی طرح آگے نکل بڑ ھیئے،مجھے یقین
ہے کہ آپ ایک ایسی قوت بن جائیں گے جسے دوسروں کے لئے قبول کرنے کے سوا
چارہ نہ ہوگا۔“
قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ تاریخی خطاب اور مولوی فضل حق کی پیش کردہ
قرار داد لاہور مسلمانان برصغیر کی منزل کیلئے نشان راہ ثابت ہوئی،مسلم لیگ
نے اِس اجلاس کے دوران مسلمانوں کیلئے جو نصب العین متعین کیا پوری قوم اُس
کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہوگئی،پاکستان کے نعرے نے مسلمانوں میں ایک نئی
روح پھونک دی اور وہ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد و منظم ہوکر قائد اعظم
محمد علی جناح کی قیادت میں 14اگست 1947ءکی صبح آزادی تک آگے ہی آگے بڑھتے
چلے گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد
علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں صرف سات سال کے مختصر عرصے میں اپنے
دونوں دشمنوں انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزادی حاصل کر لی اور 14اگست
1947ءکو تاریخ عالم میں دنیا کی سب سے پہلی اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان
کے نام سے معرضِ وجود میں آگئی ۔
انیس سو ستاون کی جنگ آزادی سے لے کر تخلیق پاکستان تک مسلمان برصغیر نے
کئی ادوار دیکھے تھے مگر 23مارچ 1940ءکا دن اُن کے تصورات و خوابوں کی
تعبیر کا پیغام لے کر آیا،قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک مرتبہ ارشاد
فرمایا تھا کہ”پاکستان اسلامی اقدار کی تجربہ گاہ بننے والا ہے“ قائد اعظم
کے نزدیک پاکستان کا یہ تصور دراصل وہی”نظریہ اسلام “تھا جس کی بنیاد اور
اساس چودہ سو سال پہلے ریاست مدینہ قائم کر کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ
وسلم نے رکھی تھی،23مارچ 1940ء کی قرار داد پاکستان نے ایک آزاد و خودمختار
سرزمین کے حصول کی جدو جہد اور مستقبل کی اسلامی ریاست کے نظام حکومت کے خد
وخال واضح کرتے ہوئے چار اہم بنیادی اصول و محرکات بھی متعین کئے تھے ۔
اِن میں سب سے پہلا اہم ترین محرک اسلامی حکومت کا قیام تھا،ایک ایسی
اسلامی حکومت جہاں اسلام ہر شعبہ زندگی میں قوت محرکہ کے طور پر نافذ و
غالب ہو،جہاں ظلم کی بیخ کنی ہو اور عدل کی حکمرانی کا قانون بلا امتیاز
رنگ و نسل جاری و ساری ہو،اور جہاں شورائی جمہوریت کا نظام نافذ ہو اور
ایوان نمائندگان کا چناؤ اُن کی صلاحیت کارکردگی اور تقویٰ کی بنیاد پر کیا
جائے، قرار داد پاکستان کی دوسری بنیادی اساس ایسی اسلامی قومیت تھی جس کی
شناخت نہ وطن تھی اور نہ ہی رنگ و نسل اور زبان و علاقہ،بقول اقبال ”بازو
تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے۔“ یہی
دینی وحدت رنگ و نسل،زبان و علاقہ کے تفرقات سے بالاتر ہو کر مسلمانوں کو
متحد رکھنے کی سب سے بڑی وجہ تھی،قرار داد پاکستان کا تیسرا اہم محرک اسلام
کا وہ تابناک سیاسی،سماجی اور ثقافتی نظام تھا جو چودہ سو سال سے انسانیت
کے دامن میں فیوض وبرکات کے ثمرات ڈال رہا تھا،ایسا شاندار اور تابناک
تاریخی ورثہ رکھنے والی قوم کی شناخت ناچ گانا،بھنگڑااور غیر اسلامی رسومات
نہیں ہوا کرتی،اور نہ ہی ایسی قوم کی ہیرو طبلے کی تھاپ پر ناچنے گانے والے
ہوسکتے ہیں،ہماری تاریخ تو خالد بن ولید،طارق بن زیاد،سلطان صلاح الدین
ایوبی اور شیر میسور ٹیپو سلطان جیسے ہزاروں سپوتوں سے بھری ہوئی ہے،ہمارا
سرمایہ افتخار وہ اسوہء حسنہ ہے جس نے ہمیشہ تاریک ظلمتوں میں نور کا اجالا
پھیلایا،قرار داد پاکستان کا چوتھا اور اہم محرک پرُ امن بقائے باہمی کا
ایسا ماحول تھا جس میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اپنے سیاسی،سماجی
اور معاشرتی اقدار کے مطابق آزاد و خودمختار زندگی بسر کر سکیں،ہر طرف امن
و سکون کا دور دورہ ہو اور ہر کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو ۔
آج پاکستان کے قیام کے64سال بعد بھی ہمیں اپنی قومی زندگی میں یہ چاروں
محرکات دور دور تک نظر نہیں آتے،ہر طرف لوٹ مار، افراتفری اور سیاسی انارکی
ہے،ملک و قوم کے درد سے عاری عناصر پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں
اور اِن سب سے بڑھ کر سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جس پاکستان کیلئے
مسلمانان برصغیر نے اپنی جان ومال اور عزت و آبرو کی قربانی دی تھی،آج اُسی
پاکستان کے وجود کو یہ کہہ کر متنازعہ بنایا جارہا ہے کہ قیام پاکستان کا
جذبہ محرکہ ایک اسلامی فلاحی مملکت کا قیام نہیں بلکہ ایک ویسٹرن لبرل
اسٹیٹ تھا۔آج پاکستان کی جو دینی،سیاسی،سماجی اور اقتصادی حیثیت ہے وہ کسی
طور بھی علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر،قرارداد پاکستان اور قائد اعظم محمد
علی جناح کے افکار و نظریات اور مسلمانان برصغیر کی قربانیوں کی تصویر نہیں
ہو سکتی ۔
پاکستان کو اسلامیان ہند اور تمام مسلم دنیا کیلئے ایک ٹھوس تشخص فراہم
کرنا تھا لیکن آج پاکستان خود اپنے تشخص سے محروم نظر آتا ہے،اِن تلخ حقائق
کے باوجود اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علامہ اقبال نے ایک ایسے
پاکستان کا خواب دیکھا تھا،قائد اعظم نے ایک ایسے پاکستان کی تحریک برپا کی
تھی اور مسلمانان برصغیر نے ایک ایسے پاکستان کیلئے اپنا سب کچھ نذر کیا
تھا جس میں کسی نواب، چودہری،ریئس، زمیندار،صدر،یاوزیر اعظم کا قانون نہیں
بلکہ اللہ اور اُس کے رسول کا وہ قانون نافذ ہوگا جو ہر ایک کو عزت
نفس،مساوات اور انصاف کی ضمانت فراہم کرے گا،جس پاکستان میں چند خاندانوں
کی سیاسی اور معاشی اجارہ داری نہیں ہوگی اور جس پاکستان میں ایسی تفریق
اور ایسے امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی کہ حکمرانوں کی اولاد ہمیشہ حاکم
رہے گی اور مزدور کا بیٹا مزدور اور ہاری کا بیٹا ہمیشہ ہاری رہے،جس
پاکستان میں افراد نہیں بلکہ ادارے مضبوط ہوں گے اور جس پاکستان میں اقتدار
اعلیٰ اُس کے عوام کے پاس ہوگا اور حکمران عوام کے خادم نظر آئیں گے ۔
یہی وہ پاکستان تھا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا،جسے قائد اعظم نے حاصل
کرنا چاہا اور جس کے کیلئے لاکھوں مسلمان آگ و خون کے دریا سے گزر
ے۔1857ءکی جنگ آزادی سے لے کر 14اگست 1947ء کی صبح آزادی تک تشکیل پاکستان
کا سفر تھا،64سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کا خواب ابھی تشنہ تعبیر تکمیل
کا متقاضی ہے،حصول زمین کے ساتھ تشکیل پاکستان کا ایک مرحلہ تو مکمل ہوگیا
لیکن تکمیل پاکستان کا مرحلہ اب بھی باقی ہے،23مارچ کا دن ہمارے لیے قدرو
منزلت کا باعث اور روشنی کی علامت ہے یہ دن ہمیں احساس دلاتا ہے کہ جس طرح
برصغیر کے مسلمان ذات پات،رنگ ونسل کی برتری کے احساس کو مٹاکر ایک سبز
ہلالی پرچم تلے اکھٹے ہوگئے تھے بالکل اُسی طرح آج ایک بار پھر ہمیں تمام
باطل امتیازات کو مٹانا ہوگا اور باہم متحد و منظم ہوکر اُس وقت جدوجہد
جاری رکھنا ہوگی جب تک کہ تکمیل پاکستان کی منزل نہیں آجاتی ۔
نجات و دید ہ و دل کی گھڑ ی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی |