پولیس والے ماریں تو پھر انقلاب کیسے آئے گا۔۔

میں نے کتنی ہی بار یہ ویڈیو دیکھی ۔۔ کتنی بار بولنے والے کے الفاظ پر غور کیا ۔۔ کئی مرتبہ روک روک کر بولنے والے کے جذبات کو دیکھتا رہا ۔ کتنی بار میں اس ویڈیو کی گہرائی میں اتر دیکھتا رہا ۔ لیکن اس ساری ویڈیو میں ایک ایسا فقرہ آیا کہ جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔ مجھے بولنے والے چہرے کے خدوخال سے زیادہ الفاظ کی چوٹ نے مایوس کیا ۔

یہ کیسا انقلاب ہے ۔۔۔ یہ کونسا انقلاب ہے ۔۔۔ اس انقلاب کا بانی کون ہے ۔۔۔ اس انقلاب کے مقاصد کیا ہیں ۔۔۔ کیا یہ انقلاب ایسے لوگ لائیں گے ۔۔ کیا انقلاب کا لفظ اتنا سستا ہو گیا کہ بازاروں اور چوراہوں میں اس کی سیل لگ جائے ۔۔

انقلاب پر غور کرتا ہوں تو تاریخ کے جھروکوں میں وہ انقلاب نظر آتا ہے جس نے تاریخ انسانیت میں وہ تبدیلی پیدا کی کہ وقت کے خداؤں کا غرور چرواہوں ، بدھوں ، اور غلاموں کے سامنے ریزہ ریزہ ہو گیا ۔ اُس انقلابیﷺ کی طرف نظر جاتی ہے تو اس کو چٹائی پر سویا ہوا پاتا ہوں ، اس ﷺ کو مزدوروں کے ساتھ کام کرتا دیکھتا ہوں ، اس کو بھاری بھاری پتھر خود اٹھاتے دیکھتا ہوں۔۔

جس ﷺ نے ایک اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا تو اس کے جوتیوں کو پتھر لگنے والے زخموں سے رسنے والے خون سے بھرا ہوتا محسوس کرتا ہوں ۔ آج بھی شعب ابی طالب کی گھاٹی جس کی مظلومیت کی گواہی دیتے ہوئے مرد مجاہد کی جوانمردی اور صبر کی داد دیتی ہے ۔ اُس عظیم انسان کے عظیم انقلاب پر نظر جاتی ہے تو انقلاب کا معنی سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔۔

لیکن !!!

یہ جب محلات کے رہائشی ، لندن کے مقیم ، سیکنڑوں رقبوں پر پھیلے ہوئے گھروں اور فارم ہاؤسز کے مالک ، بے ضمیر اور بے حمیت نام نہاد لیڈرز کو اس پاکیزہ لفظ انقلاب کا نعرہ لگاتا دیکھتا ہوں تو دل کر تا ہے کہ اردو کی ہر ڈکشنری سے انقلاب کا لفظ نکا ل دوں یا کم از کم اس کے معنیٰ تبدیل کر دوں ۔۔

پھر سوچتا ہوں کونسا انقلاب ؟ ۔۔۔
یہ کیسا انقلاب ہو گا۔۔۔۔۔۔
جس میں بوری میں بند لاشیں ملیں گی؟
جس میں بچوں کے سر سے سایہ اور عورتوں کے سہاگ چھن جائیں گے ۔
جس میں آگ و خون کے سائے تلے لاشوں کے انبھار لگیں گے۔
جس میں ذاتی عناد اور لسانیت کے نعرہ مستانہ لگا کر دوسری قومیت کے لوگوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ دیا جائے گا ؟
یا جس میں بھتہ خوری اور پیسے کے لالچ سے لوگوں کا کاروبار اور رہن سہن مشکل بنا دیا جائے گا؟

کونسا انقلاب ہے یہ اور کیسے ہیں یہ انقلابی ؟ سوچتا ہوں تو دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے ۔ بلاد العروس کے بعد پنجاب کے میدانوں سے ابھر نے والے انقلابیوں کو دیکھتا ہوں تو انقلاب کی بازگشت میں رائے ونڈ اور جاتی عمرہ کے محلات کے انقلابیوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ واہ کیسا ہے آج کے انقلاب کا ماڈل ۔۔ کتنا جدید ہو گیا ہے یہ انقلاب ، مملکت خداداد پر دو مرتبہ حکمرانی کرنے والے انقلابی کو انقلاب اس وقت یاد آیا جب اسی کے دور میں مایوس کی گئی قوم جس کا انقلاب اس کا پیٹ بھرنا ہے ، جس کا انقلاب اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینا ہے ۔ اور اب جو انقلاب سے کوسوں دور جا چکی ہے اس کو جگانے میں لگا ہے ۔ اور دوسری طرف اسی سرزمین کے سپوت کا انقلابی نعرہ سنتا ہوں تو درج بالا ویڈیو کا کردار میرے سامنے آتا ہے ، جو حلیے سے فرانس اور برطانیہ کا باشندہ لگتا ہے ، جس کو اردو بولنے میں دقت ہو رہی ہے ، جس کے وقت اتنا ہے کہ وہ جلسے جلوسوں میں اپنا وقت گزارنے آیا ہے ۔ جس کے الفاظ اس کے جذبات کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ جن کو پولیس والوں نے امیریکن کونسل خانے جانے سے روکا ۔ اسکے ایک ہاتھ میں تحریک انصاف کا جھنڈا ہے اور دوسرا ہاتھ جینز کی جیب میں ۔۔۔۔۔۔ اور جس سے آج نیوز کا نمائندہ پوچھا ہے تو کہتا ہے ۔
'' اگر یہ پولیس والے ماریں تو پھر انقلاب کیسے آئے گا "

بے ضمیر ،ذاتی مفادات کی سیاست ، اور قومی غیرت کے سوداگر حکمرانوں نے ہماری قوم کو کس طرف لگا دیا ہے ۔ بے مقصدیت اور بے منزل قوم میں لسانیت ، قومیت ، نسل ، برادری کا زہر اس قدر بھر دیا ہے کہ ہر وہ بات انقلاب لگنے لگتی ہے جس کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔

ایک طرف وہ انقلابی ہیں جن کے لیڈرز خود عوام کے اندر ہیں ، جو اٹھتے ہیں تو عوام میں ، جو بیٹھتے ہیں تو عوام میں ، جن کے اپنے مسائل بھی عوامی ہیں ، جن کے پاس نہ کوٹھیاں نہ کاریں جنہوں نے اس ملک کے لئے بیچ بازار ماریں کھائیں ، جن کی داڑھیوں کو بے دردی سے نوچا گیا ۔ جنہوں نے اس ملک کی خاطر جان کی قربانیاں دیں ، جن کو میڈیا کے زور پر دہشت گرد، رجعت پسند اور بنیاد پسند کہا گیا ، جن کو نہ پیسا چاہئے ، نہ بینک بیلنس چاہئیں ، جن کو لمبی لمبی کوٹھیاں اور سیلیوٹ کرتے ایس ایچ او نہیں بلکہ ایک فلاحی اور اسلامی پاکستان چاہئے ۔۔۔

دوسری طرف عیش وعشرت میں ڈوبے نام نہاد انقلابی ہیں جن کے انقلاب میں کشت و خون ، کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور دوھوکہ دہی ہے ۔ جن کے بیچارے کارکن اپنے لیڈر کے منہ سے انقلاب کا لفظ اتنا سنتے ہیں کہ وہ لفظ تو دھراتے ہیں لیکن ایک حقیقی انقلاب سے نا آشنا ہیں ۔

اگر مشکلیں نہیں سہنیں ، اگر کٹھن راستہ سے گزرنا نہیں ، اگر قیدو بند کی صہوبتیں نہیں برداشت کرنی تو معذرت کے ساتھ پھر انقلاب کیسا ؟
Awais Aslam Mirza
About the Author: Awais Aslam Mirza Read More Articles by Awais Aslam Mirza: 23 Articles with 61522 views ایک عام انسان جو معاشرے کو عام سے انداز سے دیکھتا ہے ۔ .. View More