آسمان نے اس زمین پر سفید چمڑی والے سیاہ دلوں کے مالک
سوداگروں کو دیکھا جو تاجر بن کر آۓ اور قابض ہو گٸے .آسماں اس منظر کا
گواہ بھی ہے جب یہ دھرتی خون میں نہا گٸی جابجا بکھری لا وارث لاشوں کو اس
زمیں نے پناہ دینے سے انکار کر دیا مگر الّلہ کے ماننے والوں نے جرأت اور
قربانی کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ آنے والی نسلوں کے لٸے اپنے خون کا
آخری قطرہ تک اس مٹی پر بہا دیا اور اسے زرخیزی بخشی۔پھر اسی زمین پر آسمان
نے ٤٨، ٦٥ ٧١ ، کارگل اور باقی چھوٹے بڑے ہر مخاذ پر شمع توحید کے پروانوں
کو قربان ہوتے دیکھا ...کوٸی راشد منہاس بنا ، کوٸی عزیز بھٹی ، کوٸی لالک
جان ، کوٸی شیر خان ، کوٸی شبیر شہید ، کوٸی سوار حسین کوٸی ایم ایم عالم ،
کوٸی مقبول حسین بن کر وفا کی لازوال داستان رقم کر گیا اور نہ جانے کتنے
اور نام ...ضرب۔عضب رد الفساد اور باقی چھوٹے بڑے آپریشنز میں دھرتی کے
بیٹے جانوں کا نزرانہ پیش کرتے رہے اور اب تک اس زمیں پر قربان ہو رہے ہیں
.
اس مٹی نے نہ جانے کتنے شہیدوں کا خون پیا اور پیاسی کی پیاسی رہی ...
جب آسماں یہ مناظر دیکھ رہا تھا تو اُسی آسماں نے اس زمین پر ظلم و جہل کی
داستانوں کو رقم ہوتے بھی دیکھا۔ اسی آسماں نے دیکھا کہ اس زمین کے باسیوں
نے حق سے منہ موڑ لیا ، اپنے آباٶ و اجداد کی ان گنت قربانیوں کو بھول گٸے
جرأت و بہادری کی دا ستانوں کو فراموش کر گٸے کیونکہ وہ تو ان گنت ہیں اور
بھلا اتنی ان گنت چیزیں کسے یاد رہتی ہیں (ویسے بھی وہ کون سا موجودہ نسل
کے خالہ زاد تھے جن کی قربانیوں کو یہ نسل یاد رکھتی انہیں تو یہ یاد رکھنا
مشکل ہو جاتا ہے کہ کل کون سی سوشل میڈیا ساٸٹ پر لیکچر دیا تھا اور آج
کہاں کہاں دینا ہے) قاٸد اعظم اور علامہ اقبال کا پڑھایا سبق کون پڑھے اور
یاد رکھے اور پھر اس پہ عمل بھی کرے اس نسل سے تو اپنے سبق یاد نہیں ہوتے ۔
آسماں نے اقتدار کی ہوس میں نام نہاد جمہوری اور غیر جمہوری طاقتوں کو آپس
میں لڑتے، دھرتی کے ٹکڑے کرتے اور مٹی کے وقار کو اپنے مفادات کے لۓ بیچ
کھاتے بھی دیکھا . کبھی آمریت نے جمہوریت کا لبادا اوڑھ کر زمین کا مالک
بننا چاہا تو کبھی ملوکیت کی پیدوار جمہوریت کی علم بردار ہونے کا دعویٰ
کرتی نظر آٸی۔
آسماں اب بھی اس قوم کی حالت۔زار کو دیکھ رہا ہے کہ یہ قوم اپنے ان نام
نہاد غیرت و جرأت والے رہنماٶں کے لٸے آپس میں دست و گریباں ہے جو اگر اس
قوم کو دیکھتے بھی ہیں تو اپنے مفادات کی عینک لگا کر۔ اور بھلا ایسا کیوں
نہ ہو کیا تم نے سنا نہیں "جیسی قوم ویسے حکمران ۔" اس زمین پر جو خون بہا
تھا وہ الّلہ کے نام پر بہا تھا یہ وطن الّلہ کے نام پر بنا تھا مگر یہاں
تو فرقہ واریت کی جنگ لگی ہے ۔ان کے باپ داد نے کافروں سے ان کو الگ کرنے
کے لۓ جانیں دے دیں اور یہ کافروں سے علیحدہ ہوۓ یہ لوگ اب نہ صرف کافروں
کی تقلید کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو کافر کہہ کر خود کو دین۔ اسلام کا سچا
اور پکا سپاہی بھی کہلواتے ہیں !!
بحثیت قوم آج ہم اس قابل ہی نہیں ہیں کہ شہیدوں کے لہو کی ایک بوند کا بھی
قرض چُکا سکیں ..ہم اس قابل ہی نہیں کہ خود کو شہیدوں کا وارث کہیں ۔
خدا اس قوم کا حامی و ناصر ہو ورنہ قوم تو اس قابل نہیں.
چلو آٶ تم کو دکھاٸیں ہم جو بچا ہے مقتل۔شہر میں ...
یہ مزار اہل۔صفا کے ہیں ، یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں...
(اہل۔صفا کے مزار اور اہل۔صدق کی تربتیں ۔۔۔۔یہاں بھی اس قوم نے سیلفیاں
لینی شروع کر دینی ہیں کہ اپلوڈ بھی تو کرنی ہیں کہ دیکھو لوگو ہم گٸے تھے
شہیدوں کی قبروں پہ فاتحہ پڑھنے)
تحریر: لاٸبہ عبدالرحمٰن
|