۲۲ مارچ کو پوری دنیا میں
آبی وسائل کا دن منا یا جارہا ہے اس دن پا نی کے حوالے سے در پیش مسا ئل کے
حل کے لیے ورلڈ فورم کا انقعاد کیا جا تا ہے دنیا کو صاف پا نی مہیا کر نے
کا خواب دیکھنے والوں کا سب سے بڑا اجتماع” ورلڈ وا ٹر فورم “ جس کا اجلا س
ہر تین سال بعد ہو تا ہے اس فورم کی خصو صیت یہ ہے کہ اس میں ۰۸۱ ممالک کے
۰۰۰،۰۲ ہزار افراد حصہ لیتے ہیں جن میں ۰۹ وزراُ ‘ ۰۵۲ ارکا ن پارلیمنٹ ‘
سا ئنس دانوں اور پا نی فروخت کر نے والے پیشہ ور شامل ہو تے ہیں۹۰۰۲ءمیں
اس کا آخری اجلاس تر کی کے شہر مار سیلی میں ہوا آئندہ۲۱۰۲ء میں ہو نے
والے اجلا س کی میز بانی فرانس کے حصہ میں آئے گی آبی ما ہرین کا کہنا ہے
کہ آئندہ آنے والی دھائیوں میں ملکوں کے درمیان جنگ آبی وسائل کے حصو ل کے
لیے ہو گی اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر گھمبیر مسئلہ ہے پا
کستا ن جیسے ترقی پذیر ملک جہا ں کروڑں لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے
ہوں جہا ں خون پا نی سے بھی ارزاں ہو گیا ہو وہا ں لوگ آنے والے دنوں کی
منصوبہ بندی پر کس طرح صرف نظر کر سکتے ہیں بیشتر ترقی یافتہ ممالک آنے
والے دنوں کی جامع حکمت عملی میں مصروف عمل ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ دوسرے
ترقی پذیر ممالک کے آبی ذخائر پر قبضے کی کوششیں بھی جا ری ہیں جس طرح اسر
ئیل نے فلسطین اور اردن کا پانی روک رکھا ہے اسی طرح ہر سال بھارت پاکستان
کے آبی حصہ داری پر ڈاکہ ڈالتا رہا ہے ۔
پا نی جیسی اہم ضرورت پر قبضے کی کہا نی بہت پر انی ہے جو لوگ دنیا کے تما
م وسائل اپنے قبضے میں رکھنے کے خوا ہش مند ہو تے ہیں وہ اس با ت سے ضرور
آگا ہ ہیں کہ پا نی انسان کی بنیا دی ضرورتوں میں شامل ہے اگر ہم اسلا می
تاریخ پر بھی نظر ڈا لیں تو اوائل اسلا م کے زما نے میں مسلما ن ودیگر قبا
ئل کے لو گ کس طرح پا نی کے حصول میں سر گرداں رہتے تھے اور حضرت عثما ن
غنی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی ایک روایت بےحد مشہور ہے جس میں انھوں نے مکہ
کے سب سے بڑے (آبی ذخیرہ )کنواں کو ایک یہودی سے منہ ما نگے داموں خرید کر
اسے بلا مذہب وتفریق تما م مکہ والوں کے لیے وقف کر دیا تھا یہ ان کی سخاوت
کی بے شما ر بے مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔آج کی دنیا میں پا نی کے حوالے
سے بہت گرما گرمی پا ئی جاتی ہے خصو صاً وہ ترقی یا فتہ ممالک جہا ں پا نی
کے مسائل نہیں وہ بھی دوسرے تر قی پذ یر ممالک کے آبی ذخا ئر پر حر یصا نہ
نظر یں جما ئے ہو ئے ہیں یہ ترقی یا فتہ ممالک ورلڈ بنک کے مضبو ط رکن کی
حیثیت رکھتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو دیے گئے قرضے کی کڑی شرائط میں سیا
ہ وسفید کے مالک ہو تے ہیں غریب ممالک کی بقاء کا دارو مدار اسی قرضے اور
غیر ملکی امداد پر ہو تا ہے لہٰذا یہ کسی دبا ﺅ اور شرائط کو نہ کہنے کی پو
زیشن میں نہیں ہو تے ان کی مجبوریوں کا فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے ورلڈ بنک نے
پانی کی نجکا ری کی پا لیسی متعارف کر ائی ہے جس کے تحت پا نی کی پوری پوری
قیمت وصول کی جائے گی اس کی ایک مثال ورلڈ بنک نے ۵۰۰۲ء میں اپنے مقروض ملک
بو لیویا (جنو بی امریکہ) میں ورلڈ بنک کے احکام نے حکومتی کابینہ کے اجلا
س میں شرکت کی اور بو لیویا کے تیسرے بڑے شہر” کوچابا ما“ میں صاف پانی کی
فراہمی کے لیے ۵۲ میلین امریکی ڈالر قر ضہ دینے سے انکا ر کر دیا شرط یہ
رکھی گئی کہ حکومت جب تک پہلے پا نی کے نظام کو نجی ملکیت میں نہیں دے دیتی
اور اسکے اخراجات صا رفین پر نہیں ڈالے جا تے یہ قرضہ نہیں دیا جا سکتا اس
ضمن میں ہو نے والی نیلا می میں صرف ایک ٹینڈر کو منظور کیا گیا جس کی
سربراہی بد نا م زما نہ ایک بڑی انجینئر کمپنی کے پا س تھی جس نے چین میں
تین بڑ ے ڈیموں کی تعمیر میں بڑی کرپشن کی تھی لیکن ورلڈ بنک کے دبا ﺅ میں
آکر اس کمپنی کو کا م سونپ دیا گیا اس کمپنی نے ابھی کا م شروع بھی نہیں
کیا تھا کہ پا نی کی قیمتیں دوگنی کر دی گئی بو لیویا کے عوام کے لیے اب پا
نی کا حصول غذا سے بھی مہنگا ہو گیا تھا ان لو گوں کے لیے جو کم آمدنی
رکھتے تھے یا جن کا کو ئی ذریعہ معاش نہ تھا ان کے لیے اس طرح زندگی گزارنا
قابل برداشت ہو گیا پانی کے بل ان کے گھریلو بجٹ کی آدھی رقم بہا لے جا تا
عوام کی زندگی مزید اجیرن بنا نے کے لیے ورلڈ بنک نے مر اعات یا فتہ طبقے
کو پا نی کے نرخ مقر ر کرنے کا مکمل اختیار دے دیا نیز حکومت کو تنبیہ کی
گئی کہ اس کی قرضے دی گئی رقم پا نی کے غریب صارفین کو سبسڈی دینے کے لیے
استعمال نہیں کی جا ئے گی کسی بھی ذریعے سے حاصل ہو نے والے پا نی کو خواہ
وہ کمیو نٹی کنو یں سے ہی کیو ں نہ نکالا گیا ہو اس کے حصول پر پا بندی لگا
دی گئی ان تما م شرائط کی ورلڈ بنک یہ دلیل دیتا ہے کہ غریب حکومتیں اکثر
بد عنوانی کا شکا ر ر ہتی ہیں لہٰذا غریب عوام کو پا نی کے نظام کو بہتر
طور پر چلا نے کے مؤ ثر انتظام اور آلا ت سے قا صر رہتی ہیں اس ضرورت کو
پورا کر نے کے لیے ورلڈ بنک سرما یہ کاری اور ہنر کے نئے راستے کھو لتا ہے
یہ الگ با ت ہے کہ پا نی کی قیمت میں اضافے سے غربت کی شرح میں مز ید اضافہ
ہو تا ہے پانی کے حوالے سے ورلڈ بنک نے جو کڑی شرائط رکھ کر ترقی پزیر
ممالک کو اپنے بس میں کیا ہوا ہے ا س میں ارجنٹائن ،کو لمبیا ، چلی،
ایکواڈور ، مر اکش اور فلپا ئن شامل ہے اگر ہم اپنے ملک کی پا کستا ن کی با
ت کریں تو ہم بھی اسوقت ورلڈ بنک کے شکنجے میں پھنسے ہو ئے لیکن خدا کا شکر
ہے کہ حالات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ ورلڈ بنک ہمارے آبی وسائل کی بابت
فیصلے کرنے کا مجاز ہو لیکن یہ ہماری بد قسمتی بھی ہے کہ پاکستان اپنے بیش
بہا وسائل کے باوجود مشکلا ت کا شکار ہے جب بارش نہ ہو تو ہم قحط سالی کا
شکا ر ہوجا تے ہیں اور اگر با ران رحمت برس پڑے تو ہم اس ذخیرے کو محفو ظ
کر نے بجا ئے سیلا ب کے ہا تھوں ہلا کتوں سے پریشان ہو تے ہیں اس مسئلہ سے
نبٹنے کے لیے ہماری حکومت کو مو ثر حکمت عملی کی ضرورت ہے بھارت ہما رے آبی
وسائل پر قا بض ہو نے کے لیے در جنوں ڈیمز بنا رہا ہے تا کہ ہما ری زرعی
زمینوں کو بنجر کر سکے موسمیا تی تبدیلیوں کے با عث آئیندہ آنے والے سالوں
میں آبی مسا ئل کی ٹھوس منصوبہ بندی کر کے ہم آزاد اور ترقی یا فتہ ممالک
کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ |