پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے انڈیا کو
مذاکرات کی مشروط پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو دو طرفہ مذاکرات پر
کوئی اعتراض نہیں جبکہ کسی تیسرے فریق کی معاونت یا ثالثی کو بھی خوش آمدید
کہا جائے گا۔
|
|
بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا
کہ پاکستان نے مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا لیکن انڈیا کی جانب سے
مذاکرات کا ماحول دیکھائی نہیں دے رہا۔
’ایسے ماحول میں جہاں کرفیو نافذ ہے، لوگ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا
ہیں، گینگ ریپ ہو رہے ہیں، لوگ قید و بند کی صعبتیں برداشت کر رہے ہیں مجھے
تو مذاکرات کا کوئی ماحول دکھائی نہیں دے رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے کرفیو فوری ہٹایا
جائے، لوگوں کے حقوق بحال کیے جائیں، پوری کشمیری قیادت جو پابند سلاسل ہے
اس کو رہا کیا جائے اور انھیں (شاہ محمود) کشمیری قیادت سے ملنے کی اجازت
دی جائے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
’اس جھگڑے کے تین فریق ہیں۔ انڈیا، پاکستان اور کشمیر۔ میں سمجھتا ہوں کہ
اگر انڈیا سنجیدہ ہے تو پہلے کشمری رہنماؤں کو رہا کرے اور مجھے اجازت دے
کہ میں کشمیری قیادت سے مل پاؤں اور مشاورت کر سکوں۔ مجھے ان (کشمیری قیادت)
کے جذبات دیکھنا پڑیں گے۔ ان کے جذبات کو پامال کر کے اور کشمیریوں کے
جذبات کو روند کر مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھا جا سکتا۔‘
جنگ کوئی آپشن نہیں
شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ پاکستان کے پاس جنگ کا کوئی آپشن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کبھی جارحانہ پالیسی نہیں اپنائی اور اس کی
ترجیح ہمیشہ امن ہی رہی ہے۔
|
|
انھوں نے مزید کہا کہ موجود حکومت کو برسرِاقتدار آئے ہوئے ایک سال ہوا ہے
اور اس عرصے کے دوران حکومت نے متعدد مرتبہ انڈیا کو بیٹھ کر اس مسئلے کو
گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کو کہا کیونکہ جوہری ہتھیاروں کے حامل دو
پڑوسی ممالک جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
’(جنگ سے) لوگوں کی بربادی ہو گی، دنیا بھی اس سے متاثر ہو گی، تو جنگ کوئی
آپشن نہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی جس طرح 26 فروری کو
کی گئی تھی تو افواج پاکستان بھی تیار ہیں اور قوم بھی۔
’26 فروری کو کی گئی جارحیت کا 27 فروری کو منہ توڑ جواب دیا گیا تھا،
انڈیا کے دو جہاز مار گرائے اور ان کے پائلٹ کو گرفتار کیا۔ آپ نے دیکھا کہ
ایک بڑا موثر غزنوی میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے، تو قوم بلکل تیار ہے۔‘
پاکستان کی کامیاب سفارت کاری
پاکستان کی سفارتی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی
کامیابی یہ ہے کہ ایک مسئلہ جو سالہا سال نظروں سے اوجھل رہا وہ ’سینٹرل
سٹیج‘ پر آ گیا ہے۔
’پوری دنیا میں اس پر بحث ہو رہی ہے۔ مغرب میں احتجاج ہو رہے ہیں اور
سلامتی کونسل میں 54 برسوں بعد یہ معاملہ زیرِ بحث آیا ہے۔ جو مسئلہ بیک
برنر پر تھا آج بین الاقوامی ہو گیا ہے۔‘
خلیجی ممالک کی جانب سے کشمیر پر موثر آواز نہ اٹھانے اور متحدہ عرب امارت
اور بحرین کی جانب سے انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کو ایوارڈز سے نوازنے
پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک کے انڈیا
سے کاروباری روابط اور دو طرفہ تعلقات ہیں تاہم کشمیر کے معاملے پر ان کا
موقف واضح ہے۔
|
|
’وہ (خلیجی ممالک) ہمارے دوست ممالک ہیں جنھوں نے آڑے وقت میں ہمارا ساتھ
دیا جب پاکستان کی معشیت دباؤ میں تھی۔ پاکستان ڈیفالٹ کرنے والا تھا، قوم
کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کیا عرب امارات اس وقت ہماری مدد کو نہیں آیا تھا
کیا سعودی عرب نے ساتھ نہیں دیا؟ آج لاکھوں پاکستانی سعودی عرب اور عرب
امارت میں روزگار حاصل کر رہے ہیں کیا ان کی مالی ترسیلات نہیں آ رہی ہیں؟
جب آپ ایک رائے بناتے ہیں تو پوری تصویر کو سامنے رکھ کر بناتے ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو مایوس ہونے کی ضرورت
نہیں جب حقائق سامنے آئیں گے تو وہ (خلیجی ممالک) ساتھ دیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی مستقبل قریب میں متحدہ عرب امارت کے وزیرِ خارجہ
سے بھی بات ہو گی اور وہ انھیں پاکستانیِ قوم کے تاثرات اور جذبات پہنچائیں
گے۔
سعودی عرب کے کردار پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں توقع ہے کہ نیو یارک کشمیر
گروپ کا جو اجلاس ہو گا اس میں سعودی عرب بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا۔ ’جب آپ
اجلاس میں آتے ہیں تو ایک پوزیشن لیتے ہیں اور اس کے نتائج کا کوئی دستاویز
ہو گا جو ان کے ذہن اور پالیسی کی عکاسی کرے گا۔‘
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی عوام کے
آواز کی ترجمانی نہیں کرتی۔ انھوں نے کہا کہ او آئی سی ممالک کے عوام
کشمیریوں کے ساتھ مکمل ہمدردی رکھتے ہیں، حکمرانوں کے مصحلتیں ہوتی ہیں وہ
دو طرفہ تعلقات دیکھ کر نپی تلی بات کرتے ہیں۔
شاہ محمود نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی رائے سوچ کو بدل دیتی ہے اور
جیسے جیسے حقائق سامنے آئیں گے ان (حکمرانوں) کی رائے بدلے گی۔
شاہ محمود قریشی نے نریندر مودی کے اس موقف کو مسترد کیا کہ کشمیر دو ملکوں
کا آپس کا معاملہ ہے۔ ’یہ معاملہ دو ملکوں کا نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح
پر مانا گیا تنازعہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 11
قراردادایں موجود ہیں جس کے تحت انڈیا پابند ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کی تقاریر لوک سبھا کے
ریکارڈ پر موجود ہیں جو سنہ 1948 اور سنہ 1951 میں انڈیا کے مندوب تھے۔ ان
کے خیالات قلمبند ہوئے ان کی تقاریر ریکارڈ کا حصہ ہیں جو اس کو تسلیم کرتے
ہیں کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیرِ اعظم اٹل
بہاری واجپائی پاکستان تشریف لائے تھے تو انھوں نے تسلیم کیا تھا کہ کشمیر
متنازعہ علاقہ ہے اور اسے لیے وہ کمپوزٹ ڈائیلاگ کا حصہ بنے۔‘
|
|
امریکہ سے توقعات
پاکستان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی توقعات ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے
ان توقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات
ہیں وہ اس کو اپنا سٹریجٹک پارٹنر بھی سمجھتے ہیں اور اگر انڈیا کی حکومت
کو کوئی متاثر کر سکتا ہے تو وہ امریکہ کی حکومت ہے۔
’صدر ٹرمپ نے خود کہا کہ وہ ثالثی کے لیے تیار ہیں، پاکستان نے اسے قبول
کیا۔ انڈیا نے صدر ٹرمپ کی خواہش اور مذاکرات کی دعوت کو مسترد کیا۔ انڈیا
نے سکیورٹی کونسل کی قرارداد سے راہ فرار اختیار کی۔‘
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر پر مذاکرات
ہوئے اور یہ کہا گیا کہ مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے تاہم وزیر خارجہ کا کہنا
تھا کہ جنرل مشرف کی حکومت میں بیک چینل پر کچھ پیش رفت ہوئی تھی تاہم اس
میں سب سے بڑی قباحت یہ تھی کہ اس میں کشمیریوں کی آواز شامل نہیں تھی۔ ’آپ
کوئی فیصلہ کشمیریوں کی رائے کے بغیر کیسے کر سکتے ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر یو این ہیومن
رائٹس کمیشن کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ میں ایک انکوائری
کمیٹی بنانے کی تجویز تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے کمیشن کو لکھا ہے کہ
آپ آزاد کشمیر آئیں ہم معاونت کریں گے، آپ کو اجازت ہے جہاں چاہییں جائیں
جس سے ملنا چاہیں ملیں۔ اس کے بعد اسی طرح انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں
جائیں اگر انڈین اس کی اجازت دیتے ہیں اور پھر یہ رپورٹ سلامتی کونسل میں
پیش کریں۔
|