کیا کشمیر کے بچوں کی قسمت میں یہی لکھا ہے؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تین ہفتوں سے زیادہ عرصے سے قید و بند کا ماحول ہے اور کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ مواصلاتی نظام ٹھپ ہے لیکن حکومتی دعوے اس کے برعکس ہیں۔
 

image


حکومت کے مطابق کشمیر میں حالات عام طور پر خوشگوار ہیں اور کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاعات نہیں ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہے کہ کہیں کہیں تشدد اور تصادم کے واقعات پیش آتے ہیں لیکن ان میں زخمیوں کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں ہوتا ہے۔

لیکن جب ہمارے نمائندے ریاض مسرور نے تشدد کے شکار افراد سے ملاقات کی تو اُن کو معلوم ہوا کہ ایسے افراد میں پانچ سال کے بچوں سے لے کر 72 سال تک کے معمر افراد شامل ہیں۔

ان لوگوں کو پیلٹ گنز کے چھرے لگے ہیں جن سے وہ زخمی ہوئے ہیں۔
 


زخمیوں میں ایک پانچ سالہ لڑکی منفیہ نذیر بھی شامل ہیں جو پرانے سرینگر کے علاقے کی رہائشی ہیں اور عید الاضحی کے روز وہ اپنے چچا کے ساتھ قربانی کا گوشت تقسیم کرنے گئی تھیں جب ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا۔

منیفہ نذیر کے چچا فاروق نے پورا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں نے قربانی عید کے پہلے دن کی اور سب لوگوں میں اسے تقسیم کیا۔ ہم شام کو تقریباً ساڑھے چھ بجے گھر آئے۔ اس وقت وہاں سے فورسز کی تعیناتی کی جا رہی تھی۔ صاحب نے مجھ سے رکنے کے لیے کہا تو میں رک گیا۔‘

انھوں نے مزید بتایا: ’پھر انھوں نے ہمیں کہا کہ بیٹا چلو نکلو۔ ہم جانے لگے لیکن پیچھے سے دو فوجی گاڑیاں آ رہی تھیں۔ انھوں نے ایسے ہی غلیل سے پتھر مارا جو سیدھی بچی کی آنکھ میں آ کر لگ گیا۔‘
 

image


’اس وقت نہ تو کوئی پتھراؤ چل رہا تھا اور نہ ہی کوئی مظاہرہ ہو رہا تھا۔ انھوں نے ایسے ہی پتھر مار دیا۔‘

'اس کے بعد سی آر پی ایف (انڈیا کا نیم فوجی دستہ) والوں اور جموں کشمیر پولیس والوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان سے یہ غلطی ہو گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کا ازالہ کریں گے۔'

پانچ سالہ منیفہ کے چچا نے مزید بتایا کہ وہاں پر ’سی آر پی ایف کے ڈی جی صاحب، آئی جی صاحب اور ایس پی صاحب بیٹھے تھے۔ انھوں نے میری بہت مدد کی اور کہا کہ بیٹا کوئی بات نہیں۔ اس کے نصیب میں یہی لکھا تھا مگر یہ ہماری بیٹی جیسی ہے۔ اگر آپ اس کو (علاج کے لیے) باہر بھی لے جانا چاہتے ہو تو ہم اسے باہر بھی لے جائيں گے۔'

یعنی حکام کا کہنا تھا کہ علاج کے لیے اگر بچی کو کشمیر سے باہر بھی لے جانا پڑے تو وہ اس کے اخراجات برداشت کریں گے۔

فاروق نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'سی آر پی ایف کے آئی جی صاحب اور ڈی جی صاحب نے کہا کہ یہ ہماری بیٹی جیسی ہے۔ آپ اسے چندی گڑھ لے جاؤ، دلی لے جاؤ، کہیں بھی لے جاؤ جو بھی خرچ (اخراجات) آئیں گے ہم پورا کریں گے۔'

ریاض مسرور نے دہلی میں ہمارے نمائندے شکیل اختر سے بات کرتے ہوئے بچی کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی کی آنکھ کی پتلی کو نقصان پہنچا ہے اور چونکہ ابھی وہ کم عمر اور کمزور ہیں اس لیے ان کا فوری طور پر آپریشن نہیں کیا جا سکتا ہے۔


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: